وسطی افریقی جمہوریہ: حکمرانوں کی نااہلی سے آگ بھڑک اٹھی

آصف زیدی  اتوار 2 فروری 2014
2003ء میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ کی 80 فی صد سے زیادہ آبادی مسیحی ہے، مسلمان یہاں تقریباً10فی صد ہیں،  فوٹو: فائل

2003ء میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ کی 80 فی صد سے زیادہ آبادی مسیحی ہے، مسلمان یہاں تقریباً10فی صد ہیں، فوٹو: فائل

دنیا بھر میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا لمحہ بہ لمحہ ترقی، سوشل میڈیا کے زبردست فروغ اور لوگوں میں روز بر روز بڑھتی آگاہی کے باوجود بہت سے واقعات اور معاملات ایسے ہیں جن پر توجہ نہیں دی جاتی یا وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔

دنیا کے بہت سے خطے، ملک یا شہر اپنی اپنی مخصوص انفرادیت کی وجہ سے قابل توجہ بنتے ہیں، کچھ لوگوں کو ان کے حوالے سے جلد پتا چل جاتا ہے لیکن اکثریت کو کافی عرصے بعد چیزوں کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں سیاسی کشیدگی، تنازعات، جنگی کیفیت عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے پریشانی کا باعث تو ہوتی ہیں، مگر کبھی کبھی جان بوجھ کر بہت سارے حالات و واقعات کو دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے خون سے تر حالات پر بھی دنیا کی توجہ شاید ابھی عالمی طاقتوں کے فائدہ میں نہیں ہے، اسی لیے قتل و غارت گری سے پھراب خطہ عالمی لیڈروں کو کسی تشویش میں مبتلا نہیں کر رہا۔

وسطی افریقی جمہوریہ میں طویل عرصے سے خانہ جنگی کی کیفیت نے علاقے کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ گو مسلسل عذاب میں مبتلا رہنے والے یہ لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان حالات میں بھی زندہ ہیں، کیوں کہ ان کے ساتھ رہتے بستے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ اس چھوٹے سے افریقی ملک میں قتل و غارت گری مسلسل بڑھ رہی ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس خون ریزی کا نشانہ سب سے زیادہ مسلمان بن رہے ہیں اور حالات اب اس پہنچ پر پہنچ چکے ہیں کہ عالمی طاقتوں کو بالآخر خطرناک صورت حال پر دھیان دینا پڑرہا ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک کا دارالحکومت بینگوئی ہے، جو قتل و غارت گری سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ انتہائی کشیدہ حالات کی وجہ سے علاقے میں رہنے والے محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ نے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں اور جو علاقہ نہیں چھوڑ سکے، انہیں باغیوں کے ظلم و ستم اور زندگی کا عذاب سہنا پڑرہا ہے۔ ان حالات سے ملک کی مسلمان آبادی، جو اقلیت ہے، سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ اس ملک کے شمال میں چاڈ، شمال مشرق میں سوڈان، مشرق میں جنوبی سوڈان، جنوب میں کائکو جب کہ مغرب میں کیمرون واقع ہیں۔ ان ملکوں میں بھی سیاسی تنازعات اور کشیدگی پائی جاتی ہے، لیکن وسطی افریقی جمہوریہ جیسے خون آشام حالات کہیں نہیں ہیں۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس خطے میں (جہاں وسطی افریقی جمہوریہ واقع ہے) طویل عرصے تک فرانس کا تسلط رہا ہے۔ یہ ملک 1910ء سے 1960ء تک فرانسیسی حکومت کے زیر نگیں تھا۔ 13 اگست 1960ء کو وسطی افریقی جمہوریہ کو آزاد ملک کی حیثیت دی گئی۔ آزادی کے بعد تقریباً 30 سال تک ادھر ایسی حکومتیں رہی جن کی باگ ڈور یا تو غیرمنتخب افراد کے ہاتھ میں تھی یا حکم رانوں نے طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا۔ حکم رانوں کی غلط پالیسیوں اور عوام میں حکومت کے خلاف پیدا ہونے والے شدید منفی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کو مداخلت کرنا پڑی اور وسطی افریقی جمہوریہ میں 1993ء میں باقاعدہ انتخابات کرائے گئے، جن میں مختلف سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اینچ فیلکس پتا سے (Ange Felix Pattase) نے اقتدار سنبھالا، لیکن 2003ء میں فوجی جزک نے فرائنکوئس بوزیز (Fanncois Bozize) نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 2005ء میں خود کو باقاعدہ صدر بھی منتخب کرایا۔

یہ حکومت بھی عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی۔ 2008 ء میں نئے انتخابات کرائے گئے۔ مختلف اقدامات اور اصلاحات کے بل پر فرائنکوئس بوزیزے وسطی افریقی جمہوریہ کے منصب صدارت پر قابض رہے اور تنقید اور تنازعات کے باوجود 2011ء میں ہونے والے الیکشن میں بوزیزے کی پارٹی نے کام یابی حاصل کرلی۔ انتہائی کرپشن، بدانتظامی اور اقرباپروری نے اس حکومت کو عوام میں انتہائی غیرمقبول کردیا اور عوام کو پریشانی، بے چینی اور غصے کا نتیجہ بغاوت کی شکل میں سامنے آیا۔ جب مختلف گروپ حکومت سے ٹکرانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ 2013ء میں حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے فرینکوٹس یوزیزے کو صدارت چھوڑنا پڑی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ اداروں میں صدر اور وزیراعظم نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر اقتدار جمہوری حکومت کے حوالے کر دیا ہے جو ملک میں نئے انتخابات کرائے۔ اس سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کا سب سے خوف ناک پہلو قتل و غارت گری ہے۔ باغیوں کے مختلف گروپوں نے حکومت سے اختلافات کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کو قتل کرنے، لوٹ مار کرنے اور دہشت پھیلانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس نے سب کو لرزہ کے رکھ دیا ہے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ کو قدرت نے متعدد وسائل سے نوازا ہے لیکن اس قدرتی دولت پر توجہ دینے اور اسے عوام کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ان وسائل کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں بہت سی معدنیات کے ذخائر ہیں۔ باکو ما (Backhoe) میں یورینیم، وکاگا (Vacaga) میں خوردنی تیل، سونا، ہیرے، ہائیڈرو پاور اور دیگر معدنی وسائل ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے، جب کہ براعظم افریقہ کے 10 غریب و پس ماندہ ترین ممالک میں بھی اس کا نام شامل ہے۔

ملک میں جاری خونی تصادم کے تناظر میں عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مختلف رپورٹوں کے مطابق اس افریقی ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال بہت ابتر ہے۔ حکومتی سطح پر بے قاعدگیوں، بے پرواہی اور غیرانسانی اقدامات کی حمایت یا ان سے چشم پوشی جیسی مذموم کارروائیوں نے وسطی افریقی جمہوریہ کے پُرامن باسیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے علاقے کی صورت حال بہت زیادہ کشیدہ اور خطرناک ہو گئی ہے۔ باغی گروپ اپنی بات منوانے سے زیادہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دارالحکومت بینگوئی اور دیگر علاقوں میں مختلف دیہات پر یلغار کررہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے عالمی ریڈ کراس کے رضاکاروں نے خبر دی تھی کہ چند دنوں میں ہم لوگ 50سے زیادہ لاشیں دفنا چکے ہیں۔ ان سب افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولیاں ماری گئیں یا تیز دھار خنجروں سے قتل کیا گیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمینٹ کی رپورٹوں کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں باغی جنگ جوئوں کی کارروائیوں کے ساتھ حکومت اور سیکیوریٹی فورسز کے ظالمانہ اقدامات نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ انہی فیصلوں اور اقدامات کے سبب یہ علاقہ برسوں سی تصادم اور کشیدگی کے ماحول میں گھرا ہوا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق ماورائے عدالت سزائیں، قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک، تشدد انھیں جنسی وذہنی طور پر نشانہ بنانا، حراستی مراکز میں زیرحراست افراد کے لیے انتہائی مشکل اور عذاب جیسے حالات، غیرجانب دارانہ ٹرائل کی ممانعت، سرکاری سطح پر بے انتہا کرپشن، بدانتظامی، ملازمین کے حقوق سے انحراف اور ایسے ہی دیگر جرائم اور بے ضابطگیاں وسطی افریقی جمہوریہ کے سرکاری اور فوجی حکام کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال نے باغیوں کے غصے کو مزید بڑھایا، حکومت صرف عیاشیوں میں مگن رہی، نتیجہ یہ نکلا کہ خونیں فسادات نے علاقے کی آدھی سے زیادہ آبادی کو بے گھر کر دیا۔

2003ء میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ کی 80 فی صد سے زیادہ آبادی مسیحی ہے، مسلمان یہاں تقریباً10فی صد ہیں، جب کہ دیگر مذاہب سی تعلق رکھنے والوں کا تناسب بھی 10فی صد ہے۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق یہاں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد مجموعی آبادی کا 15فی صد ہے۔ موجودہ خانہ جنگی کی صورت حال نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کیا اور انہیں دہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، کیوںکہ ایک طرف وہ باغی گروپوں کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت علاقے میں پائے دار امن کے لیے کوئی موثر فیصلہ نہیں کر پارہی، جس کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہو تے جارہے ہیں۔فرانسیسی حکومت نے اپنی اس سابق کالونی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے امن و امان قائم کرنے کے لیے فوجی دستے بھیجے ہیں۔ تاہم یہاں کے کچھ علاقے اتنے دور ہیں کہ وہاں آسانی سے فوجی دستوں کی رسائی بھی ممکن نہیں۔ وہاں سے آنے والی رپورٹیں چاہیں وہ مصدقہ ہوں یا غیرمصدقہ ہر ایک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں، کیوںکہ یہی اطلاعات مل رہی ہیں کہ وسطی افریقی جمہوریہ کے مختلف علاقوں میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔

مختلف افریقی ممالک کی طرح وسطی افریقی جمہوریہ (CAR)کی معیشت کا انحصار بھی غیرملکی امداد پر ہے۔ غیرسرکاری تنظیمیں اپنے اپنے شعبوں میں مالی معاونت کرتی رہی ہیں، تاہم فی الحال ملک میں سدھار کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ نے بھی اسے ان ملکوں میں شامل کیا ہے جو عالمی ادارے کی امداد سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہاں فی کس آمدنی 300ڈالر ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہے۔ معدنیات کے ذخائر ہونے کے باوجود یہاں کی پریشان کن معاشی صورت حال حکومتوں کی عدم توجہی، نالائقی اور صرف اپنوں کو نوازنے کی پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔

 photo Centralafricarepublic_zps12447d12.jpg

گذشتہ سال2013  میں سیاسی گروپوں کی محاذآرائی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اقوام متحدہ نے علاقے میں امن فوج تعینات کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ امن فوج نے وہاں صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن جنگجو گروپوں کی کارروائیوں نے صورت حال کو مزید خطرناک بنادیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ حالات امن فوج کے بس میں نہیں رہے۔ گذشتہ سال دسمبر میں عیسائی اور مسلمان گروپوں میں خوں ریز تصادم اور سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد صورت حال انتہائی خطرناک ہوگئی تھی۔ مختلف شہروں میں ایک ایک مقام سے درجنوں لاشوں کی برآمدگی نے فرانس کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنے فوجی دستے اس علاقے میں امن و امان کے لیے بھیجے جہاں وہ طویل عرصے حکم رانی کرچکا ہے۔ رواں ماہ میں اپنے اوپر لگنے والے مختلف الزامات کی وجہ سے عبوری صدر مچل جوٹودیاMichel Djotodiaنے استعفیٰ دیدیا تھا ، اب کیتھرین سامبا پانزاCatherine Samba-Panza ملک کی نگراں سربراہ ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ خون اور بارود کے ماحول میں جہاں ہر طرف خوںریزی اور ہلاکتوں کا سلسلہ ہے، ایک خاتون لیڈر کس طرح حالات کو کنٹرول کرتی ہیں۔

وسطی افریقی جمہوریہ کے حالات کا مختصر جائزہ قارئین کو علاقے کی صورت حال سے آگاہ کرنے کی چھوٹی سی کوشش ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال حکومتی نااہلی، حکم رانوں کا عوام کی فلاح سے انکار، باغی گروپوں کی یلغار اور ایسے ہی دیگر عوامل نے ملک کو لاتعداد مسائل اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالات اس وقت ٹھیک ہوں گے جب عالمی ادارے خلوص کے ساتھ علاقے میں امن و امان اور عوامی حقوق کی بحالی کے لیے کوشش کریں۔ حکومتی انتظامی ڈھانچے کو کرپشن سے پاک کیا جائے، سیکیوریٹی فورسز اور باغی گروپوں کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالی جائے اور خطے میں پائے دار امن کے لیے جامع حکمت عملی بناکر اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وسطی افریقی جمہوریہ مسلسل آگ اور خون کی بارش کا سامنا کرتا رہے گا۔

زمیں پہ انصاف کرنے والے

سعود عثمانی

میں دو گروہوں کے درمیاں اک سفید پرچم لیے کھڑا ہوں

مگر کوئی مانتا نہیں ہے

مرے یمین و یسار دونوں گروہ اک دوسرے سے حد درجہ مختلف ہیں

مماثلت ہے تو بس یہی ہے

کہ ان کی انسانوں  جیسی شکلیں ہیں

اوردل  بھیڑیوں کے دل ہیں

مرے بدن پر جو زخم ہیں سب

مرے یمین و یسار میں ہیں

میں جانتا ہوں کہ تیز نیزے ، کڑی کمانیں ابھی مرے انتظار میں ہیں

کہ پتھروں نے بھلا کبھی التجا سنی ہے ؟

جو اِ س طرف ہیں

یہی  جو میرے  بدن کی  دائیں طرف کو تیروں  سے  چھیدتے ہیں

یہ سب خدا ہیں

یہ اہرمن جو زبان ِ یزداں میں بولتے ہیں

یہ سب خدا ہیں

جو میرے اعمال اپنے ہاتھوں میں تولتے ہیں

یہ سب خدا ہیں

اگر یہ میرے خدا نہیں ہیں

تو پھر یہ طے ہے

کہ جھوٹے نبیوں کی قوم سچی زمین پر بھیج دی گئی ہے

مگر یہ بے رحم  ان مہذب جنونیوں سے بہت الگ ہیں

جو  روز و شب  میرے بائیں  پہلو میں اپنے نیزے چبھو رہے ہیں

وہ آسماں سے زمیں پہ نازل ہوئے تھے اور یہ

زمین سے آسماں پہ مبعوث ہورہے ہیں

یہ لوگ میرے ہی  خون سے مجھ کو  دھو رہے ہیں

تمام قوموں ، تمام چہروں کوصاف شفاف کرنے والے

زمیں پہ انصاف کرنے والے

مرے لیے اپنے خاص انصاف کا صحیفہ لیے کھڑے ہیں

سفید رُو  خوش لباس قاتل

وہ  ناخدا ہیں جو سب خداؤ ں سے بھی بڑے ہیں

یہ علم و حکمت ،یہ عقل و دانش،

یہ کاسۂ سر

یہ سارے تمغے جو ان کی پوشاک پر جڑے ہیں

د مکتی پوشاک میں  یہ سفاک مسکراہٹ ہے  جو  مجھے خوب جانتی ہے

اور اس کو  میں خوب  جانتا ہوں

سفید قاتل

کہ جن کے ہمراہ  گندمی رنگ خاص چوپایہ آدمی ہیں

اور ان  کے پٹوں کی جھنجھناتی سنہری زنجیریں

ان کے آزاد  مالکوں  تک پہنچ رہی ہیں

یہ خاص چوپایہ آدمی ہیں

جو  اپنے راتب کو ہضم کرتے ہیں

اور دانشوری کا فضلہ نکالتے ہیں

مگر یہ دانش وری کے تاجر

خرد کی آڑھت پہ بیٹھتے ہیں  تو اپنی دُم سے

نشست بھی جھاڑتے نہیں ہیں

ذرا سا کھرچو

تو سطح ِ انسانیت  کی پتلی تہوں تلے سے

نکیلے، پتھریلے ناخنوں ،تیز دھار دانتوں سمیت اک مسلکی جنونی

نکل کے آتا ہے جس کی باچھوں سے گرم تازہ لہو کے فوارے چھوٹتے ہیں

میں کس  طرف  ہوں ؟

کہ میں کمانوں کا بھی نشانہ ہوں

اور زبانوں کا بھی ہدف ہوں

میں تیر کھا تا ہوں اور طعنے سہارتا ہوں

دہن دریدہ  وجود میرے بدن دریدہ وجود کو بخشتے نہیں ہیں

یہ دونوں لشکر  جو میری بستی میں آگھسے ہیں

نہ جانے کب تک یہاں رہیں  گے

میں دو  درندوں کے بیچ کب تک سفید پرچم لیے رہوں گا

سفید پرچم

مگر یہ اتنا سفید بھی اب کہاں رہا ہے

ہوا میں تحلیل ہوتی چیخیں ، سسکتی بے سود  التجائیں

انہی کے کانوں تلک پہنچتی ہین

جن کے دل بھیڑیوں کے د ل ہیں

جو سچ کہوں تو مجھے یہ مطلق خبر نہین ہے

وہ کون ہیں جو کہ مارتے ہیں ،

یہ کون ہیں جو کہ مر رہے ہیں

مگر یہ سچ ہے

یہ دونوں قاتل

مرے تحفظ  کا نام لیتے ہین اور مجھے قتل کر رہے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔