آٹا چکی والے ایم حمزہ

فاروق عادل  پير 27 ستمبر 2021
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

چھوٹوں لوگوں کے عہد میں ہماری سیاست کا ایک بڑا آدمی چلا گیا۔ یہ ذکر ہے، جناب حمزہ کا۔جناب حمزہ کا نام کانوں میں اس زمانے میں پڑا جب ہر بات سمجھنے کے لیے بڑوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان سطور کے لکھنے والے نے جب خواب دیکھنے والے والد کی انگلی پکڑ کر سیاسی جلسوں میں جانا شروع کیا تو حیرت ہوئی۔

حیرت اس بات کی تھی کہ اس عہد کے علما ہوتے یا سیاست دان، سب کے نام لمبے لمبے اور طویل ہوتے۔ اتفاق سے کوئی نام چھوٹا رہ جاتا تو بطل حریت، راہ نمائے ملت، آفتاب سیاست وغیرہ وغیرہ کی پخ لگا کر یہ کمی پوری کر لی جاتی لیکن ان بھلے زمانوں میں بھی یہ شخص حمزہ تھا، فقط حمزہ۔اسی حمزہ کو خطاب کے لیے پکارا جاتا تو  اسٹیج سیکریٹری مشکل میں پڑ جاتے اور اپنی عادت کے مطابق اس کے نام میں سابقے لاحقے ٹانگنے کی کوشش کرتے تو اسی دم ایک شخص خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوتا، شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اسٹیج سیکریٹری کا کاندھا تھپتپاتا، اسٹیج سیکریٹری بھی شاید اسی انتظار میں ہوتا، وہ بزرگوں کو دیے جانے والے اس احترام کے ساتھ ہی پیچھے ہٹ جاتا کہ کہیں اس برگزیدہ شخص کی طرف پیٹھ نہ ہو جائے۔

جناب حمزہ کی ایک شناخت اور بھی تھی، اونچی باڑھ کی جناح کیپ اور دور تک مار کرنے والا نظر کا چشمہ۔ ٹوپی اپنی جگہ پر رہتی اور چشمے کو وہ دو انگلیوں سے پکڑ کر ماتھے پر چڑھا دیتے، اس طرح جناح کیپ اور آنکھوں کے درمیان جو جگہ بچ رہتی تھی، چشمہ اسے ڈھانک لیتا۔ اس شخص کے سراپے میں دیکھنے کا ایک دل چسپ منظر یہ بھی تھا لیکن بہت تھوڑے سامعین ہوا کرتے ہوں گے جو اس منظر پر توجہ دے پاتے ہوں گے کیوں کہ بعد کی صورت حال میں اس کی گنجائش ہی نہ رہتی۔جناب حمزہ بہتے پانیوں میں آگ لگا دینے والے مقرر تھے۔

وہ مقررین کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے سلطان الخطبا امیر شریعت عطا اللہ شاہ بخاری اور صاحب سیف و قلم آغا شورش کاشمیری علیہ رحمہ کا زمانہ دیکھا اور اور ان ہی کی پر شور خطابت کے زمانے میں اپنی خطابت کا سکہ جمایا۔ ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ خطیب کو سات خون معاف ہوتے ہیں، وہ زور خطابت میں جو چاہے کہتا چلا جائے۔ یہ ان ہی خطیبوں کے زمانے کا ایک معروف واقعہ ہے جب انیس ترپن کی تحریک ختم نبوت کے دوران ایک انتہائی برگزیدہ مقرر نے کسی تکلف کے بغیر اعلان کر دیا کہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین قادیانی ہو چکے ہیں۔

اس زمانے کے مقررین کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو اس مثال کی طرح خود کو کسی اخلاقی یا مذہبی قدر کی پابند نہیں سمجھتی تھی۔دوسری مثال شورش کاشمیری کے اسکول خطابت میں تلاش کی جا سکتی ہے جس میں ابوالکلام آزاد کی طرح بھاری بھرکم الفاظ و تلمیحات، ذو معنی جملے اور مشکل زبان کااستعمال ہوا کرتا۔

جناب حمزہ نے ان انتہاؤں کے بیچ خطابت کا نیا ڈھنگ ایجاد کیا۔ وہ آگ لگا دینے والے مقرر تھے، اسٹیج پر آتے ہی ان کی گھن گرج سے مجمعے میں جیسے بجلی کی لہر دوڑ جاتی۔ نعروں سے گویا آسمان بھی لرز جاتا لیکن مجال ہے کہ مقرر کی زبان پر کوئی ایک لفظ بھی معیار سے گرا ہوا آ جائے۔سچ تو یہ ہے کہ جناب حمزہ کا خطیبانہ جادو سر چڑھ کر بولتا، یہ اسی جادو کا کمال تھا جس سے مرعوب ہو کر ان سطور کے لکھنے والے نے قوم کا مقدر بدلنے والی سیاست کے رمز آشنا والد سے بڑی معصومیت کے ساتھ پوچھا،

’’ابا جی!اتنے کمال کے آدمی کا نام اتنا مختصر کیوں ہے؟جسم و جاں کے دکھوں میں مبتلا لوگوں کی نبض ٹٹول کر اللہ کی مدد سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں بھر دینے والے اس بزرگ نے اس دم سوال کرنے والے نونہال کی طرف دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا کہ شخص ہے ہی اتنا کھرا کہ اپنے نام کو بھاری بھرکم اور پر تاثیر بنانے کے لیے سابقوں لاحقوں کی اسے قطعا ضرورت نہیں۔بچپن کا ایک زمانہ ایسا بھی ہوتا ہے جب کسی بڑے سوال کا مختصر جواب مطمئن کر دیتا ہے۔

اگرچہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود سوال کے اندر سے سوالات برآمد نہیں ہوتے۔ ورنہ اس جواب میں سے بذات خود ایک سوال برآمد ہوتا ہے کہ یہ شخص اتنا سچا اور کھرا کیسے ہے؟ وہ سوال جسے بچپن میں اپنے والد سے کرنے ہوئی کوتاہی ہوئی تھی، اس کا ازالہ بہت بعد میں اس وقت ہوا جب پاکستانی سیاست کی تاریخ کے اس پہلو سے واقفیت ہوئی جس میں لکھنے والوں نے کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر لکھ دیا ہے وہ کون جگر والے تھے جو ایوب خان کی بے رحم آمریت کے زمانے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سرو قد کھڑے ہوئے اور جبر کے کسی ہتھ کنڈے کو خاطر میں نہ لائے۔

وہ بی ڈی سسٹم کے نام سے معروف ایوب خان خان کی نام نہاد بنیادی جمہوریت کے نظام میں حزب اختلاف کی طرف سے منتخب ہونے والے تین ممبروں میں سے ایک تھے جنھوں نے جبر اور لالچ کی ہر دیوار کو مسمار کر کے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ بابائے قوم کی یہ بہن بھی جوہر شناس تھیں، جناب حمزہ کی جرات، بے باکی اور شعلہ نوائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:’’اس حمزہ کو کوئی خرید نہیں سکتا‘‘۔یہ بھی جناب حمزہ کا اعزاز اور کارنامہ ہے کہ مادر ملت بہ مقابلہ آمر مطلق اس صدارتی انتخاب میں کراچی کے بعد ان کا حلقہ انتخاب گوجرہ وہ واحد مقام تھا جہاں سے ایوب خان کو شکست ہوئی اور مادر ملت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں۔

ایوب خان کی آمریت اس ملک پر بہت بھاری پڑی تھی کیوں کہ جناب حمزہ کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا اور جو کوئی بھی ذمے دار ہو، ایوب خان اس کا بنیادی ذمے دار ہے۔ اس سانحے کے بارے میں ان کی رائے کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ اس سانحے سے جن لوگوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، بھٹو صاحب ان میں نمایاں ترین ہیں۔بھٹو صاحب کا عہد حکومت بھی ماضی کی جابرانہ حکومتوں کی طرح حزب اختلاف کے لیے کوئی آسان نہ تھا، قید و بند اور انتقام اس زمانے میں سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتے تھے۔

یہی سبب تھا کہ سرحد کے خان عبد القیوم خان ہوں یا پنجاب کے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، یہ سب بڑے بڑے لوگ بھٹو صاحب کا  نعرہ  لگا کر حلقہ بگوش عوامی جمہوریت ہو چکے تھے۔ اس مشکل زمانے میں جناب حمزہ دو وجہ سے ممتاز ہوئے، اول، کسی سیاسی مستقبل کا ادنی سا امکان بھی نہ ہونے کے باوجود قائد جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی میں شامل رہنے کی وجہ سے اور دوم، جبر کے بدترین ہتھکنڈوں کے باوجود حزب اختلاف کی جرات مند ترین آواز بنے رہنے کی وجہ سے۔ بھٹو دور میں ان کی جمہوری جدو جہد سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔

وہ بھٹو صاحب کے لیے اس قدر ناقابل برداشت تھے کہ ان کے دور حکومت نے ایک بار جیالوں نے ان پر حملہ کر کے ان کا بازو توڑ دیا۔بھٹو صاحب کی سیاست کا ایک نقصان ہمیں یہ بھی ہوا کہ ان جابرانہ ہتھ کنڈوں کی وجہ سے بہت سے اصول پسند اور بہادر سیاست دانوں نے محض ان کے ردعمل میں جنرل ضیا کے مارشل لا کا ساتھ دیا، جناب حمزہ کا شمار بھی ایسے سیاست دانوں میں ہی کیا جاسکتا ہے جو ضیا کی مجلس شوری کا حصہ بنے لیکن اس مارشل لائی شوری میں بھی یہ شخص اس اعتبار سے نمایاں رہا کہ ہمیشہ غلط کو غلط کہا اور ایسی شوری جس میں حزب اختلاف کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔

اس میں حزب اختلاف کی آواز بنا۔ اس کے باوجود اگر ہم چاہیں تو جناب حمزہ کی سیاست کے اس دور کو ان کا کمزور دور قرار دیا جا سکتا ہے۔مارشل لا سے قبل وہ نواب زادہ صاحب کی جمہوری پارٹی کا حصہ تھے۔ یہ جماعت چوں کہ ایم  آر ڈی میں جا چکی تھی، اس لیے جنرل ضیا کے بعد اس جماعت میں ان کی واپسی کی گنجائش نہ تھی، لہٰذا وہ فطری طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے لیکن اپنے مزاج کے مطابق وہ اس حکمران جماعت میں رہتے ہوئے بھی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے رہے۔

ان کا یہ جمہوری رویہ اس وقت اپنے عروج پر دکھائی دیا، 1986 میں جب آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 295 سی کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس مرحلے پر جناب حمزہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اس ترمیم کو غیر جمہوری اور قومی استحکام کے لیے مہلک قرار دیا، اس مرحلے پر وہ ان چند دور اندیش لوگوں میں سے ایک تھے جن کا خیال تھا کہ بھرپور بحث کیے بغیر آئین میں ایسی ترمیم مسائل پیدا کرے گی اور بعد میں اس کاغلط استعمال روکا نہ جا سکے گا۔

جناب حمزہ بار بار پارلیمنٹ کا حصہ بنے، وزارت وغیرہ جیسے منصب پر وہ کبھی سرفراز نہ ہوئے، وزارتیں ان کے شایان شان بھی نہ تھیں۔ اسی لیے انھیں پبلک اکانٹس کمیٹی کی ذمے داری بار بار ملی اور انھوں نے یہ ذمے داری بہترین طریقے سے نبھائی۔ہماری پارلیمانی سیاست کے سب سے بڑے راز داں طاہر حنفی کہتے ہیں کہ ان کی زیر قیادت کام کرنے والی پبلک اکانٹس کمیٹیوں کا امتیاز ہی یہ ہے۔

ان کے کام اور معیار کا مقابلہ کرنے والا خال ہی کوئی ہو گا۔ ان کی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے ہمارے دوست مصطفی صفدر بیگ گواہی دیتے ہیں کہ اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران انھوں نے نہ کوئی لمبا چوڑا بینک بیلنس بنایا، پلاٹوں پر قبضے کیے اور پلازے کھڑے کیے، آٹے کی ایک معمولی چکی ان کا کاروبار تھے، اسی چکی سے انھوں نے ہمیشہ اپنا رزق کمایا اور صف اول کی سیاست کی،وہ بہت بڑے آدمی تھے، انھیں صدر مملکت منتخب کیا جاتا تو اس منصب کی عزت میں اضافہ ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔