عدالت کو عوام کے منتخب نمائندوں کی عزت کرنی چاہیے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  پير 27 ستمبر 2021
آصف زرداری کے خلاف نیب تحقیقات کر رہا ہے تو یہ عدالت کیس کیوں سنے؟ چیف جسٹس کا استفسار فوٹو: فائل

آصف زرداری کے خلاف نیب تحقیقات کر رہا ہے تو یہ عدالت کیس کیوں سنے؟ چیف جسٹس کا استفسار فوٹو: فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کو عوام کے منتخب نمائندوں کی عزت کرنی چاہیے۔ 

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آصف زرداری اور فواد چوہدری کی نااہلی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی، آصف زرداری کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کرنے والے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی خرم شیر زمان کے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے اپنا وکالت نامہ جمع کرایا جب کہ فواد چوہدری کے نااہلی کے درخواست گزار سمیع ابراہیم خود پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آصف زرداری کے فلیٹ سے متعلق کیس ابھی نیب کے پاس ہے، عدالت کو کیا ابھی یہ سننا چاہیے؟،  کیا سیکریٹری قومی اسمبلی کی رپورٹ آئی ہے ؟اس عدالت کو کسی بھی منتخب نمائندے کے خلاف کیوں کوئی درخواست سننی چاہیے ؟ ہم اگر نوٹس بھی کرتے ہیں الزام لگتا ہے یہ پولیٹیکل انجینرنگ ہے، عدالت کو اس قسم کے معاملے میں کیوں پڑنا چاہیے جو پارلیمنٹ کے سامنے بھی لائے جا سکتے ہیں، عدالت کو سیاسی نوعیت کے معاملات میں کیوں پڑنا چاہیے۔ تاریخی طور پر اب یہ طے ہو چکا ہے کہ اس قسم کے کیسز کے اثرات ہوتے ہیں، وزیراعظم پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے ان کے خلاف بھی درخواست آگئی تھی، ہم نے وہ درخواست نہیں سنی، اگر کسی پر الزام ہے تو اس کا فیصلہ اس کے حلقوں کے عوام کو کرنا ہے عدالتوں کو نہیں، جس پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں آج ہی وکیل مقرر ہوا ہوں اس کے میرٹ پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جب عوام سب جانتے ہوئے ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں تو عدالت کیوں مداخلت کرے ؟ خود احتسابی کا سب اداروں میں نظام موجود ہے ، پارلیمنٹ خود کیوں احتساب نہیں کرتی ؟ ہم نے اسپیکر اسمبلی کو کہا تھا کہ آپ اپنے احتساب کا میکنزم خود بنا لیں ، ہم نے ایک رکن قومی اسمبلی کو نااہل قرار دیا تھا ، اُس حلقے کے عوام کو خاطر خواہ وقت نمائندگی سے محروم رہنا پڑا، اس رکن اسمبلی کی اپیل بعد میں سپریم کورٹ سے منظور ہوگئی، جس پر درخواست گزار سمیع ابراہیم نے کہا کہ آرٹیکل 199 کے تحت عدالت یہ معاملات دیکھ سکتی ہے، سپریم کورٹ نے نواز شریف کے کیس میں ایسے کیس کا فیصلہ دیا ، جواب میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہماری پاور صوابدیدی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے خرم شیر زمان سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ کو پتہ ہے کہ صرف نوٹس کرنے سے ایک منتخب نمائندے کو کیا اثر پڑتا ہے ، آپ کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے آپ اس فورم پر اس کو دیکھ سکتے ہیں، ہم نے اسپیکر اسمبلی کو کہا تھا کہ آپ اپنے احتساب کا میکنزم خود بنا لیں ،ہمارے پاس زیر التوا کیسز پڑے ہوئے ہیں،یہاں پر کرمنل اپیلیں پڑی ہوئی ہیں ممکن نہیں ہے کہ اس طرح ان کو لیا جائے، جو لوگوں جیلوں میں ہیں وہ اہم ہے لوگوں کو بنیادی حقوق نہیں مل رہے ہمیں ان کو دیکھنا ہے۔عدالت نے عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق دلائل چار نومبر کو طلب سماعت ملتوی کر دی گئی۔

صوبہ سندھ یونیورسٹی آف کرپشن اور آصف زرداری وائس چانسلر

کیس کی سماعت کے بعد خرم شیر زمان نے کہا کہ دنیا میں اگر دو نمبر لوگوں کی ورلڈ الیون بنائی جائے تو یہ ساری ٹیم ملے گی اور کچھ (ن) لیگ والے بھی اس کا حصہ ہوں گے، جس نے ملک کا پیسہ لوٹا ہے ہم اس کے پیچھے جائیں گے۔ عدالت ہو نیب ہو یا کوئی بھی فورم ہم ہر فورم پر ان کا پیچھا کریں گے، ہمارا کیس جس کا نمبر بھی 420 ہے ایک مضبوط کیس ہے، ہم عدالت آئندہ تاریخ تک عدالت کے ساتھ نیب میں بھی جائیں گے۔

میں پوچھتا ہوں کہ ایک سینما والے کا لڑکا اتنی جائیدادکا مالک کیسے بنا، آصف علی زرداری نے یہ اربوں کی جائیداد ساری دنیا میں کیسے بنائی آصف علی زرداری کرپشن کے شہنشاہ ہیں ، صوبہ سندھ یونیورسٹی آف کرپشن ہے، آصف علی زرداری جس کے وائس چانسلر، بلاول اس کا ٹرسٹی جب کہ مراد علی شاہ اس کرپشن یونیورسٹی کے منیجر ہیں مین ہٹن کا اپارٹمنٹ اصف علی زرداری نے کہاں سے خریدا انہیں بتانا ہوگا، آصف علی زرداری بتاؤ کہاں سے آئے یہ جھمکے کس نے دیے یہ جھمکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔