خوشبوؤں کے سفیر

رئیس فاطمہ  اتوار 2 فروری 2014

خوشبوئیں بھی اپنا اثر رکھتی ہیں، مختلف طبیعتوں پر مختلف خوشبوؤں کا اثر ہوتا ہے۔ بعض لوگ موگرہ، موتیا، گلاب، چنبیلی، ہارسنگھار، رات کی رانی، گیندہ، تلسی اور جوہی کی مہک پسند کرتے ہیں لیکن بعض خاص لوگوں کو بارود کی بو بہت اچھی لگتی ہے۔ خوشبوؤں میں ایک عجب خاصیت ہوتی ہے کہ یہ اپنی لطافت سے آپ کو اس بھولی بسری دنیا میں پہنچا دیتی ہیں، جو آپ کے ماضی کا خوبصورت اور ناقابل فراموش حصہ ہوتی ہیں۔ مثلاً موگرہ، چنبیلی اور ہار سنگھار کی مہک ہمیشہ مجھے اپنی والدہ کی یاد دلا دیتی ہے۔ صبح صبح ان کا پھول اکٹھا کرنا اور ان سے گجرے اور بالیاں بنانا، موتیا کے گجروں کو مٹی کی صراحی اور مٹکوں کے اردگرد لگانا اور ہار سنگھار کے ننھے ننھے تاروں کی طرح کے زردی مائل نارنجی ڈنڈی کے پھولوں کو تار میں پرو کر بالیاں بنانا، خود بھی پہننا اور بھابی کو بھی پہنانا۔

اسی طرح گلاب، رات کی رانی اور تلسی کی مہک والد مرحوم کی طرف لے جاتی ہے۔ موسیقی اور ادب کے علاوہ باغبانی بھی ان کا بہت بڑا شوق تھا، وسیع و عریض لان میں وہ خود گلابوں کی مختلف قسمیں لگاتے تھے۔ گلاب اور کروٹن کی بے شمار اقسام انھوں نے اپنے سرکاری دوروں کے دوران جمع کی تھیں، لوگ حیران ہوتے تھے کہ عجیب افسر ہے جو صرف پھولوں کا شیدائی ہے۔ گلاب کی طرح کروٹن بھی بہت نازک ہوتا ہے۔ جس میں کیڑا اور فنگس جلد لگ جاتا ہے۔ ان کی دیکھ بھال وہ اپنے بچوں کی طرح کرتے تھے۔ پتے والا تمباکو چوبیس گھنٹے پانی میں بھگو کر رکھنے کے بعد۔ انھیں شاور کے ذریعے پھولوں اور پتوں پہ ڈالتے تھے، ساتھ ساتھ انگلی میں کپڑا لپیٹ کر کروٹن پہ لگا فنگس بھی صاف کرتے جاتے تھے۔ مالی ان کی مدد کرتا ضرور تھا، لیکن بعض اوقات ان کی پھولوں سے بے پناہ وابستگی پہ حیران بھی ہوتا تھا۔ کرسمس کے موقعے پر سرو کا درخت جو سیدھا اور مخروطی ہوتا ہے اس کی ٹہنیاں کرسچین فیملیز ہمارے ہی گھر سے لے جاتی تھیں۔ بعض اوقات 24 دسمبر تک درخت بالکل ٹنڈ منڈ ہو جاتا تھا، دادی اور والدہ جب اس کا نوٹس لیتیں، تو والد مسکرا کر کہتے۔۔۔۔ ’’محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے۔۔۔۔ چند دن بعد پھر یہ درخت نئی کونپلوں اور شاخوں سے بھر جائے گا‘‘۔

پھولوں کی روح پرور مہک کے علاوہ ایک خوشبو اور بھی ہوتی ہے، جس کے متوالے بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ اس خوشبو کو پسند کرنے والے چند سر پھرے ہی ہوتے ہیں۔ پچاس سال پہلے ان کی تعداد 90 فیصد تک تھی، پھر 80 کی دہائی تک آتے آتے یہ تعداد 40 فیصد تک رہ گئی۔۔۔۔ اور آج یہ حال ہے کہ اس خوشبو کے دیوانے خال خال ہی نظر آتے ہیں، یہ عجب دیوانگی ہے۔ جس میں مبتلا ہونے والوں کی گھٹتی تعداد اہل علم و دانش کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ دیوانے وہ فرزانے ہیں جو ارسطو، سقراط اور افلاطون کے قبیلے سے ہیں۔ یعنی کتابوں کی خوشبوؤں کے اسیر، کتاب جتنی پرانی اس کی مہک اور اہمیت اتنی ہی زیادہ، یہ وہ لوگ ہیں جو کتب خانوں، فٹ پاتھوں پہ لگے کتب بازاروں، اور جہاں جہاں اچھی کتاب ملنے کی امید ہو یہ وہاں پائے جاتے ہیں۔ زمین پہ بیٹھ کر نادر اور بوسیدہ کتابوں کو اپنے رومال سے صاف کر کے اسے سینے سے لگانے والوں کا شمار ان میں ہوتا ہے، علم جس کی میراث ہے۔ آج کا عام نوجوان زیادہ تر نئے ماڈل کی کار، موبائل فون، برگر، پیزا اور ’’مشروبات‘‘ کی بات کر کے اپنی اہمیت ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ وہاں راشد اشرف جیسے ذہین لوگ ادب کی آبرو ہیں، خدا انھیں سلامت رکھے۔ پچھلے دنوں ایک اور ایسے ہی دیوانے سے تعارف ہوا، جس کی معلومات نے ہمیں حیرت زدہ کر دیا۔ ماشاء اللہ کیا ذہن پایا ہے، سرکاری ملازم ہیں لیکن کتابوں کے عشق میں ڈوبے ہوئے، ان کی اپنی ذاتی لائبریری بھی ہے، جسے دیکھنے کا ابھی تک اتفاق نہیں ہوا، البتہ ان کے توسط سے کئی کتابوں تک رسائی ضرور ہو گئی۔ یہ ہیں امین قریشی صاحب، جنھوں نے مجھے ’’خفتگان کراچی‘‘ فراہم کی جو پروفیسر محمد اسلم کی تصنیف ہے اور میں نے اسی سے عطیہ فیضی اور فیضی رحمین کی تاریخ وفات اور قبرستان کی تصدیق کی۔

لاہور میں جن صاحب علم لوگوں نے اب تک کتابوں کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ ان میں میری واقفیت جناب انتظار حسین، جناب عطا الحق قاسمی، جناب اصغر ندیم سید، جناب احمد عقیل روبی اور محترمہ تسنیم کوثر تک محدود ہے۔ کبھی جب ڈاکٹر وحید قریشی حیات تھے تو بستر پہ لیٹے لیٹے ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ علم و ادب کا خزانہ ہوتے تھے۔ اسلام آباد میں بھی ایک دیوانہ پایا جاتا ہے، جسے کتابوں کی خوشبو صرف اچھی ہی نہیں لگتی بلکہ وہ ان کے جنون میں مبتلا ہے۔ کتابوں سے عشق کرنے والے اس فرزانے کا نام ہے مظہر الاسلام۔ نہ صرف افسانہ نگار، ناول نگار، بلکہ بہترین مصور بھی ہیں، جن کا ذوق جمال کمال کا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی ہوا کرتے تھے۔ نئی حکومت آنے کے بعد اپنے عہدے سے خود ہی استعفیٰ دے دیا کہ یہی مناسب تھا۔ اپنے دور ملازمت میں لوگوں کو کتابوں سے روشناس کرانے اور کتاب کلچر کو آگے بڑھانے کے لیے ادبی کانفرنسیں کروائیں، کتابوں سے محبت کرنے والوں کو ’’کتاب کا سفیر‘‘ بنایا۔ کراچی ایئرپورٹ پہ ’’بک کلب‘‘ کا افتتاح کیا۔ جو آج بھی وہاں موجود ہے۔ فلائٹ کے انتظار میں بیٹھے مہذب لوگ وہاں بیٹھ کر اپنی من پسند کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ مظہر صاحب نے ریلوے اسٹیشنوں، جیلوں، گاؤں گوٹھوں اور چھوٹے چھوٹے محلوں میں گشتی لائبریریوں کو فروغ دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ایک شخص نے اکیلے کئی اداروں کا کام کیا، اپنی ذاتی کوشش سے مختلف موضوعات پہ کتابیں لکھوائیں اور چھپوائیں۔ خاص کر پاکستان کے اہم بڑے شہروں کے متعلق معلوماتی کتب کا سلسلہ ان کی بہترین کاوش کہی جا سکتی ہے۔ جو ان کے جانے کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کتابوں سے محبت کرنے والی ایک اور شخصیت سے بھی رابطہ ہوا، یہ ہیں جناب حامد سراج صاحب جن کے توسط سے الٰہ آباد کا سہ ماہی ’’پہچان‘‘ اور پٹنہ کا ’’آمد‘‘ موصول ہوا۔ حامد سراج صاحب افسانہ نگار بھی ہیں ان کے افسانوں کا مجموعہ بھی پچھلے دنوں موصول ہوا، لیکن ابھی مصروفیت کی بنا پر جستہ جستہ ہی پڑھ پائی ہوں، اس مجموعے کے انتساب نے مجھے بہت متاثر کیا، آپ بھی پڑھیے۔۔۔۔ ’’لخت جگر۔۔۔۔ اسامہ احمد کے نام۔۔۔۔ جس نے اپنا وجود کاٹ کر گردہ مجھے عطیہ کیا ۔۔۔۔ یوں۔۔۔۔ بوڑھے درخت کو حیات نو عطا کر دی ۔۔۔۔ اور پھر سے ۔۔۔۔ شفقت کو سائبان کیا‘‘۔۔۔۔۔ یہ مجموعہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے شایع کیا ہے۔

آخر میں ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ کتابوں کے عشق میں مبتلا جن لوگوں کے نام میں نے گنوائے ہیں۔ سلسلہ یہیں نہیں رک جاتا۔۔۔۔ اور بھی دیوانے اس راہ پہ چلنے والے ہیں۔ لیکن میں نے صرف انھیں یاد رکھا ہے جن کا جنون اور عشق میری نظروں کے سامنے ہے۔ کبھی کبھی میں حیران بھی ہوتی ہوں کہ اللہ نے انھیں کیسے مخصوص حافظے دیے ہیں۔ جن میں صرف کتابوں کے عشق کی خوشبوؤں نے بسیرا کر رکھا ہے۔ کاش عشق کی یہ خوشبو پھیلتی رہے اور ایک دن بارود اور خون کی بو پہ فتح پالے۔۔۔۔!!۔۔۔۔آمین۔ کتابوں سے پیار کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں یقین نہ آئے تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔