ہمیں نہ چھیڑو، ہم ترقی کر رہے ہیں

راؤ سیف الزماں  جمعـء 24 ستمبر 2021

میرے والد کے ایک دیرینہ دوست کورنگی انڈسٹریل ایریا کے قریب ہی رہتے ہیں ، کیونکہ والد صاحب فوت ہوچکے لہٰذا میں اکثر و بیشتر ان کے دوستوں کی خدمت میں حاضر ہونا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تعلقات کی ڈور اور رشتوں کا تسلسل جاری رہے۔

میں ملاقات کی غرض سے ان کے یہاں پہنچ گیا ان کا نام میں یہاں یوسفی فرض کرلیتا ہوں غرض یہ کہ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملے کافی وقت والد مرحوم کو یاد کرتے رہے ، اپنی ان کی مشترکہ یادیں مجھ سے شیئر کیں ، لیکن اس دن ان کے چہرے پر مجھے وہ تازگی اور شگفتگی دکھائی نہ دی جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہوا کرتی ہے بلکہ وہ کچھ خاموش سے لگے ، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ ’’چچا ، میاں آج آپ کچھ پریشان سے معلوم پڑتے ہیں ، اللہ خیر فرمائے سب ٹھیک تو ہے؟‘‘ کچھ چھپاتے ہوئے کہنے لگے ’’ہاں ! سب خیریت ہے اللہ کا بڑا کرم ہے میاں وہ ہر حال میں خوش رکھتا ہے‘‘ لیکن مجھے لگا کچھ تو معاملہ ضرور ہے لہٰذا پھر دریافت کیا اس بار انھوں نے کچھ توقف کے بعد بتایا کہ ان کی دختر کو جو ابھی زیر تعلیم ہیں ڈاکٹرز نے جگر کا کینسر تشخیص کیا ہے اور کینسر بھی اسٹیج ٹو میں ہے گویا کہ اس وقت علاج نہ ہوا تو مرض ناقابل علاج ہو جائے گا۔

یہ خبر سن کر مجھے بھی بڑی تشویش ہوئی کیونکہ مجھے یوسفی صاحب کے مالی حالات کا بخوبی علم تھا جو اچھے نہیں تھے وہ ایک سفید پوش انسان تھے لیکن بلا کے خود دار اور حساس۔ اس اطلاع کے بعد ہم دونوں ہی خاموش ہوگئے، میں نے پھر گفتگو کی ابتدا کی اور ان سے بچی کی بیماری کے بارے میں مزید سوال کیا کہ ’’ڈاکٹرز اب کیا رائے دیتے ہیں؟‘‘ یوسفی صاحب نے بڑے کرب سے بتایا کہ ’’ ڈاکٹرز ایک میجر آپریشن بتاتے ہیں جس پر لاکھوں روپے کا خرچ آئے گا اور میاں میرے پاس تو پھوٹی کوڑی تک نہیں آمدن بس انھی دکانوں کا کرایہ ہے جو گھر کے باہر کرائے پر اٹھائی ہوئی ہیں ، یا میری معمولی سی پینشن، ان دونوں سے بس گھر ہی مشکل سے چلتا ہے پانچ بچے اب بھی زیر تعلیم ہیں، کیسے یہ آپریشن کروا لوں؟ میں نے کہا ’’لیکن پھر بیٹی کا کیا ہوگا؟ ‘‘ افسردگی سے کہنے لگے کہ ’’ ہوگا کیا غریب کی بچی ہے مر جائے گی اور کیا ہونا ہے۔ یہی ہوتا آیا ہے اس ملک میں شاید یہی ہوتا رہے گا‘‘ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں کہیں اندر کی طرف آنسوؤں کا ایک سمندر موجزن تھا جس میں دکھ ، افسوس ، بے بسی ، بے چارگی کے ان گنت آنسوؤں کی لہریں ایک ڈوبتی ہوئی شام کو الوداع کہہ رہی تھیں۔

مجھے ایک وفاقی وزیر کا چند دن پہلے اخبار میں دیا گیا انٹرویو یاد آگیا کہ ’’ اللہ کے فضل سے ہماری حکومت ملک کو گرداب سے نکال چکی ہے، اب ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے قوم عنقریب بڑی بڑی خوش خبریاں سنے گی‘‘ میں نے سوچا کیا واقعی ہم ترقی کر رہے ہیں؟ یوسفی صاحب کی بیٹی کچھ ہی دنوں بعد انتقال کرگئی۔

اس دن بھی میں نے دیکھا کہ وہ بالکل نہیں روئے بلکہ خاموشی سے بس کبھی کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے، جانے کیا سوچ کر یا شاید ان کے ہونٹوں پر کچھ خاموش سے سوال تھے جنھیں وہ کرنا چاہتے تھے، پھر شاید انھیں جواب مل گیا اور انھوں نے نظریں جھکا لیں۔

پچھلے دنوں کراچی کی ایک کیمیکل فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جو مزدور دوسری منزل پر تھے وہ بے چارے پھنس گئے، آگ نے انھیں بھسم کردیا وہ چیختے چلاتے رہے ، مدد کے لیے آنے والی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہمیشہ کی طرح اس وقت پہنچیں جب تک وہ راکھ اور خاک ہو چکے تھے 19 گھروں کے چراغ بجھ گئے لیکن ہماری ترقی جاری رہی۔ کسی نے آگ لگنے کی وجہ جاننے کی کوشش کی ، نا ہی کوئی گرفتاری ہوئی نا کیس بنا وہی بے کار ، رشوت خور پولیس والے تفتیش کے نام پر پیسے اینٹھتے رہے جن میں سے کسی کی اپنی اولاد بھی اس حادثہ میں جل مرتی تو وہ اس کی بھی رشوت لینے سے باز نہ آتا۔

ایک اطلاع کے مطابق ملک پر بیرونی قرضے اربوں ڈالر ہوچکے ہیں لیکن ہماری ترقی دیکھیں تو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک عام آدمی کی اوسط آمدن میں دو سالوں کے دوران 17 فیصد کمی آئی اور مہنگائی میں 25 فیصد اضافہ ہوا اس لیے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں ، لیکن کچھ اداروں نے واقعی ترقی کی۔

حقیقی ترقی اس میں کوئی شک نہیں، وہ تو اب امریکا میں جزائر کے مالک ہیں بلکہ ان کے ایک اعلیٰ و بالا افسر نے ایک نجی محفل میں بڑی نخوت سے کہا ’’یار، اب پاکستان میں تو جائیداد بنانی ہی نہیں ہے جب ادھر گھر والے رہتے ہی نہیں ہیں تو فائدہ‘‘ اور مان لیجیے اداروں کی ترقی ہی ہماری ترقی ہے کیونکہ وہ ملک چلاتے ہیں، وہ ہر ادارہ اپنے ادارے کے علاوہ چلاتے ہیں بس وہی نہیں چلتا ان سے۔ بہرحال ترقی تو ہو رہی ہے آٹا ، چینی ، گھی ، دالیں، دوائیاں ہر ہر چیز میں ترقی۔ بھئی ترقی کا ایک مطلب اوپر جانا بھی تو ہے اور آج ہر آئٹم اوپر کی جانب ہی سفرکر رہا ہے۔

بقول وزیر اعظم ’’بٹن دبانے سے ملک نہیں بدل جاتا‘‘ لیکن کسی نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ بٹن دبانے سے ملک تباہ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے بجا فرمایا کیونکہ ان کی سیاست بھی پانی پلا پلا کر مارنے والی ہے ، جب وہ اپوزیشن میں تھے تب ان کی ایک تقریر میں نے ملاحظہ کی تھی جس میں ایک جملہ موصوف کا یہ بھی تھا کہ میں انھیں پانی پلا پلا کر ماروں گا اور وہ جو کہتے ہیں وہ تو کرتے ہی ہیں اور جو نہیں کہتے وہ تو ہر قیمت پر کرتے ہیں۔ تو جناب بات ہو رہی ہے کہ ملک ترقی کی راہوں پر پچھلے 73 سالوں سے گامزن ہے اور ہر ترقی عوام سے کچھ قربانیاں مانگتی ہے جن کا دینا عوام پر فرض بنتا ہے اور عوام بحسن و خوبی دے بھی رہے ہیں اور اس قدر محب وطن عوام ہے کہ اپنے بچے تک بھوک برداشت نہ کرتے ہوئے نہر میں پھینک دیتے ہیں۔

بچوں کو بازار لے جاکر ان پر برائے فروخت کا بورڈ لگا دیتے ہیں لیکن ملک کی ترقی میں کبھی حائل نہیں ہوتے۔ عظیم ملک کی عظیم عوام اور سب کی عظیم ترقی! میں نے 6 ستمبر کے دن ہی ان مزدوروں کو بھی سینے پر پرچم لگائے ہوئے دیکھا جو اس دن صبح سے اپنی کدال، بیلچہ لیے مزدوری کے انتظار میں شام تک بیٹھے رہے اور مزدوری نہیں ملی۔ واہ کیا بات ہے۔ نہ بھئی نہ ہم ترقی کی شاہراہ پر ہیں اب پیچھے نہ ہٹیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔