مسلمان این جی اوز کو افغانستان کی مددکرنی چاہیے

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 17 ستمبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

امریکا جہاں بھی گیا ہے ، اس نے وہاں کے عوام  سے دھوکا کیا ہے۔ افغانستان سے امریکی دغا بازی کی مثال سب سے مہیب ، مہلک اور تازہ ترین ہے ۔عالمِ اسلام کے عوام امریکی دھوکوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن ہمارے مسلمان حکمرانوں اور اشرافیہ طبقے کے دلوں میں امریکا بدستور بستا ہے۔

پچھلے دو عشروں کے دوران امریکی حکمرانوں نے افغان عوام، سرزمین اور نظام کے ساتھ جو کھلواڑ کیاہے، اس گھناؤنے کردار نے اس کے اعتبار اور وقارپر گہری ضرب لگا ئی ہے ۔ آج افغانستان اگر مفلوک الحال ہے، معاشی طور پر دستِ نگر اورکٹا پھٹا ہے تو اس کا ذمے دار صرف امریکا ہے ۔ رُوس بھی اس ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ معافی جرم میں برابر کا شریک ہے ۔ اشد ضرورت کی ان گھڑیوں میں امریکا نے افغانوں کے 10ارب ڈالرز منجمد کرکے ظلم کیا ہے۔

افغانستان کے ساتھ برطانیہ، سوویت رُوس اور امریکا نے جو زیادتیاں اور ظلم کیے ، وہ تو ہو چکے لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے اور ضرورتمند افغانستان کی دامے درمے ، ہر شعبہ حیات میں مدد کی جائے ۔ خصوصاً عالمِ اسلام کی طرف سے اگر یہ اعانت فوری فراہم نہ کی گئی تو ’’طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں۔‘‘ آج افغانستان کا نیا جنم ہُوا ہے۔

افغانستان کا سرکاری نام بھی نیا ہے، حکمران بھی نئے ہیں ، نظامِ حکومت بھی نیا ہے، قومی پرچم بھی نیا ہے اور کابل کا ایئرپورٹ بھی نئے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ افغانستان اماراتِ اسلامیہ کے لوگ تو مگر وہی پرانے خاک نشیں ہیں۔انھیں فوری طور پر ادویات کی بھی ضرورت ہے، نقد کیش کی بھی ،روٹی کی بھی۔ یہ خبر مسرت افزا ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان کی ہدایت پر سامانِ خورونوش سے لدے پاکستان ایئر فورس کے تین بڑے سی وَن تھرٹی جہاز افغانستان کے تین بڑے شہروں (کابل، خوست، قندھار) میں پہنچ چکے ہیں ۔ یہ دراصل برادر اسلامی پاکستان کی طرف سے برادر اسلامی افغانستان کے عوام کے لیے فوری تحفہ ہے۔

پاکستان اور قطر نے افغانستان کی تعمیرِ نَو میں مثبت کردار ادا کرنے کا جو متفقہ اعلان کیا ہے، اس سے دیگر اسلامی ممالک کو بھی افغانستان کی جانب دستِ تعاون بڑھانے کی تحریک ملے گی۔ انشاء اللہ۔ ہمارے وزیر خزانہ، شوکت ترین، کی طرف سے کیا گیا یہ اعلان نہایت مستحسن ہے کہ افغانستان میں مختلف معاملات کو چلانے کے لیے پاکستان سے لوگوں کو بھیجا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان حکمرانوں کو خاص طور پر پاکستان کی طرف سے ہر شعبے کے لیے فوری امداد کی اشد ضرورت ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت صرف پنجاب میں ہزاروں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز بے روزگار پھر رہے ہیں،انھیں پاکستان کی سرکاری سرپرستی اور نگرانی میں، وظائف کے ساتھ، افغانستان میںبھیجا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے برادر افغان بھائیوں کو طبّی امداد فراہم کر سکیں۔جماعتِ اسلامی کی نظریاتی ڈاکٹر تنظیم PIMAکو بھی اس ضمن میں آگے بڑھ کر افغانستان کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہیے ۔

لاہور میں بروئے کار ڈاکٹر مسعود گوندل صاحب ، جو تبلیغی جماعت پاکستان کے معروف وابستگان میں سے ایک ہیں، کو بھی سینئر افغان قیادت سے میل ملاقات کرکے اپنے ہم پیشہ و ہم نظر ساتھیوں کو افغان اسپتالوں کی تعمیر و ترقی کے لیے افغانستان بھیجنا چاہیے۔

ہمیں امریکا ،مغربی ممالک اور یو این او کی جانب دیکھنے کے بجائے پہلے خود افغانستان اماراتِ اسلامیہ کا ہاتھ تھامنا چاہیے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان ، جناب سراج الحق، ابھی تک اپنے مخلص کارکنوں کے ساتھ ، گروہ در گروہ، افغانستان کی امداد کے لیے نہیں نکلے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کی این جی او ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ اس وقتِ آزمائش میں پیٹ پر پتھر باندھے افغان عوام کو نئی اُمیدیں دلا سکتی ہے ۔’’الخدمت ‘‘ کا پاکستان بھر میں وسیع نیٹ ورک ہے ۔ جماعتِ اسلامی افغان عوام، افغان طالبان اور افغان معیشت کو بھی خوب سمجھتی ہے ۔

اس ناتے سے ’’الخدمت‘‘ خلوص کے ساتھ اپنا اعانتی دامن اگر افغان عوام تک پھیلا دیتی ہے تو یہ انسانیت کی عظیم خدمت ہوگی۔ اِسی طرح ادارہ منہاج القرآن اورتحریکِ دعوتِ اسلامی کو بھی مسلکی زنجیروں سے آزاد ہو کر اپنے افغان بھائیوں کی دستگیری کرنی چاہیے ۔ رواں لمحات میں افغان عوام کو زیادہ تر اناج کی فوری ضرورت ہے ۔ یورپی ممالک میں ’’ادارہ منہاج القرآن‘‘ کا اچھا خاصا سلسلہ ہے جسے بروئے کار لاتے ہُوئے افغان عوام کے لیے بڑے پیمانے پر اناج اکٹھا کیا جا سکتا ہے ۔ یہ عظیم نیکی ہوگی ۔

تین مزید مسلمان این جی اوز کی دُنیا بھر میں بڑی شہرت بھی ہے اور تینوں غریب عوام کی خدمت کرنے اور غربت کی شرح نیچے لانے میں قابلِ فخر کردار ادا کر رہی ہیں :(1) ادارہ اخوت (2) مسلم ہینڈز(3) المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ۔’’اخوت‘‘ کے بانی64سالہ نامور پاکستانی ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں ۔ وہ’’اخوت‘‘ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں سود سے پاک مائیکرو فنانس کرنے میں عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی اُن  کے ادارے سے مستفید ہو چکے ہیں۔ رواں لمحوں میں  ’’اخوت‘‘ 900ملین ڈالرز نہایت آسان شرائط پر سُود سے پاک قرض تقسیم کررہی ہے ۔

’’اخوت‘‘ سے قرض لے کر واپس کرنے والوں کی ادائیگی کی شرح تقریباً 100فیصد ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کو اِنہی خدمات کے صلے میں حالیہ ایام میں ایشیا کے سب سے بڑے ایوارڈ ( ریمن میک سیسے) سے نوازا گیا ہے ۔ اس ایوارڈ کو نوبل انعام کے برابر بھی رکھا جاتا ہے ۔ چونکہ ’’اخوت‘‘ سود سے پاک غریبوں کی معاشی امداد کررہا ہے، اس لیے یہ ادارہ افغان طالبان، مملکتِ افغانستان اور افغان عوام کی بھی بغیر کسی جھجک اعانت کر سکتا ہے ۔

’’مسلم ہینڈز‘‘ اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ دونوں ورلڈ فیمس این جی اوز ہیں۔ دونوں کے ہیڈ کوارٹرز برطانیہ میں ہیں ۔ دونوں کے بانیان ( جناب سید لخت حسنین اور جناب عبدالرزاق ساجد) کا تعلق پاکستان سے ہے۔ الحمد للہ ۔ دونوں مسلمان این جی اوز نے پچھلے کچھ برسوں کے دوران اتنی محنت اور اخلاص کے ساتھ سماجی خدمات انجام دی ہیں اور ایسے جذبوں کے ساتھ غریبوں کی دستگیری کی ہے کہ عالمی سطح پر دونوں کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ برطانیہ و یورپ میں رہنے والی مخیر اور دلنواز مسلمان کمیونٹی نے دل کھول کر عطیات سے دونوں کو  نوازا ہے ۔

دونوں این جی اوز نے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت مشرقِ وسطیٰ اور افریقی ممالک میں لاکھوں تہی دست افراد کی کئی شعبوں میں خدمات انجام دے کر منفرد ریکارڈز قائم کیے ہیں ۔ دونوں نے پاکستان میں غریب عوام کے لیے مفت لنگر کھولنے، غریبوں کے لیے مفت تعلیم کی فراہمی اور دست نگروں کی آنکھوں کے امراض کا مفت علاج کرنے میں کئی ادارے قائم کیے ہیں ۔ آزمائش کے ان لمحات میں ’’مسلم ہینڈز‘‘ اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘ دونوں ہی ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اگر افغانستان اماراتِ اسلامیہ کے ضرورتمندعوام کی دستگیری کے لیے میدان میں اُتریں تو یہ بے مثال خدمت ہوگی۔

ممکن ہے اس سلسلے میں انھیں برطانوی حکومت کی طرف سے کچھ قانونی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑے کہ برطانیہ اور یورپی یونین نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔طالبان کی عبوری حکومت کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے توشاید مذکورہ این جی اوز بھی اعانت کے لیے قدم آگے بڑھاسکیں۔المیہ یہ ہے کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ امریکا طالبان حکومت بارے کیا فیصلہ کرتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔