گیس بحران مزید ایک سے دوسال تک جاری رہے گا، سوئی سدرن  

اسٹاف رپورٹر  جمعرات 16 ستمبر 2021
سوئی سدرن موسم سرما میں لوڈ مینجمنٹ پر وزارت کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق عمل کرتا ہے، عمران منیار

سوئی سدرن موسم سرما میں لوڈ مینجمنٹ پر وزارت کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق عمل کرتا ہے، عمران منیار

کراچی: ایم ڈی ایس ایس جی سی عمران منیار  کا کہنا ہے کہ بندرگاہ پر مزید ٹرمینلز لگنے تک گیس بحران مزید ایک سے دوسال تک جاری رہے گا۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سوئی سدرن گیس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر عمران منیار نے کہا ہے کہ جب تک بندرگاہ پر آر ایل این جی کے نئے ٹرمینلز کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک موسم سرما میں گیس بحران مزید ایک سے دو سال تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

ایم ڈی ایس ایس جی سی کا کہنا تھا کہ ادارے کو مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہم پُرامید ہیں کیونکہ  پورٹ پر تیسرے ٹرمینل کی تکمیل اور آپریشنز کے آغاز ہوجانے پر اگر ایس ایس جی سی ٹرمینل کے مالک سے معاہدہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے جو صرف اسی صورت میں ہوگا جب صارفین اضافی 500 ایم ایم سی ایف  لینے کا عہد کریں گے تو کراچی کے تمام صارفین کو درپیش گیس قلت کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔

عمران منیار نے کہا کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر 4 ہزار ایم ایم سی ایف گیس بشمول قدرتی گیس اور آر ایل این جی استعمال کی جا رہی ہے جس میں سے تقریباً 950 ایم ایم سی ایف سندھ اور بلوچستان کے مقامی وسائل سے ایس ایس جی سی کو فراہم کی جا رہی ہے جب کہ 150 ایم ایم سی ایف آر ایل این جی بھی انہیں دی جا رہی ہے اور باقی  تمام گیس ایس این جی پی ایل استعمال کر رہی ہے۔ ایس ایس جی سی بلوچستان میں قدرتی وسائل سے 110 ایم ایم سی ایف لیتا ہے جبکہ باقی 75 فیصد گیس سندھ کے وسائل سے سسٹم میں آتی ہے لیکن گیس کے یہ ذخائر 10 فیصد سالانہ کی شرح سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

عمران منیار نے کہا کہ ایس ایس جی سی پورٹ قاسم کے دو ٹرمینلز سے تقریباً 150 سے 180 ایم ایم سی ایف آر ایل این جی لیتا ہے لیکن موسم سرما کے دوران ان ٹرمینلز سے سپلائی 70 یا 80 ایم ایم سی ایف تک محدود ہو جاتی ہے اور بلوچستان میں گیس کی مانگ 120 ایم ایم سی ایف تک بڑھ جاتی ہے جو تقریباً 195 ایم ایم سی ایف گیس کی مجموعی قلت پیدا کرتا ہے۔

ایم ڈی ایس ایس جی کا کہناتھا کہ گیس کی قلت سے نمٹنے کے لیے وزارت نے ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا ہے جس میں گھریلو سے صنعتی تمام صارفین کو اوپر سے نیچے تک درجہ بندی کی گئی ہے جس میں گھریلو صارفین سرفہرست ہیں اس کے بعد برآمدی صنعتیں ہیں جبکہ سی این جی اسٹیشنز فہرست میں سب سے نیچے ہیں اور غیربرآمدی برآمدی صنعتیں سی این جی اسٹیشنز سے اوپر ہیں لہٰذا ایس ایس جی سی موسم سرما میں لوڈ مینجمنٹ پر وزارت کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق عمل کرتا ہے جب کہ سردیوں میں کے الیکٹرک کو آر ایل این جی کی سپلائی مکمل طور پر صفر کردی جاتی ہے جو گیس کی قلت کو 75 سے 80 ایم ایم سی ایف تک پورا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

عمران منیار نے کہا کہ سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی معطلی سے مزید 20 ایم ایم سی ایف کی بچت ہوتی ہے جو کہ 195 ایم ایم سی ایف کی مجموعی قلت میں سے 95 ایم ایم سی ایف گیس کی کمی کو کم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ دیہاتوں کو گیس دینے کے لیے زبردست دباؤ ہے جس میں اربوں روپے کی خطیر سرمایہ کاری، افرادی قوت اور آلات سمیت بھاری وسائل کی ضرورت ہے جنہیں دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں بھیجنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انڈسٹری گھریلو صارفین کو استعمال ہونے والی گیس کا 70 سے 80 فیصد ادا کر رہی ہے کیونکہ گھریلو صارفین کے لیے گیس ٹیرف قطر اور ایران سمیت دنیا بھر کے کسی بھی دوسرے صارفین کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ یہ انڈسٹری کی جانب سے سبسیڈائز ہورہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔