فرسٹ لیول سپروائزرنہ بنانے اور الاؤنسز کی عدم ادائیگی پر لیڈی ہیلتھ وركرز کی ہڑتال

ویب ڈیسک  منگل 28 ستمبر 2021
پولیو مہم کے علاوہ کسی بھی اضافی ڈیوٹی سرانجام دینے پر کوئی الاؤنس نہیں دیا جاتا، صدرلیڈی ہیلتھ وركرز ایسوسی ایشن۔(فوٹو: فائل)

پولیو مہم کے علاوہ کسی بھی اضافی ڈیوٹی سرانجام دینے پر کوئی الاؤنس نہیں دیا جاتا، صدرلیڈی ہیلتھ وركرز ایسوسی ایشن۔(فوٹو: فائل)

 پشاور:  فرسٹ لیول سپروائزر نہ بنانے اور الاؤنسز کی عدم ادائیگی پر صوبے بھر میں لیڈی ہیلتھ وركرز نے ہڑتال کرتے ہوئےكورونا ویكسی نیشن سمیت پولیو اورڈینگی سرویلنس ڈیوٹیوں كا مكمل بائیكاٹ كردیا ہے ،تاہم لیڈی ہیلتھ وركرز پروگرام كا كام جاری ركھا جائے گا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اس وقت پشاور میں 1600 كے لگ بھگ لیڈی ہیلتھ وركرز ہیں جو اپنے فرائض کے علاوہ محکمہ صحت کے دوسرے منصوبوں می بھی حصہ لے رہی ہیں۔

ذرائع كا كہنا ہےكہ صوبے میں ای پی آئی پروگرام كے تحت 15 نومبر سے میگا انسداد خسرہ مہم كا آغاز كیا جارہا ہے، جس كے لیے محكمہ صحت نے اعلان كیا تھا كہ اس مہم میں فرسٹ لیول سپروائزرز ایل ایچ ایس (لیڈی ہیلتھ سپروائزر) كو بنایا جائے گا۔ بعد ازاں اس اعلان كومحكمے نے خاموشی سے واپس لتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ چونكہ بعض لیڈی ہیلتھ سپروائزرمڈل اور میٹرک پاس  ہیں، جس وجہ سے انہیں فرسٹ لیول سپروائزر نہیں بنایا جاسكتا۔ لیڈی ہیلتھ وركرز محکمہ صحت کے اس موقف پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے نا انصافی قرار دیا ہے۔

اس حوالے سے لیڈی ہیلتھ وركرز ایسوسی ایشن كی صدر عائشہ كا كہنا ہے کہ لیڈی ہیلتھ وركرز پروگرام كے قواعد وضوابط كے مطابق جو بھی ایل ایچ ڈبلیوز كی ڈیوٹی بنتی ہے وہ اس كو باقاعدہ كررہی ہیں، لیکن اب ان سے مختلف منصوبوں میں اضافی ڈیوٹیاں بھی لی جارہی ہیں، جن میں كورونا ویكسی نیشن، كورونا ٹیسٹ کے لیے سیمپلنگ، بچوں كو پولیو کے قطرے پلانا، ڈینگی سرویلنس، صحت كے حوالے سے آگاہی اور دیگر امور شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیو مہم کے علاوہ کسی بھی ڈیوٹی میں کسی بھی قسم کا الاؤنس نہیں دیا جاتا۔ ان كا كہنا تھا كہ اسی طرح پی او ایل كی مد میں جنوری 2021 سے كوئی ادائیگی نہیں كی گئی ہے، جب كہ دوسری جانب ان سے مكمل ڈیوٹی لی جاتی ہے۔

ایسوسی ایشن کی صدر عائشہ كے مطابق ان سخت ڈیوٹیوں كے باوجود اب یہ كہا جارہا ہے كہ ای پی آئی پروگرام كے تحت یہ  ماتحت ہیں تو انہیں فرسٹ لیول سپروائزر كیسے بنایا جا سكتا ہے؟ جوكہ ہماری سپروائزرز کے ساتھ سرا سر زیادتی ہے۔

بعض لیڈی ہیلتھ وركرز كا یہ بھی كہنا تھا كہ صوبے میں لیڈی ہیلتھ وركرز كی 2012 میں ریگولرائزیشن ہوئی تھی، لیکن ان کا سروس اسٹرکچر تاحال نہیں بنا یا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے كہ 2015 میں سركاری ملازمین كی اپ گریڈیشن میں لیڈی ہیلتھ وركرز اس اپ گریڈیشن سے محروم رہنے پر مجبور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔