بے لگام مہنگائی

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 17 ستمبر 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے اب تک مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا۔ اشیائے ضرورت عام آدمی کی روزمرہ ضرورت میں شامل ہیں اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے ہم سستا کہہ سکیں۔ غریب آدمی مالیاتی فلسفوں سے واقف نہیں ہوتا، اسے صرف اتنا معلوم ہے کہ پیاز کی کیا قیمت ہے، پالک کیسے کلو ہے، بھنڈی کیسے پاؤ ہے۔

اب ماہرین معاشیات چاہے جتنے بھی فلسفے بگھاریں عام آدمی ان سے لاتعلق رہتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حکومت ہمیشہ غریبوں کی بات کرتی رہی ہے اور ہمارے وزیر اعظم عوام کو نیچے سے اوپر لے جانے کی خوشخبری سناتے آ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام نیچے سے اوپر جانے کے بجائے اوپر سے نیچے آ رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ مہنگائی کے ذمے داروں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہر حکمران کے پَر جلتے ہیں۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دولت مند طبقے سے بھاری ٹیکس وصول کرکے اسے مہنگائی کم کرنے میں استعمال کیا جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ جن کے ہاتھوں میں معیشت کی باگ ڈور ہے وہ نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کے کلیوں کو نہیں مانتے، سب سے پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں کیا؟ جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں کیا ہیں ہم عوام میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جائیں گے۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں انھیں عوام کے مسائل کا ہی پتا نہیں، بھلا ایسے لوگ عوام کے مسائل کس طرح حل کرسکتے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان بلاشبہ عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ مدد کیسے کی جائے۔ اس کے لیے ایسے معاشی ماہرین کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ ماہرین معاشیات جو دفتروں میں بیٹھ کر اعداد و شمار کی مدد سے معاشی گتھیاں سلجھانے کے سوا عوام کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے کچھ نہیں کرسکتے۔

سرمایہ دارانہ نظام ایک جادوکا ڈنڈا ہے جس سے سرمایہ دار ٹھوک بجا کر اپنے مطلب کی ہر چیز بنا لیتا ہے سوائے انسان کے۔ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے بڑے بڑے فلسفہ نگاروں کی ضرورت نہیں اس کے بجائے خود غرض گراں فروشوں کو پکڑ کر بند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نسخہ جب بھی آزمایا گیا اس کے نتائج حوصلہ افزا نکلے، اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ منافع خور صرف باتوں سے سیدھے نہیں ہوتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کے منہ کو منافع کا جو خون لگایا گیا ہے وہ منہ سے چھوٹا نہیں ہے۔

اسی لیے پورے نظام کی تبدیلی ضروری ہے اور یہ ممکن نہیں جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ گراں فروشوں کو ایسی سزائیں دی جائیں جو انھیں قانون کی پابندی کے لیے مجبور کر دیں۔ ہم یہاں عام سی زبان میں عام سے مسائل اور ان کے حل کا ذکر کر رہے ہیں، ہماری تحریر میں فلسفہ ہے نہ موشگافیاں ہیں نہ مدبرانہ دل کوشیاں ہیں بلکہ سیدھے سادھے انداز میں ان اقدامات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس سے مہنگائی میں کمی ممکن ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جو سبزیاں بیچنے والا سبزیاں بیچتا ہے تو اس پر ایک معقول منافع لیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ اتنا دراز ہو جاتا ہے کہ خریدار کی چمڑی ادھڑ جاتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم یقینا دل سے عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن حالت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ایسا کر نہیں سکتے کیونکہ ان کے ہاتھ بڑے سرمایہ داروں کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں، جس کی ڈور سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں میں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا آہنی ستون ہے جس سے سر تو ٹکرایا جاسکتا ہے لیکن اسے توڑا نہیں جاسکتا، اس کے بیچ میں آڑھتی ہوتا ہے، منافع کا نصف حصہ صرف آڑھتی لے جاتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نیت کے بہت اچھے آدمی ہیں ، وہ دل سے عوام کی بھلائی چاہتے ہیں لیکن بھلائی کے لیے جو طریقہ کار ضروری ہے، بدقسمتی سے وہ عمران خان کی تحویل میں نہیں ہے ، لائلپور میں ایک گھنٹہ گھر ہے وہ ایسی جگہ نصب ہے کہ انسان کسی بھی جگہ سے چلے لائلپور کے گھنٹہ گھر کے سامنے ہی پہنچ جاتا ہے یہی حال ہمارے سرمایہ دارانہ نظام کا ہے کہ آپ کہیں سے بھی چلیں سامنے سرمایہ دارانہ نظام لازمی ہوگا۔

اس مصیبت سے چھٹکارا ممکن نہیں لیکن اس کے مظالم سے کمی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے، باہر کے درست راستے پر چلا جائے۔ بات چلی تھی سبزیوں کی اور پہنچی سرمایہ دارانہ نظام تک جیساکہ ہم نے اشارہ کیا ہے، یہ کمبخت نظام ہر بندہ بشر کے سامنے لائلپور کے گھنٹہ گھر کی طرح آ جاتا ہے۔

بات چلی تھی مہنگائی سے اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان عوام کی مشکلات میں کمی کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ مشکلات سانپ کی طرح ہاتھ سے پھسل جاتی ہیں۔ مہنگائی کو عام طریقوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ مہنگائی کو جتنا کم کرنا چاہیں، وہ اتنی ہی بڑھ جاتی ہے، بے چارے عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور سانپ ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔