افغانستان میں جامع حکومت کا قیام

ایڈیٹوریل  پير 20 ستمبر 2021

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے لیے انھوں نے طالبان سے مذاکرات کاآغازکردیا ہے، جامع حکومت پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔

اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہاکہ دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف سے طویل بات چیت کے بعد انھوں نے تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔

بلاشبہ افغانستان میں دیرپا امن ،دنیا کی خواہش ہے، اور اس کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اگر کوئی ملک سب سے زیادہ اور اہم کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ اسی لیے افغانستان کے دیگر ہمسایہ اور کئی مغربی ممالک کے علاوہ عالمی ادارے بھی پاکستان کو اہمیت دے اور اس سے تعاون کے لیے اپیل کررہے ہیں، اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا پہل کرنا اور عملی کوشش کا عندیہ دینا ایک مثبت اور صائب پیش رفت سے عبارت کیا جاسکتا ہے۔

اس خطے نے ایک طویل جنگ کے نتیجے میں جو تباہی وبربادی دیکھی ہے ،اس کے اثرات انتہائی بھیانک نکلے ہیں۔ ترقی وخوشحالی کا راستہ صرف شاہراہ امن پر رواں رہ کر حاصل کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اب امن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے افغان طالبان کو اپنا بھرپورکردار ادا کرنا ہوگا۔

ماضی کو بھلا کر افغانستان کی تعمیر نو وسعت قلبی اور لگن سے کرنا ہوگی ، ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے وسیع البنیاد حکومت کا قیام ضروری ہے ، کیونکہ اس وقت افغانستان میں کم از کم چار بڑے لسانی اور مذہبی گروہ آباد ہیں، جن میں پختون ملک کی تقریباً آدھی آبادی کے ساتھ سب سے بڑی کمیونٹی ہیں، تاجک اور ازبک بالترتیب 27 اور نو فیصد ہیں جب کہ وسطی افغانستان میں آباد ہزارہ قوم کو کل آبادی کا 10 فیصد تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب کہ ایمق، ترکمن،بلوچ، نورستانی اور قزلباشوں کی بھی قابل ذکر تعداد افغان آبادی کا حصہ ہے۔

مشرقی اور جنوبی افغانستان کو خالصتاً پشتونوں کا علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔کابل کے جنوب مغرب میں واقع علاقے بھی روایتی طور پر پختونوں ہی کا خطہ تصور کیے جاتے ہیں۔تاجک زیادہ تر کابل شہر ، بدخشان اور کاپیسا کے صوبوں میں مقیم ہیں ، لیکن دوسری طرف انتہائی جنوبی صوبے یعنی ہرات میں بھی تاجکوں کی کافی بڑی تعداد نے سکونت اختیار کررکھی ہے۔

ہزارہ نسل کے لوگ وسطی افغانستان میں مقیم ہیں۔ ان کے اس علاقے کو ہزارہ جات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بامیان صوبے کو اس کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ ایمق افغانستان کے وسطی پہاڑی سلسلے کے مغربی علاقوں میں بس گئے ہیں۔ کوہ ہندوکش کے شمال کا علاقہ ازبک قوم کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور مزار شریف کو ان کے مرکز اور اہم شہر کا درجہ حاصل ہے۔اسی طرح سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے والے سات مجاہدین گروپ بھی افغانستان میں موجود ہیں، جو کسی حد تک سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ان تمام گروہوں کو نئی حکومت میں نمایندگی دینے کے لیے افغان طالبان کو راضی کرنا یقینا ایک مشکل ٹاسک ہے ، کیونکہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان مستقبل کی افغان حکومت میں اختیارات کا ارتکاز اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے اپنی عبوری حکومت کو ایک عارضی انتظامیہ قرار دیتے ہوئے مستقبل میں تمام فریقوں کی شمولیت کی حامل انتظامیہ تشکیل دینے کا وعدہ کیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے  چند روز بیشتر اپنے دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار کیا ہے اورانھوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ بیرونِ ملک افغان حکومت کے اثاثوں پر تحویل ختم کی جائے اور عبوری حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ مزیدانھوں نے اس تشویش کو رد کر دیا کہ صوبائی حکومت صرف طالبان کے اعلیٰ ارکان پر مشتمل ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ تمام فریقوں پر مشتمل حکومت تشکیل دینے کے لیے کئی دیگر لوگوں کو شامل کرنے کی غرض سے بات چیت جاری ہے۔

گو طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کے اعلان کے بعد معاملات درست سمت میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے افغان حکومت کو بالعموم تمام بین الاقوامی برادری اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کا تعاون درکار ہوگا جس کے لیے خود طالبان بھی کوششیں کررہے ہیں۔

اس وقت افغانستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں تشویش کا باعث بننے والی بات داعش اور ایسی ہی دیگر شدت پسند تنظیموں کا منظر عام پر آنا ہے۔ داعش کی خراسان شاخ کی طرف سے تو کارروائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں اور ان کارروائیوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔

ایک طرف طویل جنگی تاریخ اور جنگ کو بطور پیشہ اپنائے رکھنے والے وہ افغان ہیں، جو نسلی، مسلکی اور لسانی اعتبار سے منقسم ہیں اور پاور شیئرنگ پہ بھی یقین نہیں رکھتے تاہم طالبان، یا بیرونی افواج کے خلاف متحرک گروہ لسانی طور پر منقسم نہیں ہیں۔ مختلف لسانی گروہ افغانستان کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

اگر شمال میں واقع قندوز صوبے میں پختونوں کی اکثریت ہے تو دوسری طرف جنوبی صوبے ہرات میں تاجک، ازبک، ہزارہ اکثریت میں ہیں جب کہ لوگر جیسے پختون علاقوں کے درمیان واقع صوبے میں بھی بڑی تعداد میں تاجک بستے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شمال میں رہنے والے صرف ایک قومیت کے لوگ ہیں یا جنوب میں صرف ایک ہی زبان کے بولنے والے موجود ہیں۔ چنانچہ لسانی بنیادوں پر تقسیم یا امن کی خواہش شاید اتنی سود مند نہ ہو ، تاہم انتظامی بنیادوں پر تقسیم اور پاور شیئرنگ کے ذریعے کسی حد تک افغانستان میں امن ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے، جس کی افغانستان کے تمام چھ پڑوسیوں کے مقابلے میں سب سے طویل سرحد لگتی ہے، دنیا پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کو اس کے حال پر نہ چھوڑے بلکہ یہاں کے مسائل حل کرنے میں دنیا مدد کرے اور طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کیے جائیں۔ افغانستان میں لوگوں کو خوراک، صحت اور حکومتی نظم و نسق چلانے اور امن و امان کے قیام کے لیے مالی معاونت درکار ہے۔

اس مقصد کے لیے دنیا افغانستان میں قائم حکومت سے بات چیت کرے اور پہلے کی طرح سیاسی، مالی اور معاشی تعاون برقرار رکھے اور ظاہر ہے کہ اس کے اثرات پاکستان پر مہاجرین کی مزید آمد اور حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کی صورت میں منفی طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔

پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، کیونکہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتا رہتا ہے، اس حوالے سے پاکستان نے گزشتہ دنوں ٹھوس شواہد اور ثبوتوں پر مبنی ڈوزئیر بھی عالمی برادری کے سامنے بھی پیش کیا ہے۔یوں تو ان بھارتی اقدامات کی کئی وجوہات ہیں لیکن اس وقت افغان امن عمل کو منفی طور پر متاثر کرنے کے لیے بھارتی منصوبہ ساز خطے کی صورت حال کو بگاڑ کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کشمیر اور سی پیک سے توجہ ہٹا کر ترقی کے عمل کو روکا جا سکے۔

سرجیکل اسٹرائیک کا منصوبہ انتہائی اہم اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کر رہا ہے، جو بھارت میں تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کبھی بھی اچھی نہیں رہی بلکہ مستقل خراب ہوتی جا رہی ہے، جب کہ بھارت میں موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھر میں کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ پھر بھارتی حکام کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکام رہے، جو سب کو معلوم ہے، اس سے بھارت کی معیشت پر پڑنے والے اثرات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کے ہر طبقے میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے کہ جب تک افغانستان میں امن و امان قائم نہیں ہو جاتا اور نئی باقاعدہ حکومت اپنا کام شروع نہیں کردیتی تب تک ہمسایہ ممالک تشویش کا شکار رہیں گے۔ پاکستان کی بھی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والے نئے سیاسی انتظام کو عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی تائید و حمایت حاصل ہو تاکہ معاملات جلد سدھار کی طرف آسکیں۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے بارہا یہ کہا جاچکا ہے کہ پر امن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد ہے اور اس کے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔دنیا کے علاوہ خطے کے ممالک بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن اور استحکام قائم رہے،خطے کے امن کے لیے پرامن افغانستان ضروری ہے ،جس کے لیے خطے کے تمام ممالک کو نیک نیتی سے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔