دیدہ دلیری

موسیٰ رضا آفندی  اتوار 2 فروری 2014
moosaafendi@gmail.com

[email protected]

آج کل ہمارے ملک میں وہ کام بھی ہو رہے ہیں جن کا کچھ عرصہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ بات ان باتوں کے سوا ہے جو میں کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ پہلے بم دھماکے نہیں ہوتے تھے لیکن اب ہو رہے ہیں پہلے خودکش حملے نہیں ہوتے تھے لیکن اب ہورہے ہیں۔ پہلے مہنگائی اس حد تک ناقابل برداشت کبھی نہیں ہوئی تھی جس قدر اب ہوگئی ہے پہلے لوگ غربت اور بھوک کے باعث اپنے بچوں کو خود نہیں ماردیتے تھے جس طرح اب بے بس مائیں اپنے ہی لخت جگروں کو دریا برد کر دیتی ہیں اور خود بھی ساتھ ہی ڈوب جاتی ہیں پہلے صرف بکرے اور دنبے ذبح ہوا کرتے تھے لیکن اب انسان بھی ذبح کیے جاتے ہیں۔ اس طرح اور بھی بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو پہلے نہیں ہوا کرتی تھیں۔

میں ایک سرکاری ملازم رہا ہوں حال ہی میں، میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا ہوں ۔ میں نے اپنی سرکاری ملازمت کے دوران بے شمار ایسے واقعات کو ہوتے دیکھا ہے جس سے آدمی کے دونوں یعنی مثبت اور منفی پہلوؤں کی انتہائیں واضح ہوتی ہیں ۔ ہر معاشرے اور ہر طبقے کی طرح سرکاری ملازمت کے اندر بھی اچھے اور برے دونوں قسم کے افراد پائے جاتے ہیں اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ۔ کرپشن ہمارے ملک کی پہچان بن چکی ہے اور کرپشن کی طرح طرح کی مثالوں سے ہمارے سرکاری اور غیرسرکاری ادارے بھرے پڑے ہیں۔

ہمارے ملک کے نیم سرکاری اداروں کا زوال اور پھر ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ بن جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ اس وجہ سے ہمارے ادارے اور بڑی بڑی کارپوریشنیں تباہ وبرباد ہوکر اس حال پر پہنچ چکی ہیں کہ اب موجودہ حکومت ان کی نج کاری کرنے پر تل گئی ہے۔

یہ کرپشن ہی ہے جس کے تحت کوڑیوں کے مول خریدی گئی زمینوں کو ہزاروں گنا زائد قیمت پر تھوڑے سے ترقیاتی اخراجات کرکے سادہ لوح اور غریب لوگوں کو نہ صرف لوٹا گیا ہے بلکہ اب بھی لوٹا جارہا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ ترقیاتی اخراجات بھی اپنے پلے سے نہیں بلکہ ان ہی سادہ لوح لوگوں سے پیشگی ہتھیائی گئی رقم سے ہی کیے جاتے ہیں۔

ہم اس حد تک گرچکے ہیں کہ اب انسان کی اہمیت صرف اور صرف اس کے بینک بیلنس اور اس کے زیر استعمال چیزوں مثلاً گھر گاڑی فرنیچر کپڑے اور اسی نوعیت کی منقولہ اور غیرمنقولہ اشیا سے لگائی جاتی ہے۔ یہ ہماری زندگیوں کا ہی تجربہ ہے کہ رشتے ناطے طے کرتے وقت خاندانی شرافت پیشے کا چناؤ اور گفتار وکردار معیار گردانے جاتے تھے جب کہ اب ایسا نہیں ہے کیونکہ اب سکہ رائج الوقت ہی ہر بات کا معیار بن چکا ہے چونکہ اب چیز اور بات کا معیار صرف پیسہ ہی بن چکا ہے۔ لہذا ہر شخص کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح رقم ہاتھ آئے اس پس منظر میں جب میں نے مندرجہ خبر پڑھی تو مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا کہ کرپشن کا یہ واقعہ اس لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے کہ چھوٹے اور نچلی سطح پر انتہائی کرپشن کے باوجود اتنی دیدہ دلیری پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

خبر کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ وزارت صنعت وپیداوار کے ایک سیکشن آفیسر نے وزارت کو آگاہ کیے بغیر مبینہ جعل سازی کے ذریعے موٹروے پولیس سے دو سرکاری گاڑیاں خرید لیں۔ خرید ی گئی گاڑیوں کے لیے مذکورہ افسرکی جانب سے ساڑھے تین لاکھ روپے کی ادائیگی بھی کردی گئی۔ اگرچہ ان گاڑیوں کی خریداری کے لیے خط وکتابت سرکاری طور پر ہوئی ہے تاہم اس خط وکتابت کے بارے میں وزارت صنعت وپیداوار کو علم ہے نہ ہی پتا۔

اس حوالے سے جب وزارت صنعت وپیداوار کے ترجمان و سینئر جائنٹ سیکریٹری ارشد فاروق فہیم سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ کام غلط ہوا ہے اور مذکورہ دونوں گاڑیاں واپس کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ گاڑیاں واپس کرنے کے بعد وزارت کے سیکشن آفیسر کے خلاف انکوائری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

اب آپ خود ہی بتائیں کہ اس دیدہ دلیری پر مذکورہ سیکشن آفیسر اور جس نظام کے تحت وہ کام کررہا ہے اس کے بارے میں کیا کہا جائے۔ اس قدر واضح جعلسازی اور دھاندلی کے باوجود وزارت صنعت کے ترجمان کے مطابق ابھی فیصلہ کرنا باقی ہے کہ انکوائری کی جائے یا نہیں۔ مذکورہ افسر کی دیدہ دلیری اپنی جگہ جو اس بدنصیب قوم کے زوال پر بذات خود ایک ناقابل تردید دلیل ہے لیکن فیصلہ کرنے کی سکت کا فقدان اس سے بڑی بدقسمتی اور بدنصیبی ہوگی جو نہ صرف اس مذکورہ سیکشن افسر کو یگ گونہ سکون اور اطمینان عطا کرے گی بلکہ دوسری طرف دیگر افسران کے لیے بھی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی جن کے اندر اس قسم کی پرواز کے سارے لوازمات موجود ہیں لیکن ابھی حوصلے اتنے بلند نہیں ہوئے کہ اڑنا شروع کریں۔

جرائم کے ساتھ سزاؤں کا اور گناہوں کے ساتھ عذابوں کا تصور اس لیے دیا گیا کہ جونہی جرم یا گناہ سرزد ہو اسے سزا یا عذاب کے ذریعے فوراً دبا دیا جائے جن گناہوں کی سزا سے لوگ اس فانی دنیا میں بچ جائیں انھیں آخرت میں خدا کے عذاب سے ڈرایا جائے تاکہ نہ جرم زور پکڑے اور نہ ہی گناہ۔ ہمارے ہاں جرائم اسی لیے مسلسل ہوتے جارہے ہیں اور اس تسلسل نے اب اس قدر زور پکڑ لیا ہے کہ لگتا ہے سارے کا سارا معاشرہ مجرموں کا معاشرہ اور جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے پوری قوم مسجدوں کی بے شمار تعداد اور نمازیوں کے انگنت ہجوم کے باوجود گناہوں سے لدی ہو ئی قوم بن چکی ہے کیونکہ ہم نماز پڑھ کے کم تولتے ہیں روزہ رکھ کر رشوت لیتے ہیں اور قبروں میں مردے اُتارتے وقت بھی کسی نا کسی کے حق مارنے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں اور یہی وہ پس منظر ہے جو سیکشن افیسر جیسے ’’ دیدہ ور‘‘ پیدا کرتے ہیں جن کے طفیل ان کے بچے اپنے والد گرامی کے استقلال اور ثابت قدمی پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے اور ان کے یہی لچھن ہم جیسی قوموں کے نشان بنتے چلے جائیں گے۔ غالباً اسی لیے اقبال نے کہا تھا۔

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔