پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہیں، سعودی عرب

ویب ڈیسک  منگل 21 ستمبر 2021
افغانستان میں عدم استحکام سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ ہے، شہزادہ فیصل بن فرحان فوٹو: فائل

افغانستان میں عدم استحکام سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ ہے، شہزادہ فیصل بن فرحان فوٹو: فائل

نئی دلی: سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لئے وقت کا انتخاب یہ دونوں ملک ہی کریں گے۔

بھارتی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ ہے، دوسرا بڑا معاملہ سیکیورٹی ہے کہ کہیں یہ ملک بین الاقوامی دہشت گردی کا گڑھ نہ بن جائے۔ افغانستان کی موجودہ قیادت طالبان کے ہاتھوں میں ہے، اس لئے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کا نظم و نسق اچھے انداز میں چلائے اور ایسے اقدامات کریں جو وہاں امن و سلامتی اور خوش حالی کا باعث بنیں، اس کے علاوہ طالبان کو سیکیورٹی صورت حال سے متعلق عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔

شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب گزشتہ کئی برسوں سے طالبان کے ساتھ رابطے میں نہیں کیونکہ ہماری یہ پالیسی تھی کہ انہیں بین الاقوامی دہشتگردی سے اپنا تعلق ختم کرنا ہوگا، اس حوالے سے طالبان نے عالمی برادری سے کچھ وعدے بھی کئے ہیں اور ہم ان وعدوں پر عمل درآمد دیکھنا چاہتے ہیں، ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ طالبان اپنی یقین دہانیوں پر قائم رہیں، ہمارے مستقبل کے فیصلے بھی اسی بنیاد پر ہوں گے۔

مسئلہ کشمیر، بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور مسلم کش فسادات سے متعلق اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے ہونے والے مذمتی بیانات پر سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے نکتہ نظر کے مطابق یہ تمام بھارت کے داخلی مسائل ہیں، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بھارتی حکومت اور وہاں کے عوام اس کے حل کے لیے کیا کرتے ہیں، ہم اس حوالے سے بھارتی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی بھرپور حمایت کریں گے۔ جہاں تک کشمیر سے متعلق بیانات کا تعلق ہے، یہ دو ممالک کے درمیان تنازع ہے، پاکستان اور بھارت کو باہمی مسائل کے مستقل حل کے لئے مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے، سعودی عرب دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے وقت کا تعین دونوں ممالک ہی کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔