حقوقِ انسان؛ قرآن و حدیث کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 1 اکتوبر 2021
آج ہم دوسروں کے حقوق تو ادا نہیں کرتے البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں
 فوٹو: فائل

آج ہم دوسروں کے حقوق تو ادا نہیں کرتے البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں فوٹو: فائل

شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلّف بنایا ہے کہ وہ حقوق اﷲ کے ساتھ بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن و حدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔

نبی اکرم ﷺ، صحابۂ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعینؒ نے اپنے قول و عمل سے لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی جو بے شمار مثالیں پیش کی ہیں، وہ رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مگر آج ہم دوسروں کے حقوق تو ادا نہیں کرتے البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی کوئی فکر نہیں کرتے، اپنے حقوق کے لیے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔

حقوق کے نام سے تنظیمیں بنائی جارہی ہیں، لیکن دنیا میں ایسی انجمنیں یا تحریکیں یا کوششیں موجود نہیں ہیں، جن میں یہ تعلیم دی جائے کہ دوسروں کے حقوق جو ہمارے ذمے ہیں، وہ ہم کیسے ادا کریں؟ شریعت اسلامیہ کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمے داریوں یعنی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔

عام لوگوں کے حقوق:

اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والے ہر شخص پر ضروری ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرے۔ کسی کے مال یا جائداد پر ناجائز قبضہ نہ کرے۔ کسی کو دھوکا نہ دے۔ کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کرے۔ شریعت اسلامیہ میں کسی کو ناحق قتل کرنا تو درکنار کسی شخص کو مارنا یا گالی دینا یا بُرا کہنا بھی جائز نہیں ہے۔

راستے کا حق ادا کیا جائے۔ غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور کم زوروں کا خیال رکھا جائے۔ عام لوگوں کے ساتھ والدین، میاں بیوی، اولاد، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔ حضور اکرم ﷺ نے دوسروں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر آخرت میں سخت عذاب کی خبر اس طرح دی، مفہوم: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسا اور دنیا کا سامان نہ ہو۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نمازیں، روزہ، زکوۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بہ قدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بہ قدر) نیکیاں دی جائیں گی۔

پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بہ قدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم)

والدین کے حقوق:

قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔

احادیث میں بھی والدین کی فرماں برداری کی خاص اہمیت و تاکید اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضی و ناپسندیدگی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفت گُو کا حکم دیا گیا ہے۔ پوری زندگی والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم ان کی اہمیت کو تقویت  دیتا ہے۔

دوران حیات حقوق: ان کا ادب و احترام، محبت، خدمت اور ان کی فرماں برداری کرنا، ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا، ان کی ضروریات پوری کرنا۔ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرنا۔

بعد از وفات حقوق: ان کے لیے اﷲ تعالیٰ سے معافی اور رحمت کی دعائیں کرنا۔ ان کی امانت و قرض ادا کرنا۔ ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ ان کی جانب سے ایسے اعمال کرنا جن کا ثواب ان تک پہنچے۔ ان کے رشتے دار، دوست و متعلقین کی عزت کرنا۔ کبھی کبھی ان کی قبر پر جانا۔

اولاد کے حقوق: نیک اولاد والدین کے لیے عظیم نعمت ہے اور اولاد نیک اس وقت ہوگی جب ان کی پرورش اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کی جائے۔ اﷲ کے رسولؐ نے فرمایا: ہر بچہ اپنی فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (بخاری، مسلم)

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بچے کا ذہن و دماغ کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، اس کے والدین بچپن میں اس کے ذہن و دماغ پر جو نقش کر دیتے ہیں اس کا اثر آخر عمر تک رہتا ہے۔ والدین کی چند ذمے داریاں یعنی اولاد کے حقوق حسب ذیل ہیں۔

بچے کی ولادت کے وقت دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہنا۔ تحنیک، یعنی کھجور کو اچھی طرح چبا کر بچہ کے منہ میں ڈالنا اور مسوڑھوں پر رگڑنا۔ ساتویں دن عقیقہ کرنا، لڑکے کی ختنہ کرانا، سر کے بال کاٹ کر بالوں کے وزن کے بہ قدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا اور اچھا نام رکھنا۔ اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔

اپنی حیثیت کے مطابق اولاد کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنا۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کرنا۔ والدین کے ذمے یہ ایک ایسا حق ہے جسے اگر والدین نے صحیح طریقہ سے ادا کیا تو اس کے ذریعے ایک اچھی نسل کی بنیاد پڑے گی اور اگر اس حق میں ذرا بھی کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو پھر نہ جانے اس کا خمیازہ آنے والی کتنی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اولاد کی تعلیم و تربیت یقیناً ایک بڑا ہی اہم اور نازک مسئلہ ہے، جسے بڑی ہی دانش مندی اور ہوشیاری سے انجام دینا چاہیے۔

اولاد کی تعلیم و تربیت میں ابتدائی دنوں میں تو ماں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، لیکن بچے کی بڑھتی عمر کے ساتھ وہ ذمے داری باپ کی جانب منتقل ہوتی جاتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے بعد والدین کے ذمے اولاد کا آخری اور اہم حق ان کی شادی کا رہتا ہے۔ شادی کے تعلق سے نبی اکرمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں لڑکے اور لڑکی کے انتخاب میں دین داری اور شرافت کو ترجیح دینی چاہیے۔

میاں بیوی کے حقوق: دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان شوہر بیوی کا رشتہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دونوں کے درمیان شرعی نکاح عمل میں آئے۔ نکاحِ شرعی کے بعد دو اجنبی مرد و عورت رفیق حیات بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کے رنج و خوشی، تکلیف و راحت اور صحت و بیماری غرض یہ کہ زندگی کے ہر گوشے میں شریک ہوجاتے ہیں۔

نکاح کی وجہ سے بے شمار حرام امور ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں حتی کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے یعنی شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کے لیے لباس کے مانند ہے۔

شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے میاں بیوی کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا نیز ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرنا یہ سب شریعت اسلامیہ کا جزء ہیں اور ان پر بھی اجر ملے گا، ان شاء اﷲ۔

بیوی کے حقوق: مکمل مہر کی ادائیگی کرنا۔ بیوی کے تمام اخراجات برداشت کرنا۔ بیوی کے لیے رہائش کا انتظام اور حسن معاشرت کرنا ۔

شوہر کے حقوق: شوہر کی اطاعت کرنا۔ شوہر کے مال و آبرو کی حفاظت کرنا۔ گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا۔

پڑوسیوں کے حقوق: اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے،مفہوم: ’’اﷲ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دُور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے ہوئے) شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں (یعنی ماتحتوں) کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ کرو)۔ بے شک اﷲ کسی اِترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ النساء) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی ہے خواہ وہ رشتے دار ہوں یا نہ ہوں اور مسلمان ہوں یا نہ ہوں۔

غرض یہ کہ پڑوسی ہونے کی بنیاد پر ہر شخص کا خیال رکھنا ہماری دینی و اخلاقی ذمے داری ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیلؑ اس کثرت سے پڑوسیوں کے بارے میں احکام لے کر آتے تھے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔ اسی طرح حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ نیز نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھے۔ (مسلم)

رشتے داروں کے حقوق: اسلام نے جہاں عام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی بارہا تاکید کی ہے، وہیں پڑوسیوں اور قریبی و دور کے رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی یہاں تک کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں انفرادی زندگی کے ساتھ سماجی زندگی کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں تاکہ سب کی مشترکہ کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ بنے۔ لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہوں اور جس کا جو حق ہے وہ ادا کیا جائے۔

والدین سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنی اولاد کے حقوق ادا کریں۔ اسی طرح اولاد کو بھی تعلیم دی گئی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں، میاں بیوی کے اوپر یہ ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں بہ حسن خوبی انجام دیں تاکہ زندگی صحیح سمت چلے۔ پڑوسیوں کا بھی مکمل خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے حتی کہ کہا گیا ہے کہ پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے والا شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا ہے۔

اسی طرح ہر شخص کی یہ ذمے داری ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق تمام رشتے داروں کو ساتھ لے کر چلے۔ آج ہمارے معاشرے میں یہ بیماری بہت عام ہوگئی ہے کہ معمولی بات پر رشتے داروں سے قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔

حالاں کہ ضرورت ہے کہ ہم رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں، ان کی خوشی وغمی میں شریک ہوں اور ان کے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ کریں۔ سورۃ النحل میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: بے شک! اﷲ انصاف کا، احسان کا، اور رشتے داروں کو (اُن کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔

نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قطع رحمی کرنے والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ دیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنی سزا کاٹنے کے بعد ہی جنّت میں داخل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث میں رشتے داروں کے معاشی حقوق پر بھی زور دیا گیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک! اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ)

نیز نبی اکرم ﷺ نے غریب رشتے داروں کی معاشی بحالی پر زور دینے کے ساتھ کم زور اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ نے عام افراد پر صدقہ کرنے کے بہ جائے رشتے داروں پر خرچ کو بھی ثواب کا ذریعہ و وسیلہ قرار دیا ہے۔

اس سے آگے بڑھ کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عام مسکین پر صدقہ سے تو ایک گُنا ہی ثواب پائے گا لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے تو اس کو دگنا ثواب و اجر ملے گا، ایک اجر تو صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔ (نسائی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔