چند اہم غذائی اشیا کی درآمدات اور زرمبادلہ

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 25 ستمبر 2021

ملک کے طول و عرض میں جہاں بھی ہم بذریعہ  بس یا ٹرین سفر کر رہے ہوں تو زیادہ تر علاقوں میں سفر کرتے ہوئے مال مویشی چرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان میں گائے، بھینس، بکریاں، بھیڑ اور اونٹ وغیرہ جوکہ دودھ دیتی ہیں۔ ان کا حصہ غالب ہوگا جن میں سے خاص طور پرگائے، بھینس سے لاکھوں لیٹر دودھ روزانہ حاصل کیا جاتا ہے۔

دودھ کی پیداوار کے حصول کے لیے لاکھوں کی تعداد میں بھینس اور گائے پالی جاتی ہیں اور یوں پاکستان دودھ کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک مانا جاتا ہے ، لیکن ملک بھر میں پھیلے لاکھوں اسٹورز میں سے کسی ایک میں بھی چلے جائیں، بچوں کے دودھ کے ڈبے درآمد شدہ ہی دستیاب ہوں گے۔

ان میں کریم، پنیر، ملک فوڈ بچوں کے لیے دودھ سے بنی غذائی اشیا وغیرہ بڑی مقدار میں کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے درآمد کیا جاتا ہے۔ مالی سال 2020-21 کے دوران 19 کروڑ5 لاکھ ڈالرز اس مد پر خرچ کردیے گئے ، جب کہ مالی سال 2019-20 کے دوران اس مد میں 16 کروڑ19 لاکھ ڈالر کے اخراجات آئے تھے اور اسے 19 فیصد اضافے کے طور پر نوٹ کیا گیا۔

اب درآمد پر جو خرچ آتا ہے وہ اپنی جگہ ان میں زیادہ خرچ بچوں کے لیے دودھ سے بنی غذائی اشیا پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ سلسلہ مستقل چلا آ رہا ہے۔ اب تک پاکستان یہ دعویٰ تو کر رہا ہے اور دنیا بھی مان رہی ہے کہ ملک کے لہلہاتے کھیتوں، زرخیز زمینوں سے بھینس، گائے کے لیے کھانے کا چارہ حاصل کرلیا جاتا ہے پھر بھی ہر سال کروڑوں ڈالرز ملک کریم اینڈ ملک فوڈ فار انفینٹس پر خرچ کر دیے جاتے ہیں لیکن اب تک ان درآمدات کا متبادل تیار نہ کرسکے جس کی فوری ضرورت ہے، بلکہ اس طرف توجہ دیں تو معاملہ الٹ ہوسکتا ہے یعنی کہ جتنی رقوم درآمدات پر خرچ کرتے ہیں اس سے زیادہ برآمدات کرکے کما سکتے ہیں۔

فوڈ گروپ کی درآمدات میں مسالا جات کی درآمدات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان میں مسالا جات کا استعمال روزبروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، کیونکہ مختلف کھانوں کو ذائقہ دار بنانے میں انھی مسالوں کا کمال ہوتا ہے۔ ملک بھر کے گھروں میں اور خاص طور پر شادی بیاہ کے موقعوں پر مختلف ڈشز کے بنانے پر ان مسالا جات کا کثیر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اب ہر طرف ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور کھانے کے ڈھابے وجود میں آ رہے ہیں ان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ انھی مسالا جات کے استعمال سے تیار شدہ بیسیوں اقسام کے کھانوں پر ہے، جن کو لذیذ سے لذیذ تر بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران فوڈ گروپ کے تحت صرف Spices کی مد میں 22 کروڑ47 لاکھ ڈالرز صرف کردیے گئے، جب کہ مالی سال 2019-20 کے دوران 17 کروڑ38 لاکھ ڈالرز خرچ کردیے گئے تھے۔ اس طرح 29.31 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

ان میں بہت سے مسالوں کی اقسام کی پیداوار پاکستان میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے خوراک کی اقسام کی پیداوار سے متعلق ماہرین کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسالا جات میں کئی اقسام ایسی ہیں جوکہ بیرون ملک سے انتہائی مہنگے داموں خریدی جاتی ہیں۔ خاص طور پر ان کی ملک میں پیداوار سے متعلق توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لاکھوں کروڑوں ڈالرز سالانہ بچائے جاسکتے ہیں۔

ایسے علاقوں سے پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے جہاں کی زمین زیادہ زرخیز بھی نہ ہو۔ پھر بھی وہاں سے نہ صرف مختلف اقسام کے مسالا جات اور جڑی بوٹیاں جن سے ادویات یا ہربل میڈیسن یا یونانی ادویات بنائی جاسکتی ہیں باآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس طرح ان جڑی بوٹیوں یا مسالا جات سے متعلقہ پیداوار کے حصول سے اور ان کی برآمد سے بڑی مقدار میں زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

میں بار بار مختلف آئٹمز کی پیداوار کے حصول اور ان کی برآمد کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کہ پاکستان کو زرمبادلہ کی ہر وقت ہر لمحے سخت ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر طرح سے برآمدات پر توجہ دینے کے ساتھ ہر طریقے سے برآمدات کے لیے پیداوار کے حصول سے لے کر برآمدات کے لیے زرمبادلہ کمانے کے لیے ہر ضروری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی درآمدات کو کم کرکے مقامی طور پر ان اشیا کی پیداوار کا حصول بھی یقینی بنانا ہوگا۔

فوڈ گروپ سے متعلق چند ضروری آئٹمز کا تذکرہ گزشتہ کالم میں کرچکا ہوں۔ فوڈ گروپ کے اعداد و شمار کا مطالعہ کیا جائے تو ان سویا بین آئل کی درآمد میں 66 فیصد اضافہ حیران کن بھی ہے جو کچھ اس طرح سے ہے کہ 2020-21 کے دوران 9 کروڑ55 لاکھ ڈالرز کا سویا بین آئل درآمد کیا گیا تھا جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال کے دوران 5کروڑ ساڑھے پچھتر لاکھ ڈالر کا خرچ آیا تھا۔ اس طرح 66 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔پاکستان میں بھی سویا بین آئل کی پیداوار حاصل ہوتی ہے اس کی مقدار بڑھانے کی ضرورت ہے اور درآمدات کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔

اب ذکر ہو جائے دالوں کا جس پر پاکستان ہر سال اخراجات بڑھاتے ہوئے رواں مالی سال میں راقم کا اندازہ ہے کہ یہ اخراجات سوا کھرب روپے تک جاسکتے ہیں۔ اگر صرف گزشتہ مالی سال کے اخراجات کو دیکھتے ہیں تو یہ 71 کروڑ ڈالرز بنتے ہیں جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال 2019-20 کے دوران اخراجات 61 کروڑ 46 لاکھ ڈالرز تک تھے۔

اس طرح تقریباً ساڑھے پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے لہٰذا رواں مالی سال پاکستانی کرنسی میں بات سوا کھرب تک جا پہنچے گی۔ پاکستان کو آیندہ کے لیے مختلف معاشی اور مالی بحرانوں سے نکلنا ہے تو اس کے لیے ایک طویل معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں خاص طور پر زرعی منصوبہ بندی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ خاص طور پر ان زرعی پیداوار پر توجہ دیتے ہوئے ان کی درآمدات کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہوگی جن کی پیداوار ملک میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔