بھائی جان مہربانی لائن لگا کر آئیے

م ش خ  جمعـء 24 ستمبر 2021
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

مختلف شعبہ سیاست سے کچھ ہمارے قابل احترام سیاست دانوں نے بلند و بانگ باتیں کیں اور ہم نے ان کی باتوں کو بہت غور سے اخبارات میں پڑھا اب تو دل ترستا ہے کہ کوئی تو ایسا بھی ملے جو گفتگو کا غازی ہو۔ پچھلے دنوں جناب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی فرما رہے تھے کہ آپ وزیر اعظم کی عزت پیر کی طرح کریں۔

ارے جناب! قوم کو آپ اب بتا رہے ہیں، قوم نے تو 2018 میں انھیں پیر مان لیا تھا اور انھیں ووٹ دے کر پیروں کا درجہ دے دیا وہ قوم کے آج بھی پیر ہیں اور لوگ ان کی قابلیت سے مستفید ہو رہے ہیں ، وہ قوم کے پیر ہیں۔

آپ نے بھلا فکر کی مگر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہہ رہے تھے(1)۔ وزیر اعظم ناکام ۔ (2)۔وزرا کو کام نہیں آتا۔ (3)۔معیشت ڈبو دی۔ میرے محترم اگر یہ صلاحیتیں آپ استعمال کرتے تو تحریک انصاف اس باوقار عہدے پر کیسے فائز ہوتی، روز چینلز پر اجلاسوں کی کوریج دیکھتے ہیں ایک بات ہم کم عقل کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اجلاس کی ٹیبل پر جگہ جگہ گلدستے سجے ہوتے ہیں کیا تعمیری اور مثبت کام کے لیے پھولوں کا ہونا ضروری ہے۔

یہ عہد ساز دور بھی تاریخ کا حصہ بنے گا اور یہ روایت گزشتہ 15 سال سے جاری ہے اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ ان پھولوں سے بھی پھولوں کی خوشبو نہیں آتی بلکہ غریبوں کے پسینے کی خوشبو آتی ہے۔

چلیے جناب پھولوں سے طرز بیان بدلتے ہیں، جولائی میں پولٹری فیڈ پر سیلز ٹیکس 7 فیصد کم کیا گیا مرغیاں تو روز جان سے جاتی ہیں مگر سیلز ٹیکس کی کمی کا فائدہ عوام کو یہ ہوا کہ جو مرغی 390 اور 400 روپے میں فروخت ہو رہی تھی وہ آج بھی اپنے شباب اور جوانی کو قوم کے حضور پیش کرنے کے باوجود اسی ریٹ پر فروخت ہو رہی ہے۔ سیلز ٹیکس 7 فیصد جو کم کیا تھا اس میں سے ٹیکس کا جملہ نکال دیں سیل اسی دام پر ہو رہی ہے، رہا معاملہ ٹیکس کا وہ شرفاء باقاعدگی سے دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ وفاقی وزیر فرما رہے تھے اگر تمام آبادی کو صحت کارڈ دے دیے تو اپوزیشن فارغ ہو جائے گی ۔

ارے جناب! اپوزیشن تو ابھی بھی فارغ ہے وہ بھی اسمبلیوں میں ڈیوٹی دینے آتے ہیں اس کے بعد گھر چلے جاتے ہیں وہ بھی 2023 کے الیکشن میں امید کے چراغ کو جلائے بیٹھے ہیں کہ اب کی باری ہماری ہے۔

ان باریوں کے حوالے سے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے سرکس کے باہر پنجرے میں ایک طوطا لٹکا ہوا تھا اور ایک الفاظ بار بار بول رہا تھا ’’بھائی جان مہربان باری باری آئیے، لائن لگا کر آئیے‘‘ پھر ایک دن وہ طوطا پنجرے سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا جب جنگل میں پہنچا تو نئے طوطے کو دیکھ کر بہت سارے طوطوں نے اسے مارنا شروع کردیا مگر اس کی زبان سے یہی الفاظ ادا ہوتا رہے کہ بھائی جان مہربان باری باری آئیے، لائن لگا کر آئیے، سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف فرما رہے تھے کہ ہم کراچی کو پیرس بنا دیں گے آج مجھے سمجھ میں آیا کہ کراچی والے PPP سے کیوں ناراض ہوجاتے ہیں۔

تین مرتبہ اقتدار میں شہباز شریف صاحب نے واقعی کراچی کو پیرس بنا دیا تھا، ایئرکنڈیشن ڈبل ڈیکر بسیں، تمام روڈ پر کارپٹ نظر آتے تھے، فٹ پاتھوں پر گلاب کے پودے اپنی مہک سے رنگ بکھیرتے تھے، رنگ برنگی اسٹریٹ لائٹس جن کی روشنی میں شرمندہ چہرے بھی خوش شکل نظر آتے تھے، شہر میں سیکڑوں یونی ورسٹیاں جن میں لاکھوں بچے تعلیم سے فیض یاب ہو رہے تھے ہر چوک پر گلیوں میں اسپرے کیا جاتا تھا۔ صبح شام سڑکیں دھلتی تھیں، قوم حواس باختہ تھی کہ یہ کیا ہو گیا دیکھتے دیکھتے ریلوے اسٹیشن آباد ہوگئے۔

ملیر سے لے کر ٹاور تک ٹرینیں چلتی تھیں جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے تھے، معروف بازاروں میں خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ باتھ روم تھے۔ راقم الحروف یورپ، فرانس کے شہر پیرس میں کچھ عرصہ رہا ہے واقعی انھوں نے کراچی کو پیرس بنا دیا تھا یہیں پی پی پی سے گلہ ہے کہ انھوں نے دی گئی ان سہولتوں کو اپنے دور حکومت میں ختم کر دیا کوئی بات نہیں ہمیں پھر کراچی کو پیرس بنانے کے لیے شہباز شریف کا انتظار کرنا ہوگا (ن) لیگ کے ایک سیاسی شخصیت فرما رہے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر کے لیے کہ جنھوں نے میٹرک کیا آرٹس سے، وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر بن گئے، بھائی اس ملک میں عزت دار جمہوریت ہے، ماضی میں ایک حکومت ایسی بھی تھی جس کے وزیر تعلیم میٹرک تھے۔

یہ بات دوسری ہے کہ وہ خود وزیر تعلیم تھے۔ روس کی حکومت نے سرکلر نکالا کہ روس کی طرف رخ کرکے پیشاب کرنا منع ہے ،ارے جناب روسیوں آپ کے دل کی حسرت دل کے باغات میں ہی رہے گی۔ ہمارے ہاں تو رخ کا تعین ہی نہیں ہے ہمیں آپ آنے کا موقع دیں ہم بڑے باکمال لوگ ہیں جس کا جہاں دل کرتا ہے پیشاب کرکے چلتا بنتا ہے۔

ایک سابق وزیر اعظم فرما رہے تھے ایسی آج کوئی وزارت نہیں جہاں اربوں کا اسکینڈل نہ ہوا ہو، آپ فکر نہ کریں ماضی میں کسی کا کچھ نہیں ہوا، مستقبل اس سے بھی زیادہ شاندار ہوگا جب آپ برسر اقتدار آئیں گے تو ادھر والے آپ کی طرف ہوں گے۔

کیا پوچھتے ہو میری زندگی کا حال

اب تو زندگی بھی جمہوریت کی بندگی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔