انسانی تاریخ کے ایک سفاک کردار کا عبرتناک انجام

عبدالقیوم فہمید  اتوار 2 فروری 2014
بیت المقدس میں معرکہ نطرون نامی لڑائی میں شیرون اردنی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا، لیکن فائر بندی کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا گیا۔  فوٹو: فائل

بیت المقدس میں معرکہ نطرون نامی لڑائی میں شیرون اردنی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا، لیکن فائر بندی کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا گیا۔ فوٹو: فائل

صموئیل شائنرمین انیسویں صدی کے آخرمیں مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں ایک نہایت مفلس گھرانے میں پیدا ہوا۔آنکھ کھولی تو چاروں طرف غربت نے ڈیر ے ڈال رکھے تھے۔کھانے کو کئی کئی روز کچھ نہ ملتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے بعض اوقات کئی روز کی پرانی باسی روٹی کے ٹکڑے پانی میں بھگو کر گذراوقات کرنا پڑتی۔

مفلسی کی زندگی سے تنگ صموئیل پولینڈ چھوڑنے کا سوچنے لگا۔ اس کی آبائی مذہبی یہودی قبیلے ’’اشکنزائی‘‘ کے ایک ربی سے ملاقات ہوئی جس نے صموئیل کو’’ارض المیعاد‘‘ یعنی فلسطین چلے جانے کا مشورہ دیا۔ ابھی فلسطین خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ صموئیل کو یہودی پیشوا کا مشورہ پسند آیا اور اس نے فلسطین میں آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے گھرسے کچھ زاد راہ لیا اور فلسطین کو ہولیا۔ اسرائیل کے موجودہ دارالحکومت تل ابیب سے چند کلو میٹر دو ر ’’کفار ملال‘‘ کے مقام پر رہائش اختیار کی اور کھیتی باڑی شروع کردی۔ یہاں آنے کے بعد صموئیل کاتعارف ایک روسی نژاد یہودی خاتون ’’ڈاوورا‘‘ سے ہوا۔ دونوں کے درمیان دوستی بالآخر شادی پرمنتج ہوئی اور صموئیل اور ڈاوورا مل کر کھیتی باڑی کرنے لگے۔خلافت عثمانیہ کے انہدام کے بعد فلسطین کوبرطانیہ کی کالونی بنا دیا گیا۔ برطانوی سامراج نے فلسطینی مسلمانو ں اور عربوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں پرنوازشات کی بارش کردی۔ فلسطینیوں کی زمینیں چھین کر یہودیو ں کودی جانے لگیں۔ صموئیل نے بھی یہودیوں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کی ملکیتی کئی مربع زمین ان سے غصب کر لی۔ بعد ازاں صموئیل اس کئی مربع زمین کا تنہا مالک ومختار بن بیٹھا۔ اسی اراضی کے چالیس ایکڑ رقبے پر بعد ازاں صموئیل کے فرزند ایریل شیرون نے ایک ’’فارم ہاؤس‘‘ بنایا۔ اس فارم ہاؤس میں دنیا بھر سے نایاب جنگی جانور اور پرندے بھی لا کر رکھے گئے۔

1926ء کو صموئیل خاندان میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام ’’یہودیتـ‘ـــــ‘ رکھا گیا۔ دو سال بعد 26 فروری 1928ء کو ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایریل شیرون رکھا گیا۔شیرون بچپن ہی سے لڑاکا مزاج تھا۔ اس کی عمر محض 14 سال تھی جب اس نے یہودیوں کی’’اکھاغاناہ‘‘ نامی مسلح یہودی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہی تنظیم تھی جو قیام اسرائیل کے بعد صہیونی فوج کی بنیاد بنی۔ اس تنظیم نے1948  ء میں قیام اسرائیل کے دوران ہزاروں فلسطینیوں اور اردنی فوجیوں کو شہیدکیا۔ شمالی فلسطین کے شہر’الد‘ میںمساجد میں پناہ لینے والے نہتے عرب شہریوں پر گولیاں چلانے والوں میں شیرون بھی شامل تھا۔ چنانچہ ایک ہی دن میں شیرون اور اس کے دیگر غندہ گرد ساتھیوں نے 426 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ یہاں سے شیرون کی فلسطینیوں کے قتل عام کی ایک طویل داستان شروع ہوتی ہے جو2005ء میں اس وقت تک جاری رہتی ہے جب شیرون اچانک برین ہیمرج کے نتیجے میں اسپتال جا پہنچتا ہے۔

بیت المقدس میں معرکہ نطرون نامی لڑائی میں شیرون اردنی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا، لیکن فائر بندی کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا گیا۔ شیرون کا والد اسے زراعت کی تعلیم دلوانا چاہتا تھا ۔شروع میں شیرون نے والد کی خواہش کے مطابق بیت المقدس کی عبرانی یونیورسٹی میں زراعت کے شعبے میں داخلہ لیا مگر اس میں اس کا دل نہ لگا۔ شیرون تعلیم کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج میں بھی خدمات انجام دے رہا تھا۔ فوج میں خدمات انجام دیتے ہوئے اس نے فلسطینیون اور عربوں کا قتل عام اپنا وتیرہ بنا لیا۔ 1953ء میں ارد ن کی سرحد سے متصل علاقے قبیہ میں گولیاں مار کر 170 اردنی شہریوں کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا۔ یہ وہی سال تھا جب اس نے زراعت کی تعلیم ترک کرکے عبرانی یونیورسٹی میں تاریخ او ر قانون کے مضامین رکھ لیے۔1958ء میں قانون اور تاریخ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد شیرون نے انسانی حقوق کے شعبے میں داخلہ لیا۔ بعد زاں عبرانی، انگریزی اور روسی زبانوں پربھی مہارت حاصل کی۔

 photo Arielsharon_zps7b496c22.jpg

حادثات سے بھرپور زندگی

جنوری کے اوائل میں جب ڈاکٹروں نے ایریل شیرون کی حالت تشویشناک قرار دیتے ہوئے کسی بھی وقت اس کی موت کا امکان ظاہر کیا ۔ میڈیکل رپورٹ کے منظرعام پرآنے کے بعد عرب اور اسرائیلی میڈیا کوشیرون کی زندگی پر روشنی ڈالنے کا ایک نادر موقع مل گیا۔ سعودی عرب کے ’’العربیہ ‘‘ نیوز چینل نے شیرون کی نجی اور عائلی زندگی پرایک مفصل رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں شیرون کی زندگی کے وہ پہلو بھی سامنے آئے جو ماضی میں کبھی کسی ابلاغی ادارے کی جانب سے شائع نہیں کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق شیرون کی زندگی مجموعہ اضداد ہی نہیں بلکہ پے درپے حادثات سے بھی بھرپور ہے۔ شیرون نے اپنی عائلی زندگی کا آغاز1953ء میں ’’مارگلیٹ‘‘ نامی ایک خاتون سے شادی کے ساتھ کیا۔ گوکہ مارگلیٹ سے شیرون کا تعارف قیام اسرائیل سے ایک برس قبل1947ء کو ہوگیا تھا۔ تب شیرون کی عمر انیس اور مارگلیٹ کی سترہ برس تھی۔1956ء میں مارگلیٹ کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام گور شیرون رکھا گیا۔ شیرون کی اکلوتی بہن ’’یہودیت‘‘1951ء میں ڈاکٹر صموئیل منڈل نامی پولش دوست کے ساتھ امریکا چلی گئی۔

شیرون کے والدین کو بیٹی کے چلے جانے کا رنج ہوا جس پر والد صموئیل نے بیٹی کوعاق کرتے ہوئے جائیداد سے محروم کردیا۔یہ معلوم ہوا ہے کہ یہودیت ابھی تک بہ قیدحیات ہے، لیکن اس کے ٹھکانے کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ امریکا جانے کے بعد وہ نہ اپنے خاندان کے کسی فرد یا بھائی شیرون سے ملی اور نہ ہی اسرائیل واپس آئی ہے۔سنہ 1962ء میں شیرون کی اہلیہ مارگلیٹ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس آتے ہوئے ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئی۔ یہ شیرون کی زندگی کا پہلا بڑا حادثہ تھا۔ سنہ 1964ء میں شیرون نے اپنی ہی سالی’’ لیالی‘‘ جو بعد میں لیلیٰ کے نام سے مشہور ہوئی سے شادی کرلی۔ 1967ء میں شیرون کا بیٹا ’’گور‘‘ اپنے والد کی بندوق سے کھیلنے لگا، لیکن والد نے اسے گھرکے اندر کھیلنے سے منع کر دیا۔ اس پر وہ بندوق اٹھائے ایک ہمسائے دوست کے گھر چلا گیا۔ دونوں بندوق سے کھیلنے لگے۔ بندوق میں گولی لوڈ تھی جو اچانک چل گئی جس کے نتیجے میں گیارہ سالہ گور شیرون بھی مارا گیا۔

دوسری بیوی لیلیٰ سے شیرون کے دو بیٹے ’’عومر شیرون‘‘ اور ’’گیلاد شیرون‘‘ ہیں۔ دونوں کی عمریں اس وقت 45 سے 50 برس کے درمیان ہیں۔1999ء میں لیلیٰ کو اچانک کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ یہ مرض اس تیزی کے ساتھ پھیلا کہ محض چند ایام میں لیلیٰ کی جان لے لی۔ یہ وہ وقت تھا جب شیرون باقاعدہ ملکی سیاست میں اتر چکا تھا۔ وہ پہلے’’لیکوڈ‘‘ پارٹی میں رہا لیکن اپنے شدت پسندانہ خیالات کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ رہتا۔ سنہ 2005ء میں شیرون کی پالیسی میں اچانک تبدیلی آئی اور س نے فلسطینی شہرغزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوجی واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے شہرمیں موجود یہودی بستیاںبھی ختم کردیں۔ اس پرشیرون کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر اس نے لیکوڈ پارٹی کو خیر آباد کہہ کر’’کدیما‘‘ پارٹی بنائی۔ یہ امرحیران کن ہے کہ پوری زندگی فلسطینیوں کا کٹر دشمن رہنے کے بعد اپنی بیماری سے قبل شیرون کی پالیسی میں ناقابل یقین تبدیلی آگئی تھی۔ اس نے اپنی پارٹی کدیما میں ان سیاست دانوں کو شامل کیا جو نسبتا روشن خیال اور لبرل تھے۔

ہیرو یا جنگی مجرم؟

اسرائیل میں ایریل شیرون کو ایک ہیرو ہی نہیں بلکہ نجات دہندہ کے طورپر جانا جاتا ہے لیکن دوسری جانب وہ نہتے فلسطینیوں کے قتل عام اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں غیرقانونی یہودی آباد کاری کے حوالے سے سنگین جنگی جرائم کا مرتکب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف سمیت برطانیہ اور یورپ کی کئی عدالتوں میں شیرون کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات درج ہیں۔ یہ امرحیران کن ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود شیرون کے خلاف کوئی عالمی عدالت کارروائی نہیں کرسکی۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمـوںایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے شیرون کے مرنے پرنہیں بلکہ اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس کی زندگی میں کسی عالمی عدالت نے جنگی مجرم کے جرائم پرکوئی کارروائی نہیں کی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایریل شیرون فوج میں رہتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ہے۔

 photo Arielsharon1_zps890b9f89.jpg

قیام اسرائیل کے وقت الد شہرمیں 426 فلسطینیوں کی شہادت،1953ء میں قبیہ کے مقام پر170 اردنیوں کا قتل عام،1967ء میں درجنوں مصری شہریوں کو دوران حراست ہولناک تشدد کرکے ہلاک کرنے،1982ء میں لبنان میں فلسطینی مہاجرکیمپوں صبرا شاتیلا میں قیامت برپا کرکے کم سے کم تین ہزار فلسطینیوں کو تہہ تیغ کرنے، سنہ 2000ء میں مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اشتعال انگیز سازش،2002ء میں مغربی کنارے کے شہرجنین میں فلسطینیوں کے قتل عام اور اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے بانی الشیخ احمد یاسین کو شہید کرنے سمیت سیکڑوں ایسے واقعات ہیں جن میں شیرون کو براہ راست قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔1987ء کو امریکی اخبار’’ٹائمز‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ایریل شیرون کولبنان کے صبرا شاتیلا قتل عام کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔ اس پر شیرون نے اخبار کے خلاف امریکا کی ایک عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔

’’ٹائمز‘‘نے امریکی حکومت اور یہودی لابی کے دباؤ پر شیرون کیخلاف لکھے اپنے ریمارکس واپس لے لیے جس کے بعد شیرون نے بھی مقدمہ واپس لے لیا۔ ان تمام جرائم کے علی الرغم اسرائیل میں اسے ایک ’’عظیم‘‘ قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔اسرائیلی اخبار’’معاریف‘‘ نے شیرون کی موت پراس کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے آنجہانی شیرون کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا: ’’ایریل شیرون قیام اسرائیل کی ان بنیادی اور مضبوط اینٹوں میں سے ایک تھی جو اب اسرائیل کی بنیاد سے نکل کر گر گئی ہے۔ اگرشیرون جیسے پُرعزم لوگ ہمارے ملک میں نہ ہوتے تو مسلمان اور عرب ملک کر اسرائیل کو سمندر میں غرق کر دیتے‘‘۔

مرنے کے بعد ’’ہیرو‘‘ کو بھلا دیا گیا!

گیارہ جنوری2014ء کو اسرائیل کے سابق مردآہن ایریل شیرون کی موت کا اعلان کیا گیا۔ توقع تھی کہ شیرون کے مرنے پر بالخصوص اسرائیل اور بالعموم پوری دنیا میں ان کے بہی خواہوں میں صف ماتم بچھ جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔شیرون کی موت پراسرائیلی میڈیا میں گوکہ خبریں نشرہوئیں مگر جس پذیرائی کی توقع تھی وہ کہیں موجود نہیں تھی۔ شیرون کے انتقال پر وزیرداخلہ ایلی یچائی نے کہا کہ ہم شیرون کا جنازہ افریقا کے نسل پرست مخالف رہ نما آنجہانی نیلسن منڈیلا کے جنازے سے بھی بڑا کریں گے۔ شیرون کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے اسے بھی ایک ہفتے تک دفن نہیں کریں گے، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک روز گذرنے کے بعد جب اسرائیلیوں کو اندازہ ہوا کہ شیرون کے مرنے پر کوئی پرسہ دینے بھی نہیں آیا تو اس کی آخری رسومات ادا کرکے حکومت نے شیرون کی لاش سے بھی جان چھڑا لی۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شیرون کی آخری رسومات میں صرف سات سو افراد شریک ہوئے ہیں۔ ان سات سو میں بیرون ملک سے صرف امریکا کا ایک وفد شریک تھا۔

اس کے علاوہ بیرون ملک سے کوئی قابل ذکر حتیٰ کہ غیرملکی سفیر بھی شریک نہیں ہوئے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں شیرون کی موت پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی گئی تو پارلیمنٹ کے اسپیکر مارٹن چولٹز نے یہ درخواست مسترد کردی۔ درخواست گذار ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ نے برہمی کا اظہار کیا تو کئی دوسرے ارکان نے اس کا منہ یہ کہہ کر بند کرا دیا کہ ’’آپ ایک جنگی مجرم‘‘ کو کیوں سپورٹ کر رہے ہیں۔ شیرون کی موت کے بعد اسرائیلی سیاست اور ابلاغیات میں اختیار کی جانے والی خاموشی اور لاپرواہی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ کے مطابق شیرون کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے ، کیونکہ شیرون جس قد کاٹھ کا لیڈر تھا اس کی آخری رسومات اسی جاہ وحشم کے ساتھ ہونی چاہئیں تھیں۔ مگر افسوس ہے کہ عالمی برادری نے تو منہ موڑ لیا مگر اپنوں نے بھی اپنے ہیرو کی ما بعد وہ تکریم نہیں کی جس کے وہ سزاوار تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔