محکمہ صحت پنجاب کی تباہی کا ذمے دار کون؟

محمد ساجدالرحمٰن  پير 27 ستمبر 2021
سرکاری اسپتالوں کی لیبز میں موجود مشینری بھی خراب ہوچکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سرکاری اسپتالوں کی لیبز میں موجود مشینری بھی خراب ہوچکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

’’ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن ہی جانڑے‘‘۔ اس پنجابی گانے کے مصرعے کا اردو میں ترجمہ یا تشریح کی جائے تو کچھ یوں ہے کہ جس انسان یا ذی روح کے ساتھ مسائل یا حالات و واقعات پیش آتے ہیں وہی اس کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور بیان کرسکتا ہے۔ چند روز قبل ایک دوست نے محکمہ صحت اور خاص طور پر پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی بگڑتی حالت کا شکوہ کیا تو دیگر احباب نے سیاسی موضوع کہہ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن حقیقت آخر کب تک چھپ سکتی ہے۔

گزشتہ چند سال سے والدہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ ہفتے اچانک تکلیف ہونے پر ڈی ایچ کیو میڈیکل ایمرجنسی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کی صورتحال دیکھ کر بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ منظر کچھ یوں تھا کہ سات بجے اسپتال پہنچے اور 8 بجے عملے کی شفٹ تبدیل ہونا تھی۔ ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر مریضوں کو دیکھنے سے انکار کررہے تھے اور انتظار کی ترغیب دیتے ہوئے رفوچکر ہوگئے۔ پیرامیڈیکل اسٹاف نے نئی شفٹ کے آنے تک انتظار کا مشورہ دیا۔ مسئلہ صرف میرے مریض کا ہی نہیں، وہاں موجود دیگر افراد بھی تھے جن کی حالت انتہائی تشویشناک تھی اور بیشتر سانس کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اس پریشانی کے عالم میں پرائیوٹ اسپتال جانے میں ہی عافیت سمجھی لیکن دیگر مریض یوں ہی بے یار و مددگار پائے گئے۔

اس واقعے کے بعد جب ڈی جی ایچ کیو اسپتال اور محکمہ صحت کے حوالے سے چھان بین کی تو انتہائی پریشان کن حقائق سامنے آئے۔ حکومت پنجاب کا سارا دھیان کورونا کی طرف ہے اور اس ضمن میں کروڑوں روپے کے بجٹ مختص کیے جارہے ہیں، لیکن باقی اہم منصوبوں پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کی 3 سالہ کارکردگی کی بات کی جائے تو اقتدار کے پہلے سال نواز شریف جبکہ بقیہ 2 سال میں کورونا شامل رہے ہیں۔ اسپتالوں کی حالت پہلے سے بھی انتہائی خراب ہوچکی ہے، کیونکہ انہیں وقت پر مرمت نہیں کیا جارہا۔ کچھ دن قبل میڈیا نے نشاندہی کی کہ ڈی ایچ کیو اسپتال سرگودھا واپڈا کا ڈیفالٹر ہے جس کے باعث انہوں نے کنکشن منقطع کردیا ہے اور اس پر اسپتال میں بجلی جنریٹر کی مدد سے فراہم کی جاتی رہی۔ یہ صورتحال حکومتی خزانے پر نہ صرف بوجھ بلکہ انتظامیہ کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تختی لگانے کا اتنا شوق کہ برن یونٹ کو ختم کرکے ڈائیلاسز سینٹر بنادیا۔ میڈیا پر اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کا مسئلہ آئے روز اجاگر کیا جاتا ہے۔ داد سمیٹنے کےلیے کارڈیک وارڈ کو ختم کرکے کورونا وارڈ بنادیا گیا جبکہ دل کے مریضوں کو ان کمروں میں منتقل کیا گیا ہے جن کی حالت انتہائی خراب ہے، پنکھے بھی خراب ہیں اور لواحقین ہاتھ سے بنے پنکھوں سے ہوا دیتے نظر آتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں کی لیبز میں موجود مشینری بھی خراب ہوچکی ہے، جس کے باعث پرائیوٹ لیب کے ساتھ معاہدہ کرکے مریضوں کو آدھی فیس پر چیک کیا جاتا ہے۔ ان ہی لیبز میں 2018 تک مریضوں کے ٹیسٹوں کا مفت معائنہ کیا جاتا رہا ہے۔ رفاہی اداروں کی مدد سے بیڈز کو ٹھیک کیا جاتا ہے جبکہ اسٹریچر اور وہیل چیئرز بھی انہی کے ذمے ہے۔

اگر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز کا جائزہ لیا جائے تو کرپشن کا طوفان دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان اتھارٹیز کو ڈبلیو ایچ او، روٹری انٹرنیشنل اور دیگر بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز کی طرف سے اربوں روپے کا سامان عام شہریوں کو بنیادی صحت کی فراہمی کےلیے مہیا کیا جاتا ہے لیکن وہ عوام کے بجائے خواص تک ہی محدود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ویکسینیٹرز کو موٹر سائیکل فراہم کیے گئے ہیں جن کی مرمت کےلیے کروڑوں کا سامان ہر ماہ مہیا کیا جاتا ہے، لیکن یہ آج تک کسی ویکسینیٹر کو نہیں پہنچ پایا۔ لاہور سے نکلنے والے کنٹینرز راستے میں ہی غائب ہوجاتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی اسٹیشنری، کمپیوٹرز اور موٹر سائیکلوں کو غائب کردیا جاتا ہے، جو دفتر کے ریکارڈ تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔

بنیادی مرکز صحت پر بھیجی جانے والی ادویہ، صابن، سرف اور دیگر سامان کو اسٹور کیپرز افسران بالا کی پشت پناہی کے باعث مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں۔ چند سال قبل پولیو ورکرز کےلیے آنے والی چھتریاں اور ٹوپیاں بھی اسی طرح فروخت ہوئیں اور میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد ہمیشہ کی طرح صرف نوٹس لیا گیا۔ حال ہی میں کورونا ویکسین شروع ہوئی تو اس کی پیکنگ کےلیے انتہائی قیمتی میٹریل استعمال کیا جارہا ہے۔ ویکسین کو سینٹرز پر بھیجنے کے بعد اسٹور انچارچ پیکنگ میٹریل کو بیچ دیتے ہیں۔ ’مالِ مفت دل بے رحم‘ کی اس سے عمدہ مثال نہیں ملتی۔

پنجاب کے وسیم اکرم پلس جو 4 گھنٹوں میں 400 لوگوں کے مسائل سننے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں، ان کی توجہ صرف لاہور کے اقتدار اور بیوروکریسی کے تبادلوں پر ہے۔ گزشتہ ہفتے حکومت پنجاب کی جانب سے صوبہ بھر کے اسپتالوں کے معائنے کےلیے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایات جاری کی گئیں۔ معائنے کے بعد مجموعی طور پر صوبہ بھر کے اسپتالوں کی حالت مایوس کن پائی گئی۔ کمشنر سرگودھا کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ لاکھوں روپے کی قیمتی دوائیں اسٹور میں خراب ہورہی ہیں۔ محکمہ صحت کا کوئی گارڈ، عملہ یا اسٹور انچارج موقع پر موجود نہ پایا گیا۔ ریفریجریٹر مجموعی طور پر خراب پائے اور جن کی حالت ٹھیک تھی ان کو بھی انتہائی لاپروائی سے استعمال کیا جارہا تھا۔ اسٹورز میں ملازمین نے موٹر سائیکل پارکنگ بنا رکھی تھی۔

حالیہ مون سون بارشوں کے بعد صوبہ بھر میں ڈینگی کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ کورونا کا دردِ سر پہلے ہی موجود تھا، اب ڈینگی سے عوام کی زندگیوں کےلیے خطرات سنگین تر ہورہے ہیں۔ اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لاہور کے ہر 206 میں سے ایک گھر میں ڈینگی پازیٹیو موجود ہے۔ اسپتالوں میں 23 فیصد اور لیبارٹریز میں 77 فیصد ڈینگی کیسز کی تصدیق ہوئی۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسپتالوں میں ڈینگی وارڈز کو کورونا وارڈز میں تبدیل کردیا گیا ہے اور ڈینگی کاؤنٹرز بھی کام نہیں کررہے۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ صرف لاہور میں 623 کنفرم مریض سامنے آچکے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیر صحت کے نوٹس لینے کے باوجود صوبائی دارالحکومت میں فوگنگ کی مہم شروع ہوسکی، نہ ہی ڈینگی اسکواڈ متحرک ہوئے۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ لاہور میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ سابق حکومت نے انسداد ڈینگی کےلیے منظم ضابطہ کار مرتب کر رکھا تھا اور اس حوالے سے ڈینگی کے خصوصی اسکواڈ بھرتی کیے گئے تھے، جو فروری میں ہی تمام ضروری وسائل مہیا کرکے یونین کونسل کی سطح پر متحرک کردیا جاتا تھا۔

حکومت پنجاب بدترین صورتحال کے پیش نظر انسدادِ ڈینگی کےلیے اب لوگوں کو بھرتی کررہی ہے، جبکہ پہلے سے موجود لوگوں کو تبدیلی سرکار نے سفارشی بھرتیوں کا نام دے کر نکال دیا تھا۔ اگر ڈینگی بے قابو ہوا تو یہ صرف اور صرف مجرمانہ انتظامی نااہلی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔