حافظے کا ڈراما

شایان تمثیل  اتوار 2 فروری 2014

رئیس امروہوی کی کتاب ’’توجہات‘‘ سے محمد شریف لائلپور کے خط کا اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ پنجاب کی عورتوں میں جادو، ٹونے، آسیب اور جنات کا رجحان بہت ہوتا ہے۔ پیر صاحبان اس رجحان کو ترقی دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ تعویزوں اور دم کیے ہوئے پانی کی شیشیوں کے ذریعے کافی رقم بٹورتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ عامل صاحب مریض یا مریضہ کو اندھیرے کمرے میں لے جاتے ہیں، وہاں ایک دِیا (چراغ) روشن ہوتا ہے، چراغ کے سامنے ایک کاغذ کھڑا کردیا جاتا ہے، اس سفید کاغذ کے سامنے سحر زدہ یا معمول کو بٹھا دیا جاتا ہے، یوں سمجھیے کہ مریض کے سامنے سفید کاغذ اور سفید کاغذ کی اوٹ میں چراغ۔ بعد ازاں عامل زیر لب کچھ پڑھنا شروع کرتا ہے اور مریضہ کو سفید کاغذ پر درخت، مکانات اور کسی مرد یا عورت کی تصویر نظر آنے لگتی ہے۔ یہ تصویریں یا عکس سحر زدہ (جس پر جادو کرا دینے کا شبہ ہو) کے علاوہ دوسرے اشخاص کو بھی نظر آتا ہے۔ یہ طے ہے کہ سفید کاغذ پر اسی مرد یا عورت کی شبیہہ نمایاں ہوگی جس کے متعلق گمان یہ ہوگا کہ اس نے جادو کرادیا ہے۔ اب عامل صاحب کا کام بن گیا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ سحر زدہ شخص اور اس کے عزیزوں کو باور کرا دیتا ہے کہ تم پر فلاں شخص نے جادو کرادیا ہے اور اس کا توڑ یہ ہے۔‘‘

یہاں ہم کہیں گے کہ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں توہم پرست مرد و خواتین کا یکساں حال ہے۔ محمد شریف نے اپنے خط میں جس شعبدے یا کرشمے کا ذکر کیا ہے وہ انسانی ذہن کی گہرائیوں اور ہمارے لاشعور کے عجائب خانے کی حیرت انگیز کرشمہ آرائیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ انسانی دماغ کا سب سے زیادہ پراسرار خانہ وہ ہے جسے حافظے یا یادداشتوں کا تہہ خانہ کہتے ہیں۔ ابھی اسی وقت آپ اپنے دماغ کی اس حیرت انگیز قوت کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ مہربانی کرکے آنکھیں بند کرلیں اور کسی گزرے ہوئے واقعے کا تصور کریں۔ آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ دماغ کے اندر ایک فلم چل رہی ہے اور گزرا ہوا واقعہ ایک جیتے جاگتے ڈرامے کی طرح ذہن کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ بلاشبہ یہ حافظے کا مکمل ڈراما ہے، جس میں ماضی کے افراد حصہ لے رہے ہیں۔ آپ ان لوگوں کو چلتے پھرتے دیکھ رہے ہیں، ان کی آوازیں سن رہے ہیں، ان کے جسموں کی خوشبو سونگھ رہے ہیں، ان کے اعضا کی لچک اور گداز کو محسوس کررہے ہیں اور ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو کر شیرینی کام و دہن کے مزے اڑا رہے ہیں۔ لیجیے ایک لمحے میں پوری فلم ذہن کے سامنے سے گزر گئی اور آپ نے بغیر آنکھوں کے دیکھ بھی لیا، بغیر کانوں کے سن بھی لیا، بغیر زبان کے چکھ بھی لیا، بغیر ناک کے سونگھ بھی لیا اور جسم کے بغیر چھو بھی لیا۔ آخر یہ حیرت انگیز شعبدہ کس طرح ظہور میں آیا۔ صرف اس طرح کہ ماضی کی کروڑوں یادداشتوں میں سے صرف ایک ’’یاد‘‘ پر توجہ مبذول کردی گئی، وہ یاد اپنے پورے حسی تاثرات کے ساتھ حافظے کے تہہ خانے سے ابھری اور ایک زندہ واقعے کی طرح نگاہ تصور سے گزر گئی۔

حافظے یا پرانی یادداشتوں کی بازیابی یا انھیں تازہ کرنے کا عمل واقعی عجیب و غریب ہے۔ آپ سیب یا انگور کھاتے ہیں تو یہ کھانا صرف وقتی عمل نہیں ہے۔ سیب، انگور یقیناً معدے میں پہنچ کر ہضم ہوجاتے ہیں اور ان کا فضلہ جسم سے خارج ہوجاتا ہے لیکن جہاں تک ان کے رنگ، خوشبو اور ذائقے کا تعلق ہے تو یہ چیزیں ایک باتصویر یاد کی طرح دماغ کے اس فیتے میں چھپ جاتی ہیں جس کا تعلق حافظے کے محافظ خانے سے ہے، اب آپ جب بھی سیب کا تصور کریں گے، حافظے کے تہہ خانے سے سیب یا انگور سے تعلق رکھنے والی تمام یادیں ذہن کی سطح پر نمودار ہوجائیں گی۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پیدائش کے پہلے منٹ سے (بلکہ شکم مادر سے ہی) لے کر آج تک ہم نے جتنی باتیں سنی ہیں، جتنی چیزوں کو چھوا ہے، جتنی خوشبوئیں سونگھی ہیں، جتنے مزے چکھے ہیں، جتنی اشیا دیکھی ہیں اور جتنی باتیں سوچی ہیں، ان سب کی انگنت سسہ الجادی بلکہ شش الجادی تصویریں ہمارے دماغ میں محفوظ ہیں۔ بازیابی کے اس عمل سے ان تمام تصویروں کو یادداشتوں کے تہہ خانے سے نکال کر شعور کی سطح پر لاسکتے ہیں، یہی نہیں ہم سوتے میں بحالت خواب جن جن مناظر سے دوچار ہوتے ہیں، وہ یاد رہیں یا نہ رہیں، تاہم یہ سب مناظر جوں کے توں حافظے میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ نفس انسانی کسی تجربے کو ضایع نہیں کرتا۔

تنویمی عمل کے دوران انسانی نفس کی اسی صلاحیت سے کام لیا جاتا ہے۔ فرض کیجیے کسی آدمی پر خوف کے دورے پڑ رہے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ مریض کے ذہن میں اس خوف کی ابتدا کس حادثے سے ہوئی تھی؟ مریض ہر چند سوچتا ہے مگر اس مریضانہ خوف کا ابتدائی سبب اسے خود یاد نہیں ہوتا۔ (اکثر نفسیاتی امراض میں مرض کی ابتدائی وجہ لاشعور کی اتھاہ گہرائیوں میں کہیں دبی ہوئی ہوتی ہے) ماہر تنویم اس شخص پر تنویمی نیند طاری کرتا ہے، اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ پیچھے کی طرف سفر کرو اور بتاؤ کہ (مثلاً) پندرہ سال کی عمر میں تم کن کن تکلیف دہ جذباتی حادثوں سے دوچار ہوئے تھے۔ عامل کی ترغیب اور القا کے زیر اثر معمول ’’پندرہ برس‘‘ کے تمام حادثے بیان کردیتا ہے، پھر چودہ، تیرہ سال کے واقعات کے بارے میں پوچھ گچھ ہوتی ہے، اسی طرح معمول، ماہر تنویم کی ہدایت کے زیر اثر ماضی کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے دو تین سالہ عمر کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور بالکل بچوں کی طرح باتیں کرنا لگتا ہے۔ اس عمل کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ جوں جوں معمول کو تنویمی نیند میں ہدایات، القا اور حکم و ہدایت کے ذریعے ماضی یا مستقبل میں آگے یا پیچھے کی طرف چلایا جاتا ہے (یہ سفر ذہنی ہوتا ہے) ویسے ویسے اس کے طرز گفتار، کردار، رویے اور جوابات میں تبدیلی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی 20 سالہ تنویمی معمول کو یہ ہدایت دیں گے کہ: اب وہ اپنی عمر کی پہلی منزل میں ہے یعنی صرف ایک سال کا ہے تو اس کی تمام حرکتیں ایک سالہ بچے کی سی ہوں گی، جب اس کو یہ باور کرا دیا جائے گا کہ وہ عمر کے دسویں سال میں ہے تو وہ دس سال کے بچے کی طرح باتیں کرے گا اور جب اس سے یہ کہا جائے گا کہ وہ ستر سال کا ہوچکا ہے اور اپنی عمر کی آخری منزل میں ہے تو 20 سالہ معمول کا رویہ اور گفتگو مردِ کہن سال کی طرح ہوجائے گی۔ ہاں تو کہنا یہ ہے کہ ماہر تنویم خوف کے مریض کو ماضی کی طرف لوٹاتے لوٹاتے آخر اس لمحے کو پکڑ لیتا ہے جب خوف کا پہلا صدمہ اس کے نفس نے محسوس کیا تھا، جوں ہی خوف کی زہریلی بیل کی جڑ ہاتھ لگ گئی، مرض کا قلع قمع ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔