محمود خان اچکزئی کا دعویٰ

نصرت جاوید  جمعـء 31 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چھ مہینوں کے طویل انتظار کے بعد جب گزرے بدھ کی صبح وزیر اعظم کے قومی اسمبلی آنے اور اس سے خطاب کرنے کی اُمید پیدا ہوئی تو اپنے بہت سارے ساتھیوں کی طرح میں بھی جھٹ پٹ تیار ہو کر پریس گیلری میں جا بیٹھا۔ اب تک کی روایت کے مطابق وزیر اعظم کو اگر قومی اسمبلی سے خطاب کے ذریعے دُنیا کو کوئی اہم پیغام دینا ہوتا ہے تو وقفہ سوالات کے ختم ہوتے ہی اسپیکر انھیں مائیک فراہم کر دیتے ہیں۔ اس بار یوں نہیں ہوا۔ وقفہ سوالات گزر جانے کے بعد بھی ملک میں امن و امان کے موضوع پر خشک اور بے جان تقاریر جاری رہیں۔

ہم رپورٹروں کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ شاید نواز شریف صاحب نے اپنے خطاب کو ٹال دیا ہے۔ اپنے شک کی تصدیق کے لیے اس چیمبر کی طرف جانا چاہا جو وزیر اعظم اور ان کے خصوصی مصاحبین کے لیے مختص ہے تو سیکیورٹی والوں کی بنائی دیوار نے راستہ روک رکھا تھا۔ ان کے معتمد اسٹاف کے موبائل فون بھی بند پائے گئے۔ پھر ظہر کی اذان ہو گئی۔ صحافیوں کی اکثریت نے طے کر لیا کہ اب وزیر اعظم کا خطاب نہیں ہو گا۔ دریں اثناء وزیر اعظم کے چند چہیتے سمجھے جانے والے اراکین اسمبلی ہمیں یقین دلاتے رہے کہ کھانے کے وقفے کے بعد نواز شریف صاحب ایوان میں ضرور تشریف لائیں گے۔ اسی لیے تو انھیں پارلیمان کی میٹنگ میں موجود رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان کے دعوے پر اعتبار کرنے کے سواکوئی راستہ نہ تھا۔ انتظار کیا اور بالآخر خطاب بھی سن لیا۔

وزیر اعظم نے اب تک قومی اسمبلی سے جب بھی خطاب کیا ہے چوہدری نثار علی خان ان کے بائیں جانب رکھی کرسی پر ہمیشہ موجود پائے گئے۔ بدھ کو وہ کرسی مگر خالی رہی۔ وزیر داخلہ نواز شریف کی تقریر کے دوران حزبِ اقتدار کے بنچوں سے کہیں دور ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھے ہوئے نظر آئے اور وزیر اعظم کا خطاب ختم ہوتے ہی پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔ قومی اسمبلی میں کبھی کبھار جانے والوں نے شاید یہ سب کچھ نوٹس نہ کیا ہو۔ رپورٹر مگر تجسس کا شکار رہتے ہیں۔ وزراء کی بدن بولی اور آنیوں جانیوں پر کڑی نگاہ رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی لیے 1985ء سے باقاعدگی کے ساتھ قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھنے والوں کے لیے چوہدری نثار علی خان کا وزیر اعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کے دن والا رویہ ان کے عمومی انداز سے مطابقت رکھتا نظر نہ آیا۔ ذاتی طور پر اگرچہ میں نے اس کی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ ربّ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے چند برسوں سے مجھے لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی اذیت سے نجات دے رکھی ہے۔ ویسے بھی اب میرے اپنے ’’گرانقدر خیالات‘‘ ہیں۔ ان کے اظہار کے لیے یہ کالم ہے۔ مجھے کیا پڑی تھی کہ ممکنہ طور پر ایک چسکے دار خبر کے لیے دوڑ دھوپ کرتا پھروں۔

آپ کی Reputation کبھی کبھار مگر آپ کے لیے عذاب بھی بن جاتی ہے۔ میں تو اپنے تئیں بڑے سکون سے گھر لوٹ آیا۔ مگر کئی لوگ فون کے ذریعے تواتر سے پوچھتے رہے کہ ’’چوہدری نثار کے ساتھ کیا ہوا‘‘۔ ان کے اُکسانے پر پوچھ تاچھ کی تو ابھی تک تاثر کچھ ایسا ملا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے ذریعے واضح الفاظ میں اعلان کیے بغیر TTP سے معاملات طے کرنے کی اصل ذمے داری وزیر داخلہ سے واپس لے لی ہے۔ وزیر اعظم نے اعلان تو یہ کیا ہے کہ TTP سے بات چیت کرنے والی چار رکنی کمیٹی کے تمام اراکین کے لیے وہ 24 گھنٹے میسر رہیں گے اور مذاکرات کی خاطر اٹھائے اقدامات کی براہِ راست رہنمائی بھی فرمائیں گے۔ مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ TTP سے بات چیت کے لیے اب ان کے حقیقی Point Man میرے بھائی عرفان صدیقی ہیں۔ انھیں چار رکنی کمیٹی کے اعلان سے دو روز قبل وفاقی وزیر کے برابر اختیار رکھنے والا وزیر اعظم کا معاونِ خصوصی برائے قومی امور بنا دیا گیا تھا۔ صاف سی بات ہے کہ وزیر اعظم کا ’’خصوصی معاون‘‘ اپنے ہی ہم مرتبہ وفاقی وزیر کو رپورٹ تو نہیں کرے گا۔ نواز شریف اب بھائی عرفان صدیقی کے براہِ راست ’’باس‘‘ ہیں۔ TTP سے بات چیت کے حوالے سے معاملات ان دونوں کے درمیان ہی رہیں گے اور اس حوالے سے چوہدری نثار علی خان کچھ خفا ہو گئے ہیں تو اچنبھے کی بات نہیں۔ اس طرح تو ہوتا ہے اقتدار کے کاموں میں۔

چوہدری صاحب کا شکوہ یوں بھی بجا نہیں کہ 9 ستمبر 2013ء کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے بعد وہ TTP سے مذاکرات کی راہ ڈھونڈنے کے واحد اور بااختیار ذمے دار تھے۔ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ بڑی محنت سے انھوں نے علماء کے ایک موثر گروہ کے ذریعے حکیم اللہ محسود تک پہنچنے کے راستے بنا لیے تھے مگر امریکی ظالموں نے ڈرون کے ذریعے اسے مار کر امن کے امکانات کو تباہ کر دیا۔ محسود کی ہلاکت کے بعد کوئی حکومت کا پیغامبر بننے کو بھی تیار نہیں تھا۔ اپنے اس اعتراف کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے نئے رابطہ کاروں کی تلاش پر انھیں کوئی گلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ میں ذاتی طور پر اب بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ چوہدری نثار علی خان کی جگہ نئے رابطہ کار ڈھونڈتے ہوئے وزیراعظم کو حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے کچھ سیاستدانوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ مولانا فضل الرحمن یقینا اس کام کے لیے خود کو بہت مناسب سمجھتے ہیں۔ مگر معاملہ ان کے سپرد ہو تو ’’بابائے طالبان‘‘ مولانا سمیع الحق ناراض ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کو بھی ان کی شمولیت ہضم نہ ہو پاتی۔

پیپلز پارٹی یا اے این پی کی صفوں میں سے رابطہ کار مل نہیں سکتے۔ مگر ایک سیاستدان محمود خان اچکزئی بھی تو ہیں۔ کوئی دو ماہ پہلے انھوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر بڑی جرأت سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی چند معقول سنائی دینے والی شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد اگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن بحال کرنے کی ذمے داری انھیں سونپ دی جائے تو وہ ایک معینہ مدت میں یہ ہدف حاصل کر لیں گے۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر وہ اپنے مشن میں ناکام رہے تو ہمیشہ کے لیے سیاست سے دست بردار ہو جائیں گے۔ اچکزئی صاحب وزیر اعظم کے بڑے بااعتماد وفادار اتحادی بھی ہیں۔ انھیں یہ موقع کیوں نہ دیا گیا؟ اس سوال کا جواب مجھے معلوم ہے۔ مگر میں لکھوں گا نہیں۔ اپنی اوقات خوب پہچانتا ہوں۔ فی الوقت میجر (ریٹائرڈ) عامر اور بھائی عرفان صدیقی کی کامیابی کے لیے دُعا گو ہوں اور اس بات کا انتظار ہے کہ رستم شاہ مہمند کب اور کس طرح خود کو چار رکنی کمیٹی سے الگ کر دینے کا اعلان کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔