تاریخ کے اسباق کو دھوکا دینا

اکرام سہگل  ہفتہ 18 ستمبر 2021

چھ ستمبر کو برطانوی سیکیورٹی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سیکیورٹی انسٹیٹیوٹ (RUSI) میں سابق برطانوی سربراہ، ٹونی بلیئر نے جوگفتگو کی، اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ (1) انھوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ (2) ثابت شدہ حقائق سے انکار کی اپنی پرانی پالیسی پر قائم رہتے ہوئے انھیں مسلسل اس چیز سے بدلتے رہے، جس کے لیے وہ پوری دنیا میں مشہور  ہیں، یعنی مکمل جھوٹ کے ساتھ آدھی سچائیوں کو آمیز کرنا۔ ذرا ان جھوٹے دعوؤں کو یاد کریں، جن کے ذریعے انھوں نے برطانیہ کو عراق جنگ کے لیے للچایاتھا۔

برطانیہ کے جنگ عظیم دوم کے بعد کے کردار کو ’’واشنگٹن کے وفادارکتے‘‘ کے طور پر ذہن میں رکھیں۔ خود بلیئر کو بھی برطانیہ میں کھل کر’’ بش کا کتا‘‘ کہا گیا۔ بلیئر نے بش انتظامیہ کی پالیسی کی بالکل غلامانہ طور سے حمایت کی۔

برطانوی مسلح افواج کی افغان جنگ میں شمولیت کو یقینی بنایا اور اس سے بھی زیادہ متنازعہ 2003 میں عراق پر حملے میں شمولیت کو۔ غیر مبہم انٹیلی جنس رپورٹس پر مبنی واضح معلومات کے باوجود بلیئر نے بے ایمانی سے دلیل دی کہ صدام حسین حکومت کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے، اور اس بات کو عراق جنگ میں شامل ہونے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ برطانوی عوام میں بہت زیادہ غیر مقبول ہو گئے۔

اگرچہ کسی بھی ملک کے چیف ایگزیکٹو کو بعض اوقات قومی مفادات کی وجہ سے جھوٹ یا غلط معلومات میں بھی ملوث ہونا پڑتا ہے، تاہم فوجیوں کو کسی کی ذاتی ترغیب اور لالچ کی وجہ سے جنگ میں مرنے کے لیے بھیجنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔

دونوں جنگوں سے ہونے والا جانی نقصان بہت بڑھ گیا ہے، کیوں کہ بلیئر نے برطانوی عوام سے صریح جھوٹ بولا تھا، اور یہ جھوٹ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت پر منتج ہونے والے ان حالات کی جامع انکوائری (2009-2016)میں کسی شک سے بالاتر ہو کر ثابت ہو گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انٹیلی جنس سروس نے اطلاع دی کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی ذخیرہ نہیں ملا، انھوں نے برطانوی پارلیمنٹ اور عوام کو اس کے برعکس بتایا۔ پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کے الزام میں آخر کار بلیئر کو 2007 میں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔

بلیئر نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور اپنی مرضی سے جھوٹ بولنے کی اپنی معروف پالیسی پر عمل جاری رکھاہے۔ انھوں نے طالبان تحریک کو بنیاد پرست اسلام کی عالمی تحریک کا حصہ قرار دیا، اگرچہ یہ بہت سے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے، لیکن ان کا بنیادی نظریہ ایک ہی ہے لیکن طالبان اور دیگر اسلامی تحریکوں میں بنیادی فرق ہے۔ افغان طالبان ایک سخت گیر قومی نقطہ نظر کے حامل ہیں۔

وہ صرف اس لیے لڑ رہے تھے کہ اپنے جنگ زدہ ملک کو غیر ملکی فوجیوں سے چھٹکارا دلا کر امن قائم کریں۔ حتیٰ کہ اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران بھی انھوں نے کوئی ایسا ارادہ نہیں کیا کہ وہ افغانستان سے باہر کے علاقوں کو اپنے ملک میں شامل کر لیں۔

اگرچہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے، برطانوی نوآبادیاتی پالیسی سے پیدا ہونے والا یہ سرحدی تنازع پڑوسیوں کے درمیان حل ہو سکتا ہے۔ امریکا کے ساتھ ایک ایسے امن معاہدے پر بات چیت کے لیے راضی ہونا جو امریکیوں کی افغانستان سے ’باوقار‘ پسپائی کو ممکن بناتا، دراصل طالبان کی مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے اور اس پر کھڑے ہونے کی تیاری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے فوجیوں کا کابل کے دروازوں پر رکنا ان کے نظم و ضبط، اپنے فیلڈ کمانڈرز پر کمانڈ اینڈ کنٹرول کی کافی گواہی فراہم کرتا ہے، اور اسی کے ذریعے وہ بغیر خون خرابے اور شہر کو تباہ کیے پُر امن طور پر اندر داخل ہوئے۔

پنجشیر میں بھی مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن مذاکرات کی ناکامی پر طالبان نے سرعت اور مضبوطی سے قدم اٹھاتے ہوئے معاملات کو خراب ہونے سے بچایا۔ ولی مسعود آخر کار کچھ افہام و تفہیم پر آ سکتا ہے، تاہم امراللہ صالح کو بھارت کی طرف سے بھڑکایا جانا متوقع ہے۔

بلیئر نے مزید کہا کہ نظریے اور تشدد دونوں ہی طور سے اسلامیت سیکیورٹی کے لیے فوری خطرہ ہے، اور اگر روک تھام نہ کی گئی تو یہ خطرہ ہم تک پہنچ جائے گا، چاہے اس کا مرکز ہم سے دور ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ نائن الیون نے ظاہر کیا۔ اس موقف کو دوسری اسلامی تحریکوں پر لاگو کیا جا سکتا ہے ،لیکن طالبان پر نہیں۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے عدم استحکام کی وجہ اسلام پسندی کو قرار دے کر ٹونی بلیئر آسانی سے یہ بھلا دیتے ہیں کہ القاعدہ اور دیگر اسلام پسند تحریکیں، بشمول خود اسامہ بن لادن، ابتدائی طور پر مغربی خفیہ ایجنسیوں ہی کی تخلیق تھے اور ہیں۔

بلیئر نے کہا کہ ”افغانستان کے زوال کے بعد خاص طور سے اہم طاقتوں کو متفقہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر زیر بحث مغربی ممالک ہیں، تاہم چین اور روس بھی اس نظریے کو روکنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اور مشرق وسطیٰ سمیت بہت سے مسلم ممالک میں ہمیں بہترین اتحادی مل سکتے ہیں، جو اپنے مذہب کو انتہا پسندی سے نکالنے کے لیے بے چین ہیں۔

روس اور چین کو اپنے منظرنامے میں شامل کرکے بلیئر نے اپنے ملک کی روس اور چین مخالف پالیسی اور ہائبرڈ جنگ کو معتدل کرنے کی کوشش کی، اور ایک بار پھر یوریشیائی حقیقت کی موجودگی کا انکار کیا۔ بلیئر نے کہا ’’ہمیں میدان میں سپاہیوں کی ضرورت ہے، اور فطری طور پر ہماری ترجیح یہ ہوگی کہ یہ سپاہی مقامی ہوں۔‘‘ اگر اسے صریح احمقانہ نہ سمجھا جائے تو آنجہانی امریکی جنرل پیٹن کا یہ قول یاد کیا جا سکتا ہے، جب اس نے کہا تھا کہ ’’کسی نے اپنے ملک کے لیے مر کر کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی، بلکہ وہ دوسرے کو (چاہے وہ کوئی بھی ہو) اپنے ملک کے لیے مرنے کے لیے تیار کرکے جنگ جیتتا ہے۔‘‘ یہ مسلم دنیا کے لیے بہت اہم ہے کہ اس خطرے کو سمجھیں جس کی طرف بلیئر کا سیاسی منصوبہ اشارہ کررہا ہے۔

تیسری دنیا کے جنگجوؤں کو استعمال کرکے پراکسی جنگیں لڑنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا، صدر بائیڈن کا حالیہ اعلان بھی مدنظر رہے، کہ امریکا اب مستقبل میں اپنی افواج کو جنگوں میں مصروف رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، انھوں نے اس بات پر اختتام کیا کہ اب یہاں سے آگے یورپ اور ناٹو کو سنبھالنا چاہیے۔ انھوں نے تجویز دی کہ لبرل جمہوریت اور آزادی کے مغربی تصورات کو برآمد کیا جا سکتا ہے، یا یہ کبھی مغربی معاشرے کے تہذیبی طور پر قدرے پستی کی طرف مائل علاقے کے علاوہ بھی کہیں جڑ پکڑیں گے۔

یورپی یونین کے ممالک کسی نئے تنازع کی خواہش نہیں رکھتے، نہ ہی ایسی کسی جنگ کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، جس طرح امریکا نے کیے، اور ابھی بھی کر سکتا ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔