معرکہ طلاس

محمد عاطف بیگ  اتوار 19 ستمبر 2021
وہ تاریخ سازجنگ جس نے وسط ایشیا میں مسلمانوں کو غلبہ عطا کردیا ۔ فوٹو : فائل

وہ تاریخ سازجنگ جس نے وسط ایشیا میں مسلمانوں کو غلبہ عطا کردیا ۔ فوٹو : فائل

تانگ خانوادے (Dynasty Tang ) کے چینی بادشاہ شوانگ –زونگ (Xuanzong)کے سامنے ایک عجیب سفیر کھڑا تھا۔اس کی عجیب بات یہ تھی کہ اس نے چینی بادشاہ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا جو کہ چینی بادشاہوں کے دربار کی روایت تھی۔ تانگ خاندان کی شاہی تاریخ اس واقعے کو یوں بیان کرتی ہے :

“کائی –یوان ( 713-762 ء– Yuan Kai) کے دور میں ایک اور سفیر خوب صورت گھوڑوں اور شان دار لگاموں کے تحائف کے ساتھ دوبارہ بھیجا گیا۔ دربار میں پیشی کے موقع پر اس نے بادشاہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔

محل کے افسران اس کو مارنے کے لیے لپکے مگر وزیراعظم چانگ-شو (Shu Chang ) نے کہا کہ یہ روایات کا فرق ہے اور کسی کا اپنی روایت کی پیروی کرنا ایک جرم نہیں کہلا سکتا، چناںچہ بادشاہ نے اس کو معاف کردیا۔ جب سفیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے ملک میں صرف اﷲ کے سامنے جھکتے ہیں کسی بادشاہ کے لیے نہیں۔ ”

چینی بادشاہ کی خدمت میں بھیجا گیا یہ سفیر جس کے اس عمل کی بازگشت کو تین صدیوں بعد کی چینی تاریخ نے بھی محفوظ کرلیا، فاتح وسط ایشیا اور عظیم اموی مسلمان جنرل قتیبہ بن مسلمؒ کا بھیجا ہوا تھا۔ جو ماورالنہر کو فتح کرنے کے بعد طارم طاس کی وادی (موجودہ سنکیانگ کا ایک حصہ ) میں چینی عمل داری کے شہر کاشغر پر بھی قبضہ کرچکے تھے۔

طبری اور ابن الاثیر اس سفارت کی پوری داستان سناتے ہیں۔ قتیبہ جب کاشغر کو فتح کرچکے تو چینی بادشاہ نے ان کی خدمت میں وفد بھیجا کہ اپنا کوئی آدمی ہمارے ہاں بھیجو۔ اس سے ہم تمہارے اور تمہارے وطن کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

قتیبہؒ نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے کم و بیش آٹھ افراد کا ایک گروہ تیار کیا جن کا سردار ہبیرہ بن سمرج نامی ایک شخص تھا۔ اس کو حکم تھا کہ چینی بادشاہ کو مکمل طور پر واضح کردیا جائے کہ ہمارے سردار قتیبہ بن مسلمؒ نے قسم کھالی ہے کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک تمہاری سلطنت میں قدم نہ رکھ لوں اور تمہارے شہزادوں کو غلام نہ بنالوں یا جزیہ نہ وصول کرلوں۔ ان سفراء کو سفر کے لیے شان دار گھوڑے و لباس بھی عطا کیے گئے۔

چینی بادشاہ عظمت و رعب کے اس شان دار مظاہرے سے کتنا متاثر ہوا جو اس دربار میں مسلسل تین دن ان سفراء نے دکھایا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ قبیلہ باہلی کے اس اموی فاتح وسط ایشیا کی عظیم الشان فتوحات کی خبر ان سفراء سے پہلے ہی شاہ چین کے کانوں سے ٹکرا چکی ہوگی۔

وہ سغد، تبت، طخارستان اور ترکستان کے طول و عرض سے بھیجے گئے ان سفیروں سے ناآشنا نہ تھا جو بڑی دیر سے اس عرب قوت کے مقابلے پر اس سے مدد طلب کررہے تھے جو توحید کا پرچم اٹھائے ایران و شام کی سلطنتوں کو روندنے کے بعد ماورالنہر کے علاقے میں گھس آئی تھی۔ اس نے سفیروں کو جو کے چینی دارالحکومت میں تین دن گزار چکے تھے اور اس کی وسعت اور لشکروں کی کثرت کا مشاہدہ بھی کرچکے تھے یہ جواب دیا:

“اپنے سردار کے پاس واپس چلے جاؤ اور کہو کہ ہمارے علاقے سے واپس چلا جائے، کیوںکہ میں اس کے حریصانہ خیالات اور اس کی فوج کی قلت تعداد سے واقف ہوں۔ اگر واپس نہ ہوگا تو ایسی زبردست فوج مقابلے کے لیے بھیجوں گا جو تمہیں اور اسے سب کو تباہ کرڈالے گی۔ ”

مگر ہبیرہ بھی کچی گولیاں نہ کھیلا تھا، اس نے کہا “اے بادشاہ! بھلا آپ یہ کیا فرماتے ہیں۔ ایسے شخص کو فوج کی کیا کمی ہوسکتی ہے جس کے لشکر کا اگلا حصہ آپ کے علاقہ میں ہے اور اور پچھلا حصہ ملک شام میں ہے! اس پر آپ حریص ہونے کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں جو کہ دنیا کو لات مار کر آپ کے خلاف جہاد کرنے آیا ہے! حالاںکہ اسے سب کچھ میسر تھا۔ آپ نے ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دی ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ہم ذرا بھی خوف زدہ ہوں۔ ہماری زندگی ایک خاص معینہ مدت تک کے لیے ہے، جب وہ پوری ہوگی ہم مرجائیں گے اور موت کا سب سے بہترین طریقہ خدا کی راہ میں شہادت ہے۔ نہ ہم اس سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اسے برا سمجھتے ہیں۔”

ہبیرہ کا یہ حتمی اور بے خوف انداز شاید چینی بادشاہ کے دل پر اثر کرگیا۔ اس نے پوچھا کس بات سے تمہارا سردار خوش ہوسکتا ہے؟ ہبیرہ نے کہا کہ انہوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک وہ تمہارے علاقے میں قدم نہیں رکھ لیں گئے، تمہارے رؤساء کو غلام بنا کر ان پر مہر نہ لگادیں گے اور جزیہ وصول نہ کرلیں گے، یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔

چینی بادشاہ نے فوراً مخصوص چینی ذہانت و حکمت کا استعمال کیا، جس کے لیے وہ پوری دنیا میں مشہور تھے۔ کہنے لگا کہ اچھا ہم ان کی یہ قسم پوری کردیتے ہیں۔ اپنے علاقے کی مٹی بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ اس پر قدم رکھ لے، اپنے کچھ شہزادے بھیج دیتے ہیں، ان پر مہر غلامی ثبت کردے اور اس قدر زروجواہر دے دیتے ہیں جس سے وہ خوش ہوجائے گا۔ بادشاہ نے اپنے ملک کی مٹی، چار شہزادے اور سونا وجوہرات بطور جزیہ بھیجے۔ قتیبہ نے مٹی پر پاؤں رکھا ، شہزادوں پر مہر لگائی اور جزیہ وصول کرکے اپنی قسم کو پورا کیا اور چین کی طرف مزید پیش قدمی سے رکے رہے۔

چین کے ساتھ ایک فیصلہ کن معرکہ قدرت نے چند اور دہائیوں کے لیے ملتوی کردیا تھا۔ یہ سفارت جس کا حتمی زمانہ متعین کرنا ممکن نہیں 710 ء سے لے کر 713 ء اور اسلامی تاریخ کے مطابق 90 ھ سے لے کر 92 ھ کے لگ بھگ بھیجی گئی۔

قتیبہ بن مسلمؒ اس واقعے کے محض ایک سال بعد اس سیاست کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے جس کے ہاتھوں کئی عظیم مسلم فاتحین کا خون ہے، اگر وہ زندہ رہتے تو کیا پورے چین کو بھی فتح کرلیتے اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ مگر یہ کہنا چنداں دشوار نہیں کہ ان کے پاس اس سے بہتر لشکر موجود تھا جس کی مدد سے منگولوں نے کچھ صدیوں بعد چین کو فتح کرلیا تھا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی وسط ایشیا میں مسلم اقتدار بھی خطرے میں پڑ گیا گوکہ نصر بن سیار جیسے فاتحین اس کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنے میں کام یاب رہے۔

عین اسی وقت چینی سلطنت بھی جو تانگ خانوادے کے اقتدار تلے اپنی پرانی شان و شوکت بحال کرنے کے لیے کوشاں تھی، جو اس کو ہان خانوادے (Dynasty Han) کے دور میں پانچ یا چھ صدیاں قبل حاصل ہوئی تھی، جب ان کے عظیم فوجی جنرل پان –چاؤ ( Chao – Pan) نے چین کی سرحدیں سمرقند تک وسیع کردی تھیں اور پورا طارم طاس ان کے قبضے میں تھا۔ چینی بادشاہ کو ایک ہی خطرہ لاحق نہ تھا، تبتی اقوام بہت طاقت پکڑ چکی تھیں اور وہ طارم طاس (موجودہ سنکیانگ) کے علاقے میں دست اندازی کررہی تھیں، جو شاہراہ ریشم کے لیے ریڑھ کی ہڈی رکھتا تھا اور شاہراہ ریشم چین کے لیے رگوں میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی، جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ابھی وہ تبت اور ترکوں کی طرف سے امڈ آنے والے خطرات سے نمٹ ہی رہے تھے کہ دنیا میں ایک نئی سپرپاور کا ظہور ہوگیا۔ صحرائے عرب سے بادیہ نشنیوں کے گروہ در گروہ نکلے اور انہوں نے حضرت عمرؓ اور بعدازآں حضرت عثمانؓ کے دور تک دنیا کی دو عظیم سلطنتوں کو تہہ و بالا کردیا۔ ایران کی سلطنت ساسان 637 ء تک فتح ہوچکی تھی اور 638 ء میں اس کا اثر چین تک آ پہنچا۔

جب مفرور ایرانی بادشاہ یزدگرد نے چینی دربار میں مدد کی درخواست کے ساتھ ایک سفارت روانہ کی۔ کوئی مدد روانہ کی گئی کہ نہیں اس کے بارے میں چینی تاریخ خاموش ہے مگر یزدگرد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا فیروز مسلمانوں کے سامنے سے راہ فرار اختیار کرتا ہوا پہلے باختریہ (طخارستان موجودہ افغانستان) پہنچا اور وہاں سے پھر چینی بادشاہ کی خدمت میں مدد کے لیے درخواست کی، مگر بادشاہ کاؤ-سانگ ( Tsung Kao) فاصلے کی وجہ سے مدد کرنے سے قاصر رہا۔

661 ء میں درخواست پھر پیش ہوئی اس بار مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور ایک چینی جنرل کو فیروز کی مدد کرنے کے لیے بھیجا گیا تاکہ وہ اس کو ایران کے گورنر جنرل کے طور پر دوبارہ تعینات کردے، مگر یہ منصوبہ ادھورا ہی رہا اور 670-673 ء میں فیروز پناہ کی تلاش میں خود چین پہنچ گیا، جہاں اس کو ایک فوجی دستے کا سربراہ بنا دیا گیا اور ایک آتش کدہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔

678 ء میں فیروز کو دوبارہ تخت ایران پر بٹھانے کے لیے ایک فوج کی ہم راہی میں روانہ کیا گیا، مگر چینی جنرل طارم طاس میں واقع سلطنت کوچ (kingdom of kucha) سے آگے تک پیش قدمی کی جرأت نہ کرسکا اور فیروز کو وہاں سے اکیلا ہی آگے بڑھنا پڑا اور طخارستان کے علاقے میں 20 سال بھٹکنے کے بعد 708 ء کے لگ بھگ وہ دوبارہ چینی دربار میں پناہ کی تلاش میں جا پہنچا اور پھر وہیں اس کو مو ت آئی (یزدگرد کے بیٹے کی یہ داستان چینی تواریخ میں بیان ہوئی ہے جو ان واقعات کے سیکڑوں سال بعد لکھی گئیں اور ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

بعض کے مطابق یہ واقعات فیروز کے نہیں بلکہ اس کے بیٹے نارسز کے ہیں )۔ چین کے پاس پہلی سفارت کا تذکرہ 651 ء میں حضرت عثمانؓ کے دور کا بیان کیا جاتا ہے جس کی تفصیلات کا علم نہیں۔ اس کے بعد بنو امیہ کے دور میں بھی چند سفارتوں کا ذکر ملتا ہے مگر ان کے متعلق درست بات یہ ہے کہ کسی خلیفہ کی طرف سے نہ بھیجی گئی تھیں بلکہ مختلف مسلمان تاجر تھے جو کہ براستہ خشکی اور سمندر چین میں بغرض تجارت پہنچے اور رواج کے مطابق بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے۔ 652 ء تک مسلمان پورے خراسان سمیت ریاست بلخ پر بھی قبضہ کرچکے تھے۔

کچھ عرصے کے لیے مسلمانوں کی اندرونی خانہ جنگی نے ہر محاذ پر ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔ آٹھویں صدی عیسوی کی شروعات میں (705 ء ) قتیبہ بن مسلمؒ کی قیادت میں ماورالنہر کی فتوحات کا شان دار سلسلہ شروع ہوا۔ قتیبہ کو حجاج بن یوسف نے خراسان کا گورنر مقرر کرکے بھیجا تھا۔ 705 ء میں قتیبہ نے طخارستان کے خلاف فوج کشی کی جس کے حکم راں مغربی ترک خانانیت کی ہی ایک شاخ تھے۔

ان کو مطیع کرنے کے بعد قتیبہ نے خوارزم اور سغد کے درمیان جھگڑوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی اور 706 ء سے لے کر 709 ء تک بخارا کے خلاف اپنی عظیم مہم مکمل کرلی۔ بخارا مسلمانوں کے مقابلے پر شکست تسلیم کرگیا اور قتیبہ نے اس کے تخت پر تخذادہ نامی ایک مقامی حکم راں کو ہی نام زد کردیا۔

بخارا کی شکست نے سمرقند کے ترخان کو بھی قتیبہ سے صلح پر مجبور کردیا۔ اہل سمرقند نے اس صلح کو حکم راں کی بزدلی پر معمول کرتے ہوئے اس کو تخت سے اتار کر اخشید غورک نامی بندے کو تخت پر بٹھا دیا، مگر قتیبہ بجلی کی طرح لپکا اور سمرقند کے لمبے محاصرے اور تاشقند و فرغانہ کے ترک لشکروں کو شکست دینے کے بعد جو کہ سمرقند کی مدد کے لیے آئے تھے۔

اس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ بخارا نے 707 ء اور سمرقند نے 712 ء میں مشرقی ترک خانانیت کے خاقان کو مدد کے لیے درخواستیں بھیجی تھیں اور ہربار ترک خاقان نے اپنے مشہور زمانہ جنرل اور بھتیجے کلتگین کی قیادت میں فوجیں بھیجیں، جن کو قتیبہ نے 707 ء میں بخارا اور مرو کے درمیان کسی مقام پر عبرت ناک شکست دی، لیکن 712 ء میں یہ پورے سغد پر قبضے میں کام یاب رہیں۔ صرف سمرقند کا شہر مسلمانوں کے پاس رہ گیا۔

713 ء میں قتیبہ پھر غراتے شیر کی مانند حملہ آور ہوا اور ان ترکوں کو سغد کے علاقے سے نکال دیا گیا۔ قتیبہ نے غورک کو ایک ماتحت بادشاہ کے طور پر سمرقند میں برقرار رکھا مگر شہر میں ایک فوجی چھاؤنی بھی قائم کردی۔ 713 ء میں ہی اس نے تاشقند جو اس زمانے میں شاش کے نام سے مشہور تھا، اس کے مقابلے پر فوجیں بھیجیں اور خود براستہ خجند، فرغانہ کی طرف روانہ ہوا۔ اسی سال یا اگلے سال وہ تاشقند میں تھا اور یہاں سے اس کی فوجیں پیش قدمی کرتی ہوئی طارم طاس میں چین کے سرحدی شہر کاشغر تک جا پہنچیں اور یہی وہ اہم سفارت تھی جو کہ چینی بادشاہ کی فرمائش پر مسلمان سپہ سالار قیتبہ بن مسلمؒ کی طرف سے بھیجی گئی۔

چین کو مغربی ترک خانانیت اور تبت کے حملوں کا بھی سامنا تھا، پچھلے 30 سالوں سے ان کا اقتدار عورتوں کے ہاتھوں میں تھا اور اقتدار کی گمبھیر کشمکش چل رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ عسکری محاذ پر کوئی قابل قدر پالیسی بنانے سے قاصر رہے اور وہ ہر محاذ پر سیاست کا سہارا لے رہے تھے۔

قتیبہ کے حملوں پر بھی ان کا جواب ان کے اندرونی سیاسی انتشار کی نشان دہی تھی۔ مگر 712 ء میں نئے حکم راں شوانگ –زونگ کے برسراقتدار آتے ہی ان کی آنکھوں میں کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کا خواب لہرانے لگا تھا۔ شوانگ –زونگ پرعزم بادشاہ تھا۔ فرغانہ کے جس بادشاہ کو قتیبہ کے سامنے 712 ء میں راہ فرار اختیار کرنی پڑی تھی۔

اس نے طارم طاس میں ریاست کوچہ میں پناہ لی اور وہ چینی شہنشاہ سے باربار مدد کی درخواست کررہا تھا۔ 715 ء میں قتیبہ کے قتل کے ساتھ ہی مسلم اقتدار ماورالنہر میں کم زور پڑنے لگا تھا، جس کا فائدہ اٹھا کر اس کو دوبارہ فرغانہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ خطے میں طاقت کی بدلتی صورت حال کو دیکھ کر بخارا کا شہنشاہ تخذادہ جسے عربوں نے تخت پر بٹھایا تھا، وہ بھی چینی بادشاہ سے مدد اور مداخلت کی درخواست کررہا تھا، تاکہ عربوں کے اثرونفوذ سے چھٹکارا پا سکے۔

سمرقند کا حکم راں بھی جو کہ عرب بالادستی کو قبول کرنے پر مجبور تھا ایسی ہی خفیہ درخواستیں چینی بادشاہ کی خدمت میں ارسال کررہا تھا۔ اور طخارستان کا ترک حکمراں جس کا لقب یبغو تھا، وہ بھی چینی بادشاہ کی مدد کا طالب تھا۔ ان تمام درخواستوں کے باوجود چینی حکم راں اپنی اندرونی سیاست اور ان گنت بیرونی محاذوں کی وجہ سے خلافت بنوامیہ سے ٹکر مول لینے پر تیار نہ ہوا۔ امدادی درخواستوں کے جواب میں محض تحفے و تحائف اور نئے القابات روانہ کیے گئے۔ چین کی فوجی مدد نہ آئی، لیکن ایک ترک سردار “سو-لو” جو کہ ترکوں کے ترگش خانوادے کا خاقان تھا۔

اس نے ان خطوں کے بھیجنے والوں کی بھرپور مدد کی اور عرب اقتدار کے خلاف 728 ء میں بخارا میں عظیم بغاوت پھوٹ پڑی اور 730 ء میں سمرقند کے بادشاہ نے بھی ترگش خاقان کی مدد سے بغاوت کردی، جس کو عربوں نے 737 ء میں دوبارہ فتح کیا۔ لیکن چین اس کے باوجود ان جھگڑوں سے تبتی اور مشرقی خاقانیت کے مسئلوں کی وجہ سے دور ہی رہا۔

737 ء میں چینی فوج نے تبتیوں کو کوکو –نور ( Nor Koko ) کے پاس عبرت ناک شکست دی اور 746 ء میں چینی جنرل وانگ –چنگ – سو ( Tsu Chung Wang) کی قیادت میں ایک بار پھر اسی طرح کی شکست کا اعادہ ہوا۔ تبت کے ساتھ وجہ تنازعہ شی –پو – چنگ (shi pu cheng) کا قلعہ تھا جو کہ چین نے تبت سے چھینا تھا اور پھر یہ دوبارہ تبت کے قبضے میں چلا گیا۔ یہاں تک کہ 749 ء میں دوبارہ چین کے قبضے میں آگیا۔ تبت کی دوسری طرف تبتی جنگجو کوہ پامیر میں چین کی باج گذار چھوٹی ریاستوں گلگت (پاکستان) بلتستان اور واخان کو نشانہ بنارہے تھے۔

شاہراہ ریشم کا وہ علاقہ جو کہ چین کو ہندوستان کے ساتھ جوڑتا تھا، وہ انہی ریاستوں سے ہوکر گزرتا تھا۔ کشمیر کا بدھ مہاراجا چندرا پدا اور مکتا پدا (سنسکرت نام) بھی چین کے قابل اعتماد اتحادی تھے اور تبت کے ان حملوں کے خلاف اس کے شریک کار۔ تبت کے جنگ جوؤں نے اس کے باوجود گلگت پر قبضہ کرلیا اور چین کو طارم طاس کی ریاست کوچہ سے شاہی جنرل کاؤ –شین –چی ( kao sien-chih ) کی قیادت میں ایک لشکر بھیجنا پڑا۔ جنرل کاؤ کی قومیت کورین تھی۔

اس نے حیرت انگیز طریقے سے کوہ پامیر کے بلندو بالا پہاڑی سلسلے کو عبور کیا اور گلگت میں گھس کر تبت کے وفادار بادشاہ کو تخت سے اتار دیا۔ 749 ء میں طخارستان کے بدھسٹ ترک یبغو “سری منگلا”نے بھی جو کہ قندوز کا فرماںروا تھا، چینی بادشاہ کو ان تبتی گروہوں کے خلاف مدد کے لیے پکارا جو گلگت اور کشمیر کے درمیانی راستوں کو کاٹ رہے تھے۔

چینی جنرل کاؤ نے ایک بار پھر کوہ پامیر کو عبور کرکے750 ء میں ان تبتی جنگ جوؤں کو عبرت ناک سبق سکھایا۔ کاؤ کے ان کارناموں کی شہرت پورے وسط ایشیا میں پھیل گئی اور چین کا اقتدار پھر سے مستحکم ہوگیا۔ اب وہ طارم طاس، وادی ایلی، اسیق کول کے مالک تھے، تاشقند ان کا باج گذار تھا اور طخارستان ان کے زیرعافیت تھا اور سلطنت کوچہ میں بیٹھ کر جنرل کاؤ ان علاقوں کا نظام سنبھالتا تھا۔

مغربی سمت میں طلاس (موجودہ قازقستان جس کا نام قازقستان اور کرغیزستان کی سرحد پر بہنے والے دریائے طلاس کی نسبت سے ہے) کا شہر ان کے اور عباسی خلافت کے درمیان سرحد کی حیثیت اختیار کرگیا۔ مگر یہ سب کچھ ایک دم بکھر کر رہ گیا۔

تاشقند کا ترک فرماںروا جو کہ چینی سلطنت کو مسلسل خراج ادا کررہا تھا، اس کے باوجود جنرل کاؤ نے 750 ء میں اس پر غیرذمے داری کا الزام لگا کر اس کا سر قلم کردیا اور اس کے خزانے پر قبضہ کرلیا۔ اس کا یہ عمل ایک بغاوت کو جنم دینے کا سبب بن گیا۔ مقتول بادشاہ کے بیٹے نے قرلوق ترکوں سے مدد کی درخواست کی جو کہ ایغوروں کے ساتھ مل کر مشرقی ترک خاقانیت کو سنبھال چکے تھے۔ ایسی ہی ایک مدد کی درخواست اس نے سغد میں مقیم اسلامی فوجوں کے سربراہ زیاد ابن صالح کو بھی بھیجی جو نئی عباسی خلافت کے ماتحت تھا، جس کو قیام پذیر ہوئے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا تھا۔ ابن الاثیر اس جھگڑے کی تفصیل فراہم کرتے ہیں:

113″ہجری میں اخشید فرغانہ اور الشاش (تاشقند) کے بادشاہ کے درمیان ایک جھگڑا پھوٹ پڑا۔ اخشید نے شاہ چین سے مدد طلب کی جس نے ایک لاکھ فوج کے ساتھ اس کی مدد کی۔ انہوں نے تاشقند کے بادشاہ کا محاصرہ کرلیا۔ تاشقند کے بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس بات کی اطلاع ابومسلم خراسانی (خراسان کا پہلا عباسی گورنر) تک بھی پہنچ گئی اور اس نے زیاد بن صالح کو ان کے مقابلے کے لیے بھیجا۔”

فرغانہ اور تاشقند کے درمیان سرحدی جھگڑا بڑا پرانا تھا۔ فرغانہ کے بادشاہ نے جس کا لقب اخشید تھا۔ چین سے مدد طلب کی اور مسلمان مورخین کے مطابق ایک لاکھ فوج اس کی مدد کے لیے روانہ کی گئی۔ چینی سلطنت بالآخر خلافت سے ٹکرانے کے لیے تیار تھی۔ چینی مورخین کے مطابق چینی فوج کی تعداد 30 ہزار تھی، جس کے مقابلے پر 2 لاکھ مسلمان فوج تھی۔ دونوں افواج کا بیشتر حصہ گھڑسواروں پر مشتمل تھا۔ چینی فوج کو زرہ پوش گھڑسواروں کی مدد بھی حاصل تھی اور قرلوق قبیلہ جو کہ ان کا اتحادی تھا وہ بھی چین کی طرف سے جنگ میں شریک تھا۔ امام ذہبیؒ مسلم فوج کے متعلق یہ تفصیل فراہم کرتے ہیں:

“یعقوب الفوصی نے ہمیں بتایا کہ 134 ھ میں چین کے حکم راں کی طرف سے ایک عظیم نقل و حرکت کا آغاز ہوا۔ زیاد بن صالح اس وقت سمرقند میں تھا، یہ خبر اس کو ملی کہ چین ایک لاکھ فوج کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے اور ترک دستوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

زیاد بن صالح نے اس کی اطلاع مرو میں ابو مسلم خراسانی کو بھیج دی اور اپنے فوجی دستوں کو تیار کرنے لگا۔ ابو مسلم بھی مرو میں اپنے فوجی دستوں کو تیار کرنے لگا اور طخارستان سے خالد بن ابراہیم بھی اپنی فوجی دستوں کو لے کر آگے بڑھا۔ خراسان کا فوجی دستہ شوال 134 ھ میں سمرقند پہنچا جس کے ساتھ 10 ہزار فوج تھی۔ زیاد بن صالح اس مشترکہ فوج کی قیادت سنبھالے روانہ ہوا اور الشاش کے دریا (سردریا) کو عبور کرگیا۔

چینی فوج پہلے ہی پیش قدمی کرچکی تھی اور سعد بن حمید کی فوج کو گھیرے میں لیا ہوا تھا مگر زیاد کی فوجوں کی خبر پاکر وہ فرار ہوگئے۔ چین کی پہاڑیوں کے فرماںروا (جنرل کاؤ مراد ہے ) نے تلاخ کے قصبے پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ زیاد اس کی طرف بڑھا، فوجی ترتیب یہ تھی کہ اس نے تیراندازوں کو اگلی صف میں متعین کیا، نیزہ بردار ان کے پیچھے تھے اور ان کے پیچھے گھڑسوار فوج اور سب سے آخر میں پیادہ فوج۔ دونوں فوجوں میں وحشیانہ ٹکراؤ شروع ہوا ور رات تک لڑائی ہوتی رہی۔”

ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ “دونوں فوجوں کا ٹکراؤ دریائے طلاس پر ہوا۔ “معرکے کی زیادہ تفصیلات میسر نہیں۔ چینی مورخین کے مطابق لڑائی پانچ دن چلتی رہی۔ مسلم مورخین دنوں کی حتمی تعداد نہیں بتاتے مگر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل کاؤ اور اس کی چینی فوج کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ وہ ہزاروں مقتولین میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگے۔

چینی مورخین شکست کی وجہ ان قرلوق ترکوں کو بتاتے ہیں جو کہ دوران جنگ چینی فوج کو چھوڑ کر کسی وجہ سے مسلم فوج کے ساتھ مل گئے اور چینی فوج کے پہلو پر حملہ کردیا، لیکن یہ بیان اتنا مستند نہیں۔ قرلوق نے غداری کی تھی یا نہیں؟ اس کا حتمی جواب ملنا مشکل ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہر مغلوب فوج کی طرح چینیوں نے یہ کہانی اپنی عبرت ناک شکست کو چھپانے کے لیے بنائی ہو۔

ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ “جنگ میں 50 ہزار چینی فوجی مارے گئے اور 20 ہزار کو قیدی بنا لیا گیا۔ ” امام ذہبیؒ فوجی نقصان کے بارے میں نہیں بتلاتے ان کا کہنا ہے کہ “لڑائی سارا دن چلتی رہی۔ یہاں تک کے غروب آفتاب کے وقت اﷲ نے چینیوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ راہ فرار اختیار کرگئے۔ ” جنگ کی شدت اور نقصان کے بارے میں اگر ان بیانات کو قبول کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنگ کئی دن چلی ہوگی۔ جنرل کاؤ بہت کم فوجیوں کے ساتھ اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوا اور چین کا اقتدار وسط ایشیا کی سیاست سے اگلے ایک ہزار سال تک موقوف ہوگیا۔

مسلمان فوج نے بھی اس عظیم فتح کے باوجود طارم طاس کے علاقے میں مزید پیش قدمی نہ کی۔ رسد کی لائن بہت لمبی ہوچکی تھی اور طارم طاس کے صحرا کو عبور کرکے آگے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ جو چینی قیدی پکڑ کر مسلم سرزمین پر لائے گئے ان میں ڈو –ہوان ( Huan Du) نامی ایک قیدی بھی تھا، جس کو دس سال مسلم سرزمینوں پر بِتانے پڑے۔ 762 ء میں چین واپسی پر اس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی جس کے چند اجزاء چین کی شاہی تاریخی دستاویزات کا حصہ بن گئے۔ وہ آج سے 1300 سال پہلے کے اسلام اور اسلامی معاشرے کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

” ان کے دارالحکومت کا ایک اور نام کوفہ ہے۔ عربوں کا امیر مومن (امیر المومنین مراد ہے) کہلاتا ہے اور وہ اس مقام پر مقیم ہے۔ اس علاقے کے مرد و عورت بہت خوب صورت اور لمبے قد کے ہیں۔ ان کے کپڑے دیدہ زیب اور اجلے ہوتے ہیں اور ان کا طریق ہائے زندگی بہت ہی شان دار ہے۔ جب ایک عورت کو باہر جانا ہوتا ہے تو چاہے وہ بڑے خاندان کی ہو یا چھوٹے کی اس کو اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپنا ہوتا ہے۔ وہ ہر روز پانچ دفعہ عبادت بجا لاتے ہیں۔ وہ گوشت کھاتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور جانوروں کو ذبح کرتے ہیں (یعنی جھٹکا نہیں کرتے )۔ وہ اپنی کمروں کے اردگرد چاندی کی پٹی باندھتے ہیں جس سے خنجر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ وہ شراب نہیں پیتے اور نہ موسیقی سنتے ہیں۔ جب وہ آپس میں اکھٹے ہوتے ہیں تو جھگڑتے نہیں۔ ان کے ہاں ایک بہت بڑی عمارت بھی ہے جس میں ہزاروں افراد سما سکتے ہیں۔

ہر ساتویں دن ان کا بادشاہ مذہبی رسوم سرانجام دینے کے لیے باہر آتا ہے (نماز جمعہ کا خطبہ) وہ ایک بلند منبر پر چڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ “زندگی بہت دشوار ہے اور نیکی کا راستہ آسان نہیں ہے، بدکاری (زنا اور فحاشی) گناہ ہے، لوگوں کو باتوں کے ذریعے دھوکا دینا چوری یا ڈکیتی کا کم از کم درجہ ہے، اپنے مفاد کے لیے دوسرے کو برباد کرنا، غریبوں کو دھوکا دینا اور مجبوروں کو ستانا، ان سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو لوگ میدان جہاد میں اﷲ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ جنت میں جاتے ہیں۔

ﷲ کے دشمنوں سے قتال کرو تم جنت میں جاؤ گے۔ ان کی پوری سرزمین بدل چکی ہے ہر کوئی (شریعت کی پابندی ) ایسے کرتا ہے جیسے دریا اپنے کناروں سے باہر نہیں آتا۔ شریعت کا نفاذ انتہائی نرمی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور مردوں کو عزت و احترام کے ساتھ دفنایا جاتا ہے۔ چاہے چھوٹا شہر ہو یا بڑا اس ملک کے لوگ دنیا کی ہر نعمت رکھتے ہیں۔ ان کا ملک دنیا کا مرکز ہے جہاں ہر طرح کی اشیاء بہ افراط اور سستے داموں مل جاتی ہیں۔ موتی و جواہرات اور روپیوں سے ان کی دکانیں بھری ہوئی ہیں اور اونٹوں، گھوڑوں، خچروں پر مال لدا ہوا آتا اور ان جانوروں کی کثرت سے گلیاں و بازار بھرے ہوئے ہیں۔”

کچھ مغربی مورخین و محققین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسی جنگ میں جو چینی ہاتھ آئے انہوں نے مسلم سرزمینوں پر کاغذ بنانا سکھایا مگر یہ دعویٰ اتنا درست نہیں۔ عرب اس سے پہلے ہی کاغذ کا استعمال کررہے تھے اور اسے بنانے کے طریق کار سے بھی آگاہ تھے۔ اس جنگ نے پورے وسط ایشیا پر اسلامی جوش جہاد کو ایک بار پھر غالب کردیا اور وہ ریاستیں جو یہ سمجھ رہی تھیں کہ چین اسلامی خلافت کے خلاف ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے ان کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور وسط ایشیا میں اسلام کا فروغ اور زور پکڑ گیا۔

چینی جنرل کاؤ 755 ء میں اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ فوجی تیاری کررہی رہا تھا کہ خود چینی سلطنت میں عظیم الشان بغاوت پھوٹ پڑی جس کو کچلنے کے لیے چین کو طارم طاس کے علاقے سے بھی فوجیں نکالنی پڑیں۔ جنرل کاؤ معہ ایک اور فوجی جنرل کے چین کے بادشاہ کے من پسند خواجہ سرا کے غیض و غضب کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عظیم روسی مورخ بار تھولڈ کے مطابق”معرکہ طلاس نے ہمیشہ کے لیے فیصلہ کردیا کہ وسط ایشیا میں کس تہذیب کا غلبہ رہے گا اسلامی تہذیب کا کہ چینی تہذیب کا۔”

(اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل تاریخی مآخذ سے مدد لی گئی ہے “کامل ابن الاثیر حصہ اول اور دوئم مطبوعہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن اردو ترجمہ “۔ تاریخ طبری حصہ پنجم مطبوعہ نفیس اکیڈیمی اردو ترجمہ “تاریخ اسلام از امام ذہبی۔

” Arab conquest of Central Asia by Edward Gibbon ”

“On the knowledge of Ancient Chinese of the Arabs and Arabian colonies by E.Brestschneider, MD”

“The First Chinese travel record on the Arab world Published by Shah Faisal research institute Saudia”

“Seeing Islam as other saw it by Robert Holyand

اس کے علاوہ یہ نئی آنے والی کتاب “خانہ بدوش” کا بھی ایک حصہ ہے جو کہ وسط ایشیا میں مسلمانوں، ہنوں، ترکوں اور چینیوں میں برپا ہونے والی کشمکش کا حال بیان کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔