کچھ سوات کے بارے میں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 31 جنوری 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سوات میں چند روز گزارنے اور مختلف شعبہ زندگی کے اہم اور مؤثر لوگوں سے کئی ملاقاتیں کرنے کے بعد، بہت سے اہل سوات کی طرح ، مَیں بھی اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جونہی سوات سے ہماری سیکیورٹی فورسز کا انخلا مکمل ہو گا، خدشات ہیں کہ حالات دوبارہ خراب ہو جائیں گے۔ اسی لیے سوات اور آس پاس کے تمام علاقوں کے مکینوں کی یہ خواہش ہے کہ متعینہ فوج یہاں سے نہ جائے۔ اس احساس کی بازگشت اطلاع بن کر غالباً وزیر اعظم کے کانوں سے بھی ٹکرائی ہے۔ اسی لیے سولہ جنوری 2014ء کو جب نواز شریف نے سوات کا دورہ کیا تو انھوں نے بجا طور پر اعلان کیا کہ سوات میں بریگیڈ لیول کی ایک مستقل چھاؤنی تعمیر کی جائے گی۔ دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا یہ اعلان اہل سوات کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ سابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے بھی سوات میں چھاؤنی کے قیام کی حمایت کی۔ ان سے منسوب الفاظ یوں شایع ہوئے ہیں: ’’سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائم مقام چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ فوج کو مستقل بنیادوں پر سوات میں رکھا جائے۔ سوات میں فوجی چھاؤنی قومی مفاد میں ہے اور اس مسئلے پر کسی بھی پارٹی کو سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

یہ حیرت انگیز بات ہے کہ سوات میں نئی چھاؤنی کے قیام کے بارے میں زرداری صاحب تو حمایت کر رہے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کے ایک سینیٹر جناب فرحت اللہ بابر سینیٹ کے اجلاس میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے سنائی دیے ہیں۔ انھوں نے سوات میں کنٹونمنٹ بنانے کے فیصلے کو Very  unwise  and  thoughtless  move قرار دیا ہے۔ ایک انگریزی معاصر نے بھی اپنے اداریے میں سوات میں بریگیڈ لیول کی مجوزہ چھاؤنی کے بارے میں ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔ 2009ء کے دوران سوات میں لڑکیوں کے 165اسکول، لڑکوں کے تیس، اٹھارہ اسپتال اور 48 پل تباہ ہوئے تھے۔ اگر فوج سوات سے بوریا بستر سمیٹ لیتی ہے تو حالات دوبارہ دگرگوں ہو سکتے ہیں۔ کیا سینیٹر فرحت اللہ بابر ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ان حالات نے اہل سوات کی نفسیات پر کتنے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے؟ یہ احوال جاننے کے لیے انھیں افتخار الدین، زوبیہ ممتاز اور انوشکا عطاء اللہ جان کی مرتب کردہ وہ چشم کشا رپورٹ پڑھنی چاہیے جو حال ہی میں ’’برٹش میڈیکل جرنل‘‘ میں شایع ہوئی ہے۔

جس رفتار سے پاکستان میں امن و امان بگڑ رہا ہے‘ اسی نسبت سے عوام کی افواج پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے وابستہ توقعات بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کا اظہار ایک انگریزی معاصر میں شایع ہونے والے ڈاکٹر ایس ایم طہٰ کے خط میں بھی ہوتاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بحیثیت مجموعی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہمارا یقین اٹھتا جا رہا ہے؛ اس لیے مَیں افواج پاکستان کے سربراہ سے چند مختصر سے سوالات کرنا چاہتا ہوں: کیا (ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ) کراچی شہر میں ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیاں حالات سے بے خبر ہیں؟ کراچی شہر کا باسی ہونے کے ناتے میں محسوس کرتا ہوں کہ وقت آ گیا ہے کہ فوج کراچی (اور دیگر شہروں) کے حوالے سے بھی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھے۔

ڈاکٹر ایس ایم طہٰ کا خط اپنے مندرجات کے اعتبار سے واضح کر رہا ہے کہ ملک میں امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے ہماری پولیس اور اس جیسے ادارے مکمل ناکام ہو چکے ہیں، اس لیے اب فوج کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ توقعات اپنی جگہ درست ہیں لیکن فوج خود آگے بڑھ کر کچھ نہیں کر سکتی۔ جنرل راحیل شریف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو نہیں، جناب نواز شریف ہیں۔ وزیر اعظم جب کبھی واضح الفاظ میں فوج کو فریضہ سونپیں گے، راحیل شریف کو تب ہی سامنے آنا ہو گا۔ ان آئینی حد بندیوں کا جنرل کیانی نے بھی سختی سے پاس کیا اور اب جنرل راحیل شریف بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔موجودہ حالات میں عوام کا افواج پاکستان سے بلند توقعات وابستہ کر لینا کوئی غیر فطری بات نہیں۔ ممکن ہے عوام کے دلوں میں آرمی کے حوالے سے کوئی غلط فہمی یا مایوسی بھی پائی جاتی ہو جسے دور کرنا ہمارا نہیں، آئی ایس پی آر کا بنیادی فریضہ ہے۔ایک انگریزی معاصر میں ARMY  KNOWS  ITS  JOB کے زیر عنوان ایک مکتوب میں راولپنڈی سے ائیر کموڈور (ر) افضل اے خان نے لکھا ہے۔ ’’میرا اس بات پر یقین کامل ہے کہ اگر فوج کو فری ہینڈ اور مکمل اختیارات دیے جائیں تو وہ ملک میں امن قائم کر سکتی ہے۔ جب ملک میں کہیں بھی مقامی پولیس اور انتظامیہ ناکام ہو جاتی ہے تو عموماً یہ فوج ہی ہے جو آ کر لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول کرتی ہے۔ پولیس اس لیے (ہمیشہ) ناکام رہتی ہے کہ اس پر سیاسی اثرات ہوتے ہیں۔ یہ فوج ہی ہے جس نے سوات کے بگڑے حالات کو سنوارا۔ اب اگر سوات میں دوبارہ حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ ‘‘

یقینا مقامی انتظامیہ اور مقامی پولیس ذمے دار ہو گی اگر وہ تندہی سے اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر رہتی ہے اور فوج کی طرف تکتی رہے۔ ایسے حساس حالات میں اس امر پر قوم کا اجماع ضروری ہے کہ سوات میں ایک نئی چھاؤنی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سوات چھاؤنی کی بنیاد رکھنے سے قبل قوم اور خصوصی طور پر مقامی لوگوں کا اکثریتی طور پر متفق ہونا بہت ضروری ہے۔ بے حد ضروری!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔