اسٹرٹیجک مذاکرات اور توانائی کے مسائل

ایم آئی خلیل  ہفتہ 1 فروری 2014

گزشتہ ہفتے پاکستان اور امریکا کے درمیان دو روزہ اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے۔ 2014 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ضروری تھا کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے ایک دوسرے کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو طرفہ تعاون کو یقینی بنائے۔ اسٹرٹیجک مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کی تھی۔ جب کہ امریکی وفد کی قیادت امریکا کے وزیر خارجہ کر رہے تھے۔ اس موقعے پر پاکستان نے امریکا سے جی ایس پی طرز کی امریکا کی منڈی تک رسائی کا مطالبہ بھی کیا۔ اگرچہ عرصہ دراز سے امریکا پاکستان کو یقین دہانی کراتا رہا ہے کہ وہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بھرپور تعاون جاری رکھے گا۔ ایک سال قبل امریکا نے پاکستان کو بھرپور یقین دلایا تھا کہ امریکا پاکستان کی معاشی ترقی چاہتا ہے۔ چند ماہ بعد ہی جب پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز ایران میں کیا گیا تو اس موقعے پر امریکا نے بھرپور مخالفت کی اور پاکستان پر واضح کیا تھا کہ اس منصوبے پر عالمی پابندیاں لاگو ہوتی ہیں۔

ایسے موقعے پر جب کہ پاکستان کو اپنی توانائی کی فوری ضرورت اسی منصوبے سے پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور توانائی کے بغیر معاشی ترقی ناممکن ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس مذاکرات کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے یہ باور کرایا گیا کہ امریکا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس پر بعض ماہرین نے حیرت کا اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکا سے ایڈ نہیں ٹریڈ کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکا پاکستان کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستانی برآمدات کا ایک بڑا حصہ امریکا ہی خریدتا ہے۔ جس کا اندازہ تجارتی اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ مالی سال کے 3 ماہ جولائی تا ستمبر 2013 تک امریکا کو ایک کھرب 80 کروڑ 82 لاکھ روپے کی برآمدات کی گئیں جو ہماری کل برآمدات کا 14.6 فیصد بنتا ہے۔ جب کہ درآمدات کا تخمینہ 44 ارب 10 کروڑ 87 لاکھ روپے کی تھیں جو کل درآمدات کا 3.84 فیصد بنتا ہے۔ اس طرح امریکا سے تجارت زیادہ تر ہمارے ہی حق میں رہی ہے۔ اگر جی ایس پی طرز کی تجارتی مراعات امریکا فراہم کرتا ہے تو پاکستان کے لیے امریکی منڈی تک رسائی مزید وسیع ہوجائے گی اور پاکستان کو معاشی ترقی کے مواقعے حاصل ہوں گے بشرطیکہ توانائی کے مسائل بھی حل ہوں۔

بھارت کو امریکا نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کردی ہے جب کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے۔ اگر پاکستان کو بھی سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کردی جاتی تو اسی سے پاکستان کو توانائی بحران کو حل کرنے میں مدد ملتی۔ اگرچہ امریکا کی طرف سے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو دفاع، توانائی، انسداد دہشت گردی اور معاشی استحکام میں مدد فراہم کرے گا۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، استحکام جوہری عدم پھیلاؤ و دفاع ، قانون، انسداد دہشت گردی، اقتصادیات و مالیات کے شعبوں میں تعاون کے لیے قائم کیے گئے 5 ورکنگ گروپ کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان اور امریکا نے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے پائیدار اشتراک عمل پر اتفاق کیا۔ خطے میں توانائی کے منصوبوں کے لیے کوششیں تیز کرنے پر بھی زور دیا تاکہ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے ڈھانچے کو جدید بنایا جائے۔ فریقین نے بجلی کی پیداوار میں تعاون، پاکستان میں گیس کے ذخائر میں تیزی سے ترقی، پن بجلی اور متبادل ذرایع سے بجلی کے استعمال میں اضافے پر زور دیا تاکہ پاکستان میں مالیاتی استحکام قائم کیا جاسکے۔

جہاں تک امریکا کی طرف سے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات کی گئی ہے تو معاشی ترقی کے لیے توانائی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی سالوں سے ایران سے گیس حاصل کرنے کا خواہش مند ہے، لیکن امریکا اس سلسلے میں فوراً عالمی پابندیوں کو جواز بناکر پیش کردیتا ہے اور پاکستان کے لیے بہت بڑی رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ اگر امریکی صدر کی حالیہ تقریر کو مدنظر رکھیں جس میں انھوں نے ایران پر مزید پابندیوں کو مستردکردیا ہے تو اس تناظر میں حکومت امریکا کو پاکستان کو گیس کے حصول میں کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حال ہی میں جب پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل ہوا اور توقع کی جانے لگی کہ پاکستان کی برآمدات میں 2 ارب ڈالرز تک کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی توانائی کے مسائل پر طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے۔ اور پاک ایران گیس لائن کی جلد از جلد تکمیل کی ضرورت کا احساس ہونے لگا اگر چند سال قبل سے ہی پاکستان کو اس منصوبے پر عمل کرنے دیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ ملک میں بیروزگاری عروج پر ہے اس کا حل ممکن ہوتا۔ اس کے علاوہ جس طرح سے چند سال قبل بھارت کو امریکا نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی ہے اگر پاکستان کی بے پناہ قربانیوں کو تسلیم کرلیا جاتا اور پاکستان کو بھی یہ ٹیکنالوجی فراہم کردی جاتی تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے لیے معاشی ترقی کے مواقعے میں تیزی پیدا ہوتی اور ایشین ٹائیگر بننے کے خواب کی تعبیر حاصل ہوجاتی۔

اس کے علاوہ پاکستان نے کئی سال قبل ہی امریکا سے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی منڈیوں تک آزادانہ رسائی فراہم کرے۔ پاکستان کو تجارتی مراعات دی جائیں تاکہ پاکستانی مصنوعات باآسانی امریکی منڈیوں میں اپنی جگہ بناسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکا بھی پاکستانی برآمدات کا بڑا خریدار ہے اور امریکا پاکستان تجارت پاکستان کے حق میں ہے لیکن تجارتی سہولیات ملنے کے بعد پاکستان کے لیے مزید فوائد کے امکانات مزید بڑھ جاتے۔ لیکن ہر جگہ سوال پھر توانائی کے حصول اور توانائی کی ضرورت کا پیدا ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکی سرمایہ کار اور نجی شعبہ پاکستان میں توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستان کو اپنے پن بجلی کے منصوبوں کے لیے وسیع پیمانے پر رقوم درکار ہیں۔ عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں کی بے توجہی کے باعث پاکستان کو اس ضمن میں بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ماہ اپریل میں ورکنگ گروپ کا اجلاس ہوگا اس موقع پر پاکستان کو پن بجلی کے پیداواری منصوبوں کے لیے فنڈز کے حصول پر امریکا سے بات چیت ایجنڈے میں شامل کرنا چاہیے تاکہ سستی بجلی حاصل ہو۔ توانائی کے مسائل حل ہوں اور ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔