کھیل کو کھیل ہی رہنے دیجیے

احتشام بشیر  جمعرات 23 ستمبر 2021
اس سارے معاملے میں نقصان صرف کھیل کا ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس سارے معاملے میں نقصان صرف کھیل کا ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

مارچ 2009 کو دہشت گردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کو قذافی اسٹیڈیم لاہور جاتے ہوئے نشانہ بنایا۔ اس واقعے نے بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان سے دور کردیا۔ پاکستان میں کرکٹ کے میدان ویران ہوئے اور کوئی بھی غیر ملکی کرکٹ ٹیم پاکستان آکر کھیلنے کے تیار نہیں تھی۔

اس دوران ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کےلیے کوششیں کی گئیں۔ چھ سال بعد 2015 میں کھیل کے میدان آباد کرنے کی کوشش ہوئی اور زمبابوے کی ٹیم بلا خوف و خطر پاکستان کرکٹ کھیلنے کےلیے آئی۔ اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور وزیراعظم نواز شریف تھے۔ زمبابوے کی ٹیم نے دو ٹی ٹوئنٹی اور تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی۔ زمبابوے کی ٹیم کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا اور زمبابوے نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحالی کے دروازے کھولے۔

ملک میں ٹیسٹ سیریز کا سلسلہ دس سال بعد بحال ہوا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم بھی 2019 میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کےلیے پاکستان آئی۔ اس عرصے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کا بھی آغاز کیا لیکن غیر ملکی کھلاڑیوں کے پاکستان میں نہ کھیلنے کے باعث دبئی، شارجہ اور ابوظہبی میں پی ایس ایل کا انعقاد کیا گیا۔ 2017 میں پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں کھیلا گیا اور یوں پی ایس ایل مکمل طور پر پاکستان منتقل ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی میں پشاور زلمی کے ڈیرن سیمی کا بھی بڑا کردار تھا تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے بین الاقوامی کرکٹرز کو پاکستان آکر کھیلنے کا پیغام بھی دیا۔

پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے بعد کھیلوں میں بھی غیر ملکی کھلاڑیوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ کھیلوں کے ویران میدان آباد ہوئے۔ 2017 میں ورلڈ الیون نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 2018 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کھیلنے کےلیے آئی۔ کھیلوں کے میدان آباد ہونے کے ساتھ بین الاقوامی سیاح بھی پاکستان آنے لگے۔ بین الاقوامی سیاح خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کا دورہ کرنے لگے۔ پاکستان کو ایک مکمل محفوظ پاکستان بنا دیا گیا۔

بین الاقوامی کرکٹ اور کھیلوں کی بحالی کے بعد نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے بھی 18 سال بعد پاکستان میں قدم رکھا اور سخت سیکیورٹی حصار میں انھیں رکھا گیا۔ 17 ستمبر کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پہلا ایک روزہ میچ کھیلا جانا تھا لیکن اچانک نیوزی لینڈ کی ٹیم نے نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور وطن واپسی کا ارادہ کرلیا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا سیریز ملتوی کرنے کا فیصلہ پاکستان میں شائقین کرکٹ کےلیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ نے بھی پاکستان کا دورہ ملتوی کردیا۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے انکار کے بعد پاکستان میں کھیلنے کا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کی کرکٹ ٹیموں کو سیریز کی دعوت دے۔ اگر سری لنکن ٹیم مصروف نہیں ہے تو اسے کھیلنے کےلیے آنا چاہیے۔ زمبابوے نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھولے، انھیں کھیلنے کی دعوت دی جائے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ ویسے بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک کرکٹر چیئرمین ملا ہے۔ رمیز راجہ کے چیئرمین بننے کے بعد نیوزی لینڈ کرکٹ کا دورہ ملتوی ہونا بڑا دھچکا ہے۔ اب چیئرمین پی سی بی کے کندھوں پر بڑی ذمے داری ہے کہ وہ بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کو پاکستان آکر کھیلنے کےلیے راضی کرے۔ یہ احسن اقدام ہے کہ پاکستان نے کسی نیوٹرل مقام پر کھیلنے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان کو آئی سی سی پر یہ واضح کرنا چاہیے کہ اب پاکستان کسی غیر ملکی کرکٹ ٹیم سے ہوم سیریز کھیلے گا تو اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہی سیریز ہوگی۔

کھیلوں کے میدان میں بدلتی اس صورتحال کو بعض حلقے افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث میں اکثریت کی بھی یہی رائے ہے کہ افغانستان پالیسی میں عالمی قوتوں کی بات نہ ماننے کی سزا دی جارہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ یہ عالمی سازش کا حصہ نظر آرہا ہے اور بیرونی سازشوں کا پردہ چاک کریں گے۔ جبکہ وفاقی وزیر خارجہ نے بھی نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورے کی منسوخی میں بھارت کا ہاتھ قرار دیا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ساری صورتحال کا جائزہ لے کر دورہ ملتوی کرنے کے محرکات کا جائزہ لے۔ اگر یہ سازش ہے تو قوم سمیت پوری عالمی برادری کو اس سازش سے آگاہ کیا جائے۔ پاکستان کو یہ معاملہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں بھی لے جانا چاہیے کہ اچانک ایسا کیا ہوا جو عین وقت پر نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے کھیلنے سے انکار کردیا؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے گلی محلے میں کھیلنے والی ٹیمیں یہ کہہ کر کھیلنے سے انکار دیتی ہیں کہ پہلی باری میری ہے۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو معلوم نہیں کیسے ہوٹل سے باہر نکلنے سے قبل ہی سیکیورٹی کا خدشہ لاحق ہوگیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے اور نیوزی لینڈ سے وضاحت مانگی جائے کہ انھیں سیکیورٹی کے حوالے سے کیا خدشات تھے؟

کسی بھی غیر ملکی ٹیم کے دورے سے قبل اس ملک کو سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے مطمئن کیا جاتا ہے، تب جاکر کرکٹ ٹیم کو دورے کی اجازت دی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس سارے معاملے کو سنجیدگی سے لے اور دنیا کو باور کرانا چاہیے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنا دیا جائے، کھیل کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ اس سارے معاملے میں نقصان صرف کھیل کا ہوا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔