اسٹیون کُچر، کیڑے مکوڑوں کو ’ اداکار‘ بنانے والا فن کار

ندیم سبحان  اتوار 2 فروری 2014
کیڑے مکوڑے اسٹیون کے اشارے پر کیسے ناچنے لگتے ہیں؟ اس بارے میں وہ کچھ زیادہ بتانے سے انکار کرتا ہے کیوں کہ یہ اُس کا ’بزنس سیکرٹ‘ ہے۔   فوٹو : فائل

کیڑے مکوڑے اسٹیون کے اشارے پر کیسے ناچنے لگتے ہیں؟ اس بارے میں وہ کچھ زیادہ بتانے سے انکار کرتا ہے کیوں کہ یہ اُس کا ’بزنس سیکرٹ‘ ہے۔ فوٹو : فائل

 ہالی وڈ کی فلموں میں آپ نے کیڑوں کو بھی ’ پرفارم‘ کرتے ہوئے دیکھا ہوگا؟ مثلاً ’’اسپائیڈر مین‘‘ میں اُس مکڑی کو جو فلم کے مرکزی کردار پیٹر (ٹوبی میگوائر) کے ہاتھ پرکاٹتی ہے۔ اسی طرح آپ نے We Bought a Zoo میں وہ منظر بھی دیکھا ہوگا جب شہد کی مکھیاں فلم کے ہیرو میٹ ڈیمن کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہیں۔ ایسی متعدد فلمیں ہیں جن میں مختلف حشرات کو ’ اداکاری‘ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

کبھی آپ نے غور کیا یہ کیڑے ’ اداکاری‘ کیسے کرلیتے ہیں؟ انھیں کیسے علم ہوتا ہے کہ وہ ایک فلم کے سین کا حصہ ہیں اور کہانی کے پلاٹ کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ درجنوں فلموں میں کیڑے مکوڑوں کی ’ اداکاری‘ کے پس پردہ اس شخص کی محنت ہے جو فلمی حلقوں میں اسٹیون کُچر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 69 سالہ اسٹیون ماہر حشریات (entomologist) ہے جو ہالی وڈ میں 1976ء سے سرگرم عمل ہے۔ اب تک سو سے زائد فلموں، ان گنت اشتہارات، میوزک ویڈیوز اور ٹیلی ویژن موویز میں اس کے ’ شاگرد‘ شان دار پرفارمینس کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اسٹیون ماہر حشریات کے ساتھ ساتھ خود کو ایک فن کار بھی سمجھتا ہے جسے اپنے کام پر فخر ہے۔

کیڑے مکوڑے اسٹیون کو بچپن ہی سے پسند تھے۔ چناں چہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علم الحشرات ہی اس کا انتخاب ٹھہرا۔ اس نے اسی موضوع پر کیلی فورنیا یونی ورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ایک روز اسٹیون کے پروفیسر کو فلم Exorcist II کے ڈائریکٹر کی فون کال موصول ہوئی جسے ایک ایسے ماہرحشرات کی تلاش تھی جو ٹڈیوں پر ایک سین فلمانے میں مدد دے سکے۔ پروفیسر نے کُچر کا نام تجویز کردیا، اور یوں اس کی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا ہوگئی۔

اسٹیون کو یہ کام بہت پسند آیا۔ اُس زمانے میں ہر تیسری فلم میں کیڑے مکوڑوں کے مناظر بھی شامل ہوتے تھے اس لیے اسٹیون کے پاس کام کی کوئی کمی نہیں تھی۔ تاہم اسے شہرت 1990ء میں فلم Arachnophobia  سے ملی۔ امیزون کے جنگلات میں پائی جانے والی مکڑیوں کو اس فلم میں کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ اس فلم کے لیے اسٹیون نے پانچ سو مکڑیوں میں سے تین کا انتخاب کیا تھا۔ ان میں سے جنوبی یورپ میں پائی جانے والی بڑی جسامت کی مکڑیوں (tarantula) نے ملکہ اور بادشاہ کا ’ رول ‘ کیا تھا۔

کیڑے مکوڑے اسٹیون کے اشارے پر کیسے ناچنے لگتے ہیں؟ اس بارے میں وہ کچھ زیادہ بتانے سے انکار کرتا ہے کیوں کہ یہ اُس کا ’بزنس سیکرٹ‘ ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ حشرات سے ’اداکاری‘ کروانا کچھ زیادہ مشکل نہیں بس اس کے لیے ان کے عام رویے میں روشنی، حرارت، ہوا اور مختلف اسٹرکچرز کے استعمال سے تبدیلی لائی جاتی ہے۔

اگر ایک مچھر کو مجسمے کی طرح ساکت کھڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو کُچر پہلے اسے ایک کُولر کے اندر رکھ دیتا ہے۔ بڑی جسامت کی مکڑی کو مجسمہ بنانے کے لیے وہ اس کی آنکھیں ڈھک دیتا ہے۔ اگر سین میں کسی مکھی کو اپنا سَر صاف کرتے ہوئے دکھانا مقصود ہوتا ہے تو وہ شہد اُس کے سر پر لگادیتا ہے۔ میٹ ڈیمن کو خوف ناک ڈنک سے بچانے کے لیے اس نے کم عمر شہد کی مکھیوں سے کام لیا تھا جن کے ڈنک نہیں ہوتے۔

Arachnophobia کے ایک سین کو اسٹیون اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا سب سے قابل فخر لمحہ قرار دیتا ہے جہاں اس کا فن بلندیوں پر نظر آیا۔ یہ وہ سین تھا جس میں مکڑی ایک سیدھ میں چلتی ہے اور اداکار جان گُڈمین اس پر سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سین کے لیے اسٹیون نے انسانی بال سے بھی باریک دو تار تیار کیے تھے جنھیں مکڑی کی راہ گزر کے دونوں جانب لگایا گیا تھا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس نے دو ننھی ننھی برقی موٹروں سے بھی کام لیا تھا کہ مکڑی اپنے راستے سے انحراف نہ کرے۔ اسٹیون کا کہنا ہے کہ اس سین کے لیے اس نے سائنس اور آرٹ کو ہم آہنگ کردیا تھا۔ فلم بیں یہ سین دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔

اسٹیون کُچر کے گھر میں مختلف حشرات کا نظر آنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس کے پاس 15 بڑی جسامت کی مکڑیاں ہیں۔ جاروں میں بھری ہوئی دو لاکھ مردہ مکھیاں ہیں جنھیں گندے باورچی خانے کے مناظر میں استعمال کیا جاتاہے۔ کاکروچوں سے بھرے ہوئے تین پنجرے اور ان کے علاوہ بھی بے شمار مُردہ اور زندہ کیڑے ہیں۔ اسٹیون کُچر تنہا رہتا ہے۔ اسٹیون کے شوق اور پیشے کی وجہ سے بیوی اسے چھوڑ گئی تھی۔ تاہم اسٹیون کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا کبھی افسوس نہیں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔