’’تحفے‘‘ اور حکمران

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 24 ستمبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

تحفہ لینا کسے پسند نہیں! یقینا یہ سب کو پسند ہوگا، پوری دنیا میں ’’تحفہ‘‘ ہی واحد چیز ہے جس سے انکار کوئی نہیں کرتا، تمام دوست ممالک تحفے تحائف کا لین دین کرکے گہرا رشتہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، چونکہ ممالک کی سطح پر تحائف لینے اور دینے والے عوامی نمایندگان ہوتے ہیں، اس لیے کسی بھی جمہوری ملک میں یہ تحفے کسی حکمران کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ یہ پبلک پراپرٹی بن جاتے ہیں۔

اس لیے حکمران انھیں ایک جگہ یعنی ’’توشہ خانہ‘‘ ’’پبلک گفٹ سینٹر‘‘ یا ’’اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘‘ میں جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔ پھر اگر آپ حکمران ہیں اور آپ کوئی تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تمام ممالک میں باقاعدہ قوانین موجود ہیں۔ مثلاً بھارت میں یہ قانون ہے کہ ’’چونکہ دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف ملک کے لیے ایک اعزازی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے وہاں ان تحائف کی قیمت سے زیادہ بولی لگائی جاتی ہے اور فروخت ہونے پر رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے۔

امریکا میں صدر بارک اوباما کے دور تک یہ قانون تھا کہ تحائف کو وہاں کے میوزیم میں رکھوایا جاتا ہے، تاکہ عوام کو علم ہو کہ کونسا ملک اُن کے ملک کے لیے کتنی چاہت رکھتا ہے، لیکن یہ قانون ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں تبدیل ہوگیا اور اب رقم ادا کرکے کسی کی بھی ملکیت میں جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کا قانون ہے، تحفے حکمرانوں، سرکاری ملازمین اور سیکیورٹی اداروں کے افراد خرید سکتے ہیں اور اگر کوئی تحفہ اس رولنگ اشرافیہ کی خریداری سے رہ جائے یا وہ خریدنا ہی نہ چاہیں تو پھر وہ  عوام میں فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

قانون یہ بھی ہے کہ ہر تحفے کو توشہ خانے میں جمع کرا دیا جائے لیکن اس پالیسی کے باوجود ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ملنے والے تحائف کے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی توشہ خانے میں جمع کرائے جاتے ہیں۔دسمبر 2018میں تشکیل دی گئی نئی پالیسی کے مطابق 30 ہزار روپے مالیت سے زائد کے تحائف کی پچاس فیصد قیمت ادا کرکے وہ تحفہ اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے تاہم تیس ہزار روپے تک کے تحفے کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ استثنیٰ ایسے تحائف کے لیے نہیں ہے جو نادر نوعیت کے یا تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہوں۔

نواز شریف کے آخری دور میں حکمران تحفے کا صرف 15فیصد ادا کرکے اُسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے، یہ قانون 2018میں تبدیل ہوا اور اب قانون یہ ہے کہ آپ تحفے کی کل مالیت کا 50فیصد ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ملک کی اعلیٰ شخصیات خصوصاً حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے بیش قیمت تحائف کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔اس معاملے کو اس وقت زیادہ عوامی توجہ ملی جب سابق دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے غیر ملکی دوروں سے ملنے والے تحائف کی تفصیل منظر عام پر لانے کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا۔اس کے ردعمل میں اس وقت کی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان تفصیلات کو چھپانے کی وجہ اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر ملنے والے بیش قیمت تحفے مقررہ قیمت سے کم پر لیا جانا ہے۔

ان الزامات کے بعد نواز شریف کو یہ تفصیلات منظر عام پر لانی پڑی، جنھیں پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں جمع کرایا گیا۔اب موجودہ حکومت نے توشہ خانہ میں رکھے غیر ملکی تحائف کی نیلامی کرائی تو ایک شہری کی درخواست پر پی آئی سی کی جانب سے حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملنے والے تمام تحفے، خاص طور پر وہ تحائف جو وزیر اعظم اور وزرا نے رکھے ہیں، ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔قانونی ماہرین کے مطابق حکومت یہ تفصیل جمع کرانے کی پابند بھی ہے مگر حکومت نے پی آئی سی میں یہ جواب جمع کرا دیا کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل سے ان ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے انھیں ملکی مفاد میں جاری نہیں کیا سکتا۔

جب کہ کچھ دن پہلے کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر وزرا کو ملنے والے 170سے زائد تحائف کو کچھ عرصہ قبل بولی کے تحت نیلام کیا گیا تھا۔ ان تحائف میں رولیکس گھڑیاں، سونے کے زیورات، مختلفڈیکوریشن پیسز، سوینیئرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل تھے۔ اسی معاملے پر ایک شہری نے پی آئی سی میں موجودہ حکومت بشمول وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی اور حکومت نے ملکی مفاد میں نہ ہونے کا جواز بنا کر وضاحت جمع کرائی۔

سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے تین سابق حکمران ان دنوں توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں اور توشہ خانے سے قیمتی کاروں کی خلاف ضابطہ خریداری پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ریفرنس بنایا گیا، جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر اثر ورسوخ استعمال کرکے غیر ملکی تحائف کم قیمت پر حاصل کرنے کا ملزم نامزد کیا گیا ہے تو موجودہ حکومت پر اس حوالے سے ابھی تک کوئی کیس درج کیوں نہیں کیا گیا؟

کیا نیب ان حکمرانوں کے جانے کے بعد کیس اوپن کرے گی، بالکل ویسے ہی جیسے زرداری حکومت کے جانے کے بعد زرداری پر کیس کھولا، نوازشریف حکومت جانے کے بعد نوازشریف پر کیس کھولا، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اسی ڈگرپر چل رہی ہے جس ڈگر پر سابقہ حکمران چلتے رہے۔ اگر موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے تو اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

درحقیقت یہ ہمارے لیے فطری عمل بن چکا ہے کہ ہمارے اندر سے لالچ ختم نہیں ہوسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ مہاتیر محمد کو اُن کے دور اقتدار میں 1800سے زائد تحائف ملے مگر انھوں نے ایک بھی اپنے پاس نہیں رکھا، تبھی ملائشیا ایک قوم بھی بن گیا۔ جب کہ یہاں پاکستان کے حکمران اور ریاستی اداروں کے افسران و عہدارد پاکستان کو ملنے والے تحائف کو بھی پبلک پراپرٹی کے بجائے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔

ویسے بھی کچھ لوگ میز کے نیچے سے ’’تحفہ‘‘ وصول کرنے کے عادی ہیں، کچھ علی الاعلان اور کچھ انعام کی صورت میں تحفے وصول کرتے ہیں۔ اور پھر کچھ معمولی تحفے بھی ہیں جیسے موٹر سائیکل والے ٹریفک سگنل توڑ کر دیتے ہیں، فارما کمپنیاں ڈاکٹرز کو دیتی ہیں، لمبی چھٹی کے لیے سرکاری ملازم اپنے باس کو دیتے ہیں اور ہوٹل و ریستوران والے فوڈ انسپکٹرز کو دیتے ہیں۔ کہیں تحفہ ’’نذرانہ‘‘بھی بن جاتا ہے، جو درگاہوں اور مزاروں کے گدی نشین، سیاست کے گدی نشین اور نام نہاد صحافت کے گدی نشین شکریے کے ساتھ وصولتے ہیں۔

الغرض ہماری سوسائٹی میں بدعنوانی، کمیشن، حصہ،خرچہ، بخشش،قبضہ مافیاکی رشوت، دو نمبر ادویات بنانے کے لیے رشوت، ذخیرہ اندوزی کرنے کی رشوت، چینی فیکٹریوں کو حکومتی سبسڈی دلوانے کی رشوت،کِک بیک، بھتہ، پارٹی فنڈز کی خردبرد یہ سب بڑے سخت الفاظ ہیں، مگر انھیں آپ پیار سے تحفے تحائف کہہ سکتے ہیں۔جب پاکستان کو تحفے میں ملی گاڑیاں اپنے خاندان اور حواریوں میں بانٹ دی جاتی ہیں، کبھی ہیروں کا ہار غائب ہو جاتا ہے۔اب خاں صاحب کی حکومت میں ان تحائف کو ایک منفرد مقام ملا ہے، یہ تحائف صیغہ راز میں رکھے جائیں گے۔

ہمارے ملک کی اشرافیہ بے حسی اور ہوس زر میں ا پنی آخری حد چھو رہی ہے ہیں ۔ یہ اشرافیہ جو پہلے ہی ارب کھرب پتی ہے، وہ ملک کو ملنے والے پبلک تحائف کو ذاتی ملکیت بنانے کے لیے من گھڑت باتیں بنا رہی ہے ، کیا یہ ہے نیا پاکستان؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔