22 لوگ؛ آوازوں کا خزانہ (تیسرا اورآخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 22 ستمبر 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

باتوں سے بھلا کس کا جی بھرتا ہے، سجاد پرویزکا ریڈیو سے رشتہ پرانا ہے۔ اسی لیے انھوں نے باتوں کے تانے بانے سے 22 لوگوں کی زندگی کی جھلکیاں ہمیں دکھائیں اورکتابی صورت میںپیش کردیں۔ انھوں نے اس کتاب کو سنوارا، نکھارا، کہیں سفید و سیاہ تصویریں ہیں اور کوئی صفحہ رنگین تصویروں سے مزین ہے۔

یوں کہیے کہ ایک فن کار نے آواز کے ساتھ ہی چہرے بھی دکھا دیے ہیں۔ پچھلے زمانے تک جاتے ہیں اور کملا جھریا کا عکس بھی دکھاتے ہیں، ورنہ اب تک کملا جھریا کا صرف نام ہی رہ گیا ہے یا پھر آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز میں ان کی آواز محفوظ ہے۔ کچھ موسیقی کے دیوانے ہیں ان کے ذاتی خزانے میں وہ اپنی آواز کا جادو جگاتی مل جائیں گی۔

22 لوگ میں زہرا نگاہ بھی ہیں۔ 50 کی دہائی میں وہ جب منظر عام پر آئیں تو انھوں نے تہلکہ مچا دیا۔ اس سے پہلے رابعہ پنہاں، آمنہ عفت، بلقیس جمال اور  داراب بانو وفا بھی اسٹیج پر آکر شعر سناتی تھیں ، لیکن زہرا نگاہ نے تو کمال ہی کردیا۔ موہنی صورت اور درد بھری آواز۔ مشاعرے میں آئیں تو صفوں کی صفیں پلٹ دیں۔ سجاد پرویز نے ان سے بہت بھرپور باتیں کی ہیں۔ سب سے دلچسپ تو ان کی یاد داشتوں کا ذکر ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ میں نے یاد داشتیں لکھی ہیں مگر اس کا ایک  فیصلہ میں نے یہ کیا ہے کہ میں اس کو چھپواؤں گی نہیں وہ صرف میں نے اپنے بچوں کے لیے لکھ دی ہیں اور ان پر یہ لکھ دیا ہے کہ بھئی اس کو پڑھ لینا اگر فرصت ہوتو اور اس کے بعد اسے جلادینا۔ اس لیے کہ آج کل یاد داشتیں فیشن کی طرح لکھی جارہی ہیں اور ہر اس آدمی کے لیے جو چاہتے ہیں بات لکھ دیتے ہیں جو نہ اس کی تائید کرسکتا ہے اور نہ تردید۔ اس سے بہتر نہیں کہ آدمی اپنا قلم ذرا روک کر لکھے اور وہ بہت ذاتی ہیں ، ان کو چھپوانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ وہ میں نے صرف اپنے بچوں کے لیے لکھی ہیں۔

خواتین کے ادبی منظر نامے پر سامنے آنے کے بارے میں انھوں نے دو ٹوک لکھا ہے کہ ’’ شروع میں رشید جہاں، اس کے بعد عصمت آپا۔ اس کے بعد بہت ساری خواتین شاعری میں البتہ کم تھیں۔ لیکن ادا جعفری کاپہلا جو دیوان تھا۔ میرے خیال میں 1946 میں یا 1947 میں چھپا اور اس کا قاضی عبدالغفار نے دیباچہ لکھا تھا، جو اپنے وقت کے بہت بڑے ادیب تھے، لیکن میں نے اگر کچھ کام کیا تو وہ یہ کیا ہے کہ میں نے شانہ بشانہ مرد شاعروں کے ساتھ جاکر مشاعرے میں شرکت کی۔

اس سے پہلے شاید کچھ خواتین نے کی ہو، لیکن انھوںنے پردے میں کی ہوگی تو میں نے جب مشاعرے میں جاکرپڑھنا شروع کیا اس وقت تک زیادہ خواتین آتی نہیں تھیں یا پردے میں بیٹھ کر سنتی تھیں یا حاضرین میںبیٹھتی تھیں ، پھر پاکستان بننے کے بعد بڑے اچھے اچھے مشاعرے ہوئے ہیں۔ بہت عمدہ، بہت اعلیٰ اگرچہ انتظامات وغیرہ بہت سادہ ہوتے تھے۔

صرف میں اسٹیج پر بیٹھنے میں ذرا گریز کرتی تھی پہلی لائن میں بیٹھ جاتی تھی اور ناظم مشاعرہ سے کہہ دیتی تھی کہ جب میرا نمبر آئے تو آپ مجھے ایک شاعر سے پہلے اسٹیج پر بلا لیجیے گا۔ اس زمانے میں ماحول ایسا تھا کہ نوجوان شعرا ء اور بزرگ شعراء سب نے میری بڑی پذیرائی کی اور سب نے بڑی عزت ، محبت اور احترام کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ مجھے توکوئی نہ کسی قسم کی کبھی شکایت ہوئی اور نہ ہی کسی نے میرے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ سب نے بڑے عزت و احترام سے مجھے سنا اور مجھے بے حد پذیرائی ملی۔

ضیاء محی الدین پیدا ہوئے پاکستان میں اور شہرت پائی دیارغیر سے۔ والد پر دل کا دورہ پڑا، ان کی تیمار داری کے لیے واپس جارہے تھے کہ ایک صاحب سرِراہ مل گئے۔ انھیں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ ضیافت کی اور اس کے ساتھ ہی ایک کھیل کا مکمل مسودہ میرے سامنے رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہا کہ آپ اس کی ہدایات ضرور دیں۔میں نے وہ کھیل لیا اور وہ کھیل مجھے بہت اچھا لگا اور اس کھیل کی ہدایات دینے کی وجہ سے کم و بیش سوا دو سال یہاں رہ گیا۔ وہ کھیل تھا ’’ لال قلعے سے لالوکھیت تک‘‘ جو خواجہ معین الدین کا لکھا ہوا تھا۔

بہر حال اسی زمانے میں دو اور تھیٹرز کی داغ بیل ڈالی تھی۔ میں ہر دو مہینے میں ایک نیا کھیل کرتا تھا۔ اس زمانے میں بہت سے پاپڑ بیلے ہیں۔ ان میں سے یہ بھی ایک چیز ہے۔ ضیا صاحب کے پیروں کی زنجیر ڈرامے بنے، پھر ناپا اور اب وہ بہت مہارت سے ’’ انداز بیاں ‘‘ کی جھلکیاں ہمیں سناتے ہیں۔ چند دنوں پہلے ’’ انداز بیاں ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے دو دن کراچی میں اپنے فن کی داد سمیٹی۔

انھوں نے ہمارے نامور ادیب عبداللہ حسین سے بھی باتیں کی ہیں۔ عبداللہ حسین بے دھڑک بولنے والے انسان تھے۔ ان کی دو ٹوک باتوں کا اندازہ ان کی باتوں سے لگایے کہ جب پرویز نے ان سے موجودہ شاعری کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے۔ ’’میں شاعری کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ شاعری پر کم از کم تین سال کے لیے پابندی ہوجانی چاہیے۔

جس طرح دیوبندی، بریلوی، سنی یا شیعہ فرقے ہیں، اسی طرح ادب کے مولوی ہیں جنھوں نے بہت سے گروہ بنا رکھے ہیں اور وہ ادب کے بارے میں کم اور گروہ بندیوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اسی طرح قدرت اللہ شہاب بھی جھوٹ بولتا تھا۔ حیرت ہے کہ لوگ اسے صوفی کہتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا جو لوگ جھوٹ بولتے تھے صوفی کیسے بن گئے؟‘‘

عقیل عباس جعفری نے تحقیق اورپاکستانیت کے شعبے میں اختصاص حاصل کیا اور یہی ان کی پہچان ہے۔ حالانکہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں لیکن انھیں گلہ ہے کہ سیمینار میں انھیں بطور مقالہ نگار نہیں بلکہ بہ طور شاعر بلایا جاتا ہے۔

فہمیدہ ریاض چلی گئی ہیں، ان کی زندگی میں شیرینی بھی تھی اور تلخی بھی۔ انھوںنے بہت نام حاصل کیا اور ان پر بہت پتھر بھی برسے۔ انھوں نے ہندوستان میں سات سال کا طویل عرصہ خود ساختہ جلا وطنی میں گزارا۔ یہ نہ کرتیں تو کیا کرتیں۔ ضیاء الحق کی آمریت تھی اور کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ فہمیدہ کو ان کی آزاد سوچ کی کڑی سزائیں دی جائیں۔

ان سے جب سجاد نے سندھی میں لکھنے کے حوالے سے پوچھا تو انھوں نے بے ساختہ کہا ’’دیکھیے میں نے سندھی میں تو نہیں لکھا مگر یہ کہ سندھی سے ترجمہ کیا تھا وہ تو ایسا لگا کہ ایک لڑکی لکھ رہی ہے اور  سندھی لڑکی لکھ رہی ہے فوراً اور بڑی پیاری اور صاف صاف باتیں اس کی نظر آئیں بالکل میں نے وہ ترجمہ کیا لیکن شیخ ایاز کا بڑا کام تھا اس کے بعد پھر میں نے ترجمہ کیا ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کا اور وہ انگریزی میں ہے۔ ان کا مجھے انگریزی میں ہی کرنے کو ملا تھا وہ ابھی چھپنے کے مراحل میں ہے مطلب اس کا مسودہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کو میں نے دیا ہے۔ میں وہاں جاکر بیٹھتی ہوں۔ یہ چھپ جائے تو میں سمجھتی ہوں کہ سندھی کا ایک بہت ہی خوبصورت اورایک بڑا شدید قسم کا تجربہ تھا یہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ترجمہ چونکہ یہ ڈھائی سو سال پرانی سندھی ہے۔‘‘

آوازوں کے اس خزانے میں ہمیں ’’میکسم‘‘ بھی نظر آتے ہیں اور ہمارے کمال فن کار نصرت فتح علی خان بھی اس میں باتیں کرتے ہیں اور یہ بات تو ان کی بہت کمال ہے کہ ’’ فنکار بہت حساس اور نازک ہوتا ہے۔ یہ اپنی ساری عمر فن کی نظر کردیتا ہے۔ حکومت کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ اگر اس کے فن کی پذیرائی نہیں کی یا اس کا خیال نہ کیا اور اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ نہ کیا تو فن اور فنکار دونوں ختم ہوجائیں گے۔

اس آواز خزانہ کے آخری زر و جواہر میں ہمارے بہت عمدہ اور دبنگ لکھنے والے وجاہت مسعود آتے ہیں۔ وجاہت مسعود کی کاٹ دار زبان اور برجستہ جملے پڑھنے والوں کو خوب خوب لبھاتے ہیں۔ ان کی گفتگو ہماری آج کی صحافت اور سیاست کی کتنی پرتیں کھولتی ہے۔ میں ان کی بہت سی باتوں سے آپ کو آشنا کرنا چاہتی تھی لیکن سطریں اجازت نہیں دیتیں۔

اس پر سے لوگوں کا تقاضہ ہے کہ اس کتاب کو کہاں سے حاصل کیا جائے، اس کی تفصیل بھی لکھیے، تو جناب یہ کتاب ’’ڈائریکٹر پریس، میڈیا اینڈ پبلیکشنز اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور‘‘ سے منگوائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔