شدت پسند بھارت اور نیا افغانستان

محمد عمران چوہدری  منگل 28 ستمبر 2021
بھارت افغانستان میں اپنے قدم دوبارہ جمانے کے لیے پھر سے فعال ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

بھارت افغانستان میں اپنے قدم دوبارہ جمانے کے لیے پھر سے فعال ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فتح افغانستان کا جشن ختم ہوچکا ہے لیکن فتح کو برقرار رکھنے کی ذمے داریوں کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ اگر ہم نے من حیث القوم اپنی ذمے داریاں ادا نہ کیں تو یقینی طور پر انڈیا پھر چھا جائے گا، کیونکہ ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ بری طرح پٹائی کے بعد بھی مسلسل جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 1965 کی جنگ میں ہماری بہادر افواج کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد بھارت نے ہمت نہ ہاری اور 1971 کی جنگ میں ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

بھارت نے دوسرے موقع پر اپنی شکست کو جیت میں اس وقت تبدیل کیا جب دو دہائی قبل سری لنکا میں دہشت گردی عروج پر تھی، جس کے دوران بھارت وکٹ کے دونوں اطراف کھیل رہا تھا اور دہشت گردوں کو ہر طرح کی مدد دیتے ہوئے سری لنکا کے صوبے جافنا کو علیحدہ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ ایسے میں پاکستان پوری دنیا میں واحد ملک تھا جو سری لنکا کی مدد کو آیا۔ پاکستان نے سری لنکا کی ہر طرح سے غیر مشروط مدد کرتے ہوئے اسلحے کے ڈپو یہ کہتے ہوئے کھول دیے کہ ہم دوستوں کے ساتھ حساب نہیں کرتے۔ ہماری عسکری قیادت کے دانشمندانہ اقدامات کی بدولت سری لنکا دولخت ہونے بچ گیا۔

سری لنکن آج بھی پاکستان کے ممنون ہیں، وہ کھلے دل سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر پاکستان اس مشکل کی گھڑی میں مدد کو نہ آتا تو سری لنکا ’’جافنا‘‘ سے محروم ہوجاتا۔ مگر اس کے بعد بھارت نے دھیرے دھیرے سری لنکا میں اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ وہی علاقے جہاں بھارت پہلے اسلحہ بھیجا کرتا تھا، بھارت نے ان ہی علاقوں میں تعمیر و مرمت کے کام کا آغاز کردیا۔ لنکن حکومت کو مالی مدد، سیاسی جماعتوں میں سرمایہ کاری، لنکن بیوروکریٹس کی تعلیم و تربیت، بغیر ویزہ کے آمد و جامد، خوراک کی فراہمی اور دیگر ذمے داریوں کا بوجھ اٹھا کر لنکن حکومت کو اپنا محتاج بنا لیا گیا۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ ان کے دل پاکستان اور جسم بھارت کے ساتھ، اسی بھارت کے ساتھ جس نے انہیں دولخت کرنے کی کوشش کی تھی۔

اگر ہم نے اپنی جیت کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کی تو ایسا ہی کچھ افغانستان میں بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ طالبان حکمت اور بصیرت کے ساتھ دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ آج سے 20 سال قبل کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور اپنے ملک کے وسیع تر مفاد میں ہر ایک کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے۔ اس کا واضح ثبوت افغان حکام کی بھارتی سفیر سے ملاقات، حدود و قیود کے ساتھ مخلوط تعلیم کی اجازت، افغان خواتین فٹبال ٹیم کی پاکستان آمد جیسے اقدامات ہیں۔ اگر موجودہ افغان قیادت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی طرح آگے بڑھتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب آج کا شکست خوردہ بھارت دوبارہ افغانستان میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوجائے گا اور ہمارے حصے میں صرف جیت کا جشن ہی آئے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دھرتی کی خاطر ایک ہوجائیں۔ آج کا پاکستان عسکری لحاظ سے ناقابل تسخیر ہے لیکن معاشی میدان میں ہمارا کشکول ہماری تحقیر کا باعث ہے۔ اگر ہم بھارت کی برابری کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معاشی لحاظ سے خود کو منوانا ہوگا۔ ہمیں لینے والے ہاتھ کے بجائے دینے والا ہاتھ بننا ہوگا۔ اگر ہم کرپشن کو کنٹرول نہیں کرسکتے تو ملکی آمدن کو اس قدر بڑھا لیں کہ وہ ہماری کرپشن کا بوجھ اٹھا سکے (جیسے بھارت میں ہورہا ہے)۔ دھرتی ماں ہوتی ہے یہ بات تو ہم سب تسلیم کرتے ہیں اور ماں سے سہولتیں لینے کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن دھرتی کے بیٹے کا کردار ادا کرنے کی توقع ہم صرف اپنے سیکیورٹی اداروں سے رکھتے ہیں۔

اس ملک کو معاشی لحاظ سے مضبوط کرنے کےلیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ملک کو ناقابل شکست بنانا ہوگا۔ بصورت دیگر ہماری ہر کامیابی عارضی ہوگی۔ آئیے ہم سب عزم کریں پاکستان کی خاطر پاکستان کےلیے کام کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔