الزائمر... بھولنے کی بیماری

ڈاکٹر عبدالمالک  جمعرات 16 ستمبر 2021
 دنیابھر میں تقریباً 55 ملین انسانوں کو بھولنے کا مرض لاحق ہے ۔  فوٹو : فائل

 دنیابھر میں تقریباً 55 ملین انسانوں کو بھولنے کا مرض لاحق ہے ۔ فوٹو : فائل

پاکستان سمیت دنیا بھر میں21 ستمبر کو ’ عالمی یوم یادداشت ‘ منایا جاتا ہے۔ اس سال ’ عالمی یوم یادداشت ‘ کا مرکزی خیال ’بھولنے کی بیماری کو جانیے‘ ہے جس کے لیے اس بیماری کا جلد تشخیص ہونا از حد ضروری ہے ۔

عالمی ادارہ صحت (WHO)کی ویب سائٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیابھر میں تقریباً 55 ملین انسانوں کو بھولنے کا مرض لاحق ہے۔ ان مریضوں میں سے 60 فیصد کا تعلق کم یا درمیانے درجے کی آمدن رکھنے والے ممالک سے ہے۔ جس تناسب سے ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری بڑھ رہی ہے، اندازہ ہے کہ 2030ء تک ان کی تعداد 78 ملین جبکہ 2050ء میں یہ تعداد 139ملین سے تجاوز کرسکتی ہے۔

بھولنے کی بیماری کا مرض دنیا بھر میں اوسطً عمر کے اضافے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس مرض کے اعداد و شمار پر بات کریں تو تشخیص شدہ مریضوں کی محتاط ترین تعداد تقریباً سات لاکھ سے زائد ہے جبکہ پاکستان میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد ( عالمی ادارہ صحت کے مطابق ) دس لاکھ کے قریب ہے۔

دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے کے خاندانی نظام کے تناظر میں بالخصوص بھولنے کی بیماری کی تشخص بروقت نہیں ہو پاتی جس کی بناء پر بروقت علاج کی ابتداء میں تاخیر ہوتی ہے، نتیجتاً مریض اور اہل خانہ کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

الزائمر، جو ڈیمیشیا (بھولنے کی بیماری) ہی کی سب سے زیادہ عام قسم ہے، ایسا دماغی عارضہ ہے کہ جس میں دماغ کے یادداشت کے نظام کے خلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کے باعث اس انسان کی شخصیت، رویئے، مزاج اور بحیثیت مجموعی حافظہ متاثر ہو جاتے ہیں۔ ڈیمینشیا کی کم و بیش 100سے زائد اقسام ہیں جس میں سب سے عام قسم الزائمر ہے۔

ڈیمیشیا (بھولنے کی بیماری) کے ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ سب سے اہم وجہ بہرحال بڑھتی عمر (Aeging)ہی ہے لیکن ڈیمینشیا فقط بڑھتی عمر کی وجہ سے نہیں ہوتی۔

قرآن عظیم الشان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’اور تم میں وہ بھی ہیں جو پہلے فوت ہو جاتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو کمی عمر تک لوٹائے جاتے ہیں کہ اسے کچھ بھی علم نہیں ہے۔ سب کچھ جاننے کے بعد‘‘ (القرآن)

درج بالا کیفیت کو حرف عام میں نسیان کا مرض اور طب کی دنیا میں ڈیمینشیا کہتے ہیں۔

یہ ایک لمبی چلنے والی بیماری ہے۔ ڈیمینشیا ایک دماغی مرض اور یہ فقط بڑھتی عمر (بڑھاپے) کی بیماری نہیں ہے۔ دماغ میں 20 سے زائد مختلف جین(genes)  ہیں جو کسی شخص کو ڈیمنشیا کے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔ جینAPOE وہ پہلی جین ہے کہ تحقیق سے جس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ الزائمرکی بیماری پیدا کرنے کی وجہ ہے۔

خواتین میں مردوں کے مقابلے میں الزائمر کی بیماری پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جس کی وجوہات واضح نہیں ہے۔ مجموعی طور پر الزائمر کے مرض میں مبتلا ہونے کی حتمی وجہ تاحال تحقیق کے مراحل سے ہی گزر رہی ہیں۔

تاہم اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ان میں مختلف جین جس میں APOE جین سب نمایاں ہے کے علاوہ وٹامن بی 12کی کمی، ذیابیطس، بلدفشار خون ، فالج ، نیند کی مسلسل کمی ، موٹاپا ، نیند آور ، بے چینی و سردرد کی ادویات کا بے دریغ استعمال اور صحت مند دماغی و جسمانی سرگرمیوںکا فقدان جیسی وجوہات بھی بھولنے کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تساہل پسندی ، دیر سے سونا و جاگنا ، تمباکو نوشی اور غیر متوازن غذاء کا استعمال بھی حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ جو افراد مستقل بنیادوں پر ذہنی و جسمانی معمولات کو اپنا کر رکھتے ہیں، ان میں بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ترین ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کے مختلف تحقیقاتی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بھی ڈیمینشیا کے ہونے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔

ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ماحول کی آلودگی اور اس کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہییں۔ نیز سرکی چوٹ کے نتیجے میں یادداشت کا مسئلہ لاحق ہونے کا خطرہ خاصا زیادہ ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں بڑے پیمانے پر اس ضمن میں آگاہی و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاںادا کرنے کے لئے متوجہ کرنا بھی از حد ضروری ہے تاکہ حادثات میں نتیجے میں سرکی چوٹوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔

الزائمر کی علامات کو جاننے اور اسکے مطابق علاج و تشخیص کے لیے ماہر امراضِ دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) خاصا معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔

الزائمر کی ابتدائی علامات میں یادداشت میں کمی، روزمرہ کے کاموں کو ادا کرنے میں مشکلات، وقت اور جگہ کا یاد نہ رکھنا ، قوت فیصلہ میں کمی، بات کرنے میں دشواری، روزمرہ کاموں میں عدم توجہ/ دلچسپی کا فقدان، چیزوں کا رکھ کر بھول جانا ، رویے میں تبدیلی ، باریک بینی پیچیدہ سوچ میں مشکلات کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر شخصیت کا تبدیل ہو جانا شامل ہیں۔

یاد رہے کہ الزائمر میں مبتلا انسان کے معمولات زندگی، مزاج اور روئیے میں ابتدا میں چھوٹی معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی جائے تو ان میں نہ صرف اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ بالآخر الزائمر کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، اس لیے ابتدائی علامات ہونے کی صورت میں معالج سے رجوع کرنا نہایت ضروری اور مفید ہے۔ اگر الزائمر سے مکمل چھٹکارا ناممکن بھی ہو توبروقت تشخص و علاج اس مرض کی پیچیدگیوں اور مرض کو تیزی سے بڑھنے سے روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہو تی ہے۔

اس مرض کی تشخص کے لیے ضروری لیبارٹری ٹیسٹ و دماغ کا سکین (ایم آر آئی) اور مریض و اہل خانہ سے مکمل معلومات و طبی (نیورولوجی) معائنہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ مرض کی تشخیص کے بعد ادویات کا استعمال بالعموم روز مرہ معمولات میں آسانی کا باعث بن جاتا ہے۔ تاہم ایسے تمام مریض اپنے معالج کی ہدایات کے عین مطابق ادویات کا استعمال کریں۔

تمام تشخیص شدہ مریضوں میں جہاں ادویات کا استعمال اہم ہے وہیں سماجی سرگرمیاں بھی مریضوں کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس بھولنے کی بیماری میں چونکہ مریض میں یاسیت و مایوسی اور اضطراب خاصا بڑھ جاتا ہے لہٰذا نفسیاتی و ذہنی مسائل کو بروقت تشخیص کر کے ادویات و تبدیل طرز زندگی کی جانب ڈالنامریض کے لیے نہایت مفید ہوتا ہے۔

بھولنے کی بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے جہاں علاج اور طرز زندگی کی تبدیلی ایک اہم جز ہے وہیں ان مریضوں کے اہل خانہ بالخصوص وہ افراد جو باقاعدہ مریض کی تیمارداری و نگہداشت پر مامور ہیں، انہیں حکمت، صبر و تدبرکے ساتھ تمام معاملات کو لے کر چلنا مریض کی بہتری کے لیے ناگریر ہے۔

ڈیمینشیا کے مریض مرض کی علامات بڑھنے کی صورت میں ایسی ایسی حرکات کردیتے ہیں جن کو اہل خانہ نہ صرف حیرانگی کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ ناقابل یقین صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے اہل خانہ کا خصوصی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان مریضوں کو ادویات کے ساتھ ساتھ تازہ آب و ہوا ور ماحول کی تبدیلی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرنے چاہییں۔

مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازن غذا بالخصوص سبزیوں اور پھلوں کا استعمال، جسمانی ورزش و چہل قدمی ،ہر قسم کی تمباکو نوشی و نشے سے مکمل دور رہنے کے ساتھ ساتھ سماجی میل ملاقات، دماغی نشوونما کے لیے مطالعہ بہت خوش گوار اثرات ڈالتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایسی مثبت سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا نہایت مفید ہے جس سے ذہن متحرک رہے۔

ڈیمینشیا ایک طول مدتی بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی نگہداشت جہاں اہل خانہ و عزیز رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے۔ وہیں معاشرے کے اہل خیر، نجی تنظیموں اور حکومتی اداروںکو اس ضمن میں اپنا کردار عملی طور پر ادا کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے ان مریضوں کو بہتر طور پر نہ صرف خیال رکھ سکیں بلکہ اس مرض کے متعلق معاشرے میں آگاہی پیدا کریں تاکہ ہم اپنے بزرگوں کی بہتر خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے بڑھاپے میں معیار زندگی بہتر بنانے میں بحیثیت معاشرہ درست کردار ادا کریں یہی صحت مند معاشرہ کے قیام کا تقاضا اور ہمارے دین اسلام کا حکم ہے۔

پاکستان میں دماغی امراض کی نمائندہ تنظیم ’ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی ‘ (PSN) ملک بھر میں طب کے شعبے سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے بھی آگاہی پر مبنی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں پریس کانفرنس، سوشل میڈیا آگاہی پیغامات، ڈاکٹرز کے لیے ورکشاپس کا انعقاد شامل ہے۔ اس ضمن میں نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (نارف)بھی گزشتہ 13 سالوں سے آگاہی پروگرامات کا انعقاد کر رہی ہے۔

( ڈاکٹر عبدالمالک نیورولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈسٹری کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔