آدھا سچ، سیاست اور دھوکا

محمد کامران کھاکھی  جمعرات 7 اکتوبر 2021
ہماری سیاست میں آدھے سچ اور دھوکا دہی کا استعمال بھرپور ملے گا۔ (فوٹو: فائل)

ہماری سیاست میں آدھے سچ اور دھوکا دہی کا استعمال بھرپور ملے گا۔ (فوٹو: فائل)

گوجرانوالہ کے رہائشی سید سبط الحسن عرف ڈبل شاہ کے نام سے شاید آپ واقف ہوں جو کسی کی بھی رقم کو پہلے پندرہ دنوں میں اور پھر ستر دنوں میں دگنی کرکے واپس کرتا اور لوگوں کا ایک جم غفیر اپنی جمع پونجی اس کے پاس ڈبل کرانے کےلیے جاتا۔ اس دھوکا دہی سے اس نے سات ارب روپے کمائے مگر پھر اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور وہ گرفتار ہوا۔ اور جیل میں ہی اس کی موت واقع ہوئی۔

آج کل کے سیاست دانوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں اس ڈبل شاہ کی کہانی گونجتی ہے کہ کیسے سیاست دان عوام کے ساتھ دھوکا کرکے بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے ہیں اور ہر دھوکا دہی پر بس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ وہ تو میرا سیاسی بیان تھا۔ اس دھوکا دہی نے ڈبل شاہ کو ساری زندگی کےلیے پس زندان کردیا اور وہ ہمیشہ کےلیے فراڈ کی علامت بن کر رہ گیا مگر سیاست دان اپنے وعدوں یا اپنی باتوں سے مکر جائیں تو وہ پھر بھی صادق و امین ہی رہتے ہیں۔

دنیا بدل رہی ہے مگر گوئبلز کے اصول آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ کامیاب ہوتے ہیں، اگر یقین نہیں تو آج کل کی دنیا کے حالات ملاحظہ فرما لیجئے۔ جیسا کہ گوئبلز نے کہا تھا کہ اگر آپ ایک جھوٹ بولتے ہیں اور اسے ہی دہراتے چلے جاتے ہیں تو وہ سچ لگنے لگتا ہے اور جتنا بڑا جھوٹ ہوگا اتنا ہی جلدی وہ مقبول ہوگا۔ اس کی مثال موجودہ دور میں اس بات سے لی جاسکتی ہے کہ کسی بھی گھریلو استعمال کی چیز کا اشتہار بڑھا چڑھا کر بار بار اگر ٹی وی پر چلایا جائے تو ہر انسان اسے ایک مرتبہ ضرور خریدے گا اور اچھا نہ ہونے پر بھی پھر خریدے گا کیوں کہ اسے برا کوئی نہیں کہہ رہا اور اپنے شریکوں میں بھی ناک تھوڑی کٹانی ہے کہ اتنی مشہور چیز کا استعمال ہی نہیں کرپاتے۔ اور بڑے جھوٹ نے تو ملک کے منتخب وزیراعظم کو بھی نااہل کرا کے جیل بھجوادیا۔ یہ ہے جھوٹ کی طاقت۔ تو کچھ ایسا ہی ہماری سوچ کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے کیونکہ گوئبلز کا دوسرا اصول میڈیا کا کنٹرول ہے کہ میڈیا کو ایسا کی بورڈ بنا لو کہ اس پر وہی دھن ہی بج سکے جو آپ بجانا چاہتے ہوں۔ اسی لیے کبھی بھی آپ کو حکومتی میڈیا، حکومت مخالف بیان نہیں سنوائے گا، حکومت مخالف کام نہیں دکھائے گا اور حکومت کو فرشتہ ثابت کرنے کا پورا سامان سجائے رکھے گا۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ اور جرمنی کی یونیورٹی آف کونسٹنز کے محققین کی ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ وہ سیاست دان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کےلیے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے اوراس تحقیق کو سچ ثابت کرنے کےلیے ہمارے ایک مشیر کی مثال ہی کافی ہے، باقی آپ لوگ خود بھی سمجھدار ہیں۔

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ کبھی نہ کبھی ظاہر ہوکر رہتا ہے اور سچ اپنا آپ دکھاتا ہے۔ اس کا حل بھی گوئبلز بتا گیا کہ جھوٹ کو مضبوط بنانے کےلیے پروپیگنڈے کا ہتھیار استعمال کرو۔ پروپیگنڈہ کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ خاتمے کا ہتھیار ضرور ہے۔ اس لیے اگر جھوٹ پکڑا جائے تو گالم گلوچ سے اسے دباؤ اور پروپیگنڈہ سے پکڑنے والے پر ہی غلط خبر کا الزام لگا دو اور اپنے کی بورڈ (میڈیا) پر اپنی مرضی کی دھن بجا کر بھنگڑے ڈالو۔

جھوٹ کو مصنوعی پاؤں آدھے سچ سے لگائے جاتے ہیں، کیونکہ آدھا سچ مکمل جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور ہماری سیاست کی جنگ میں اس آدھے سچ کا استعمال بھرپور ملے گا۔ جیسے پٹرول کی قیمت پاکستان میں پورے خطے کے ملکوں سے کم ہے۔ معیشت ترقی کرے تو قرضے بڑھتے ہیں۔ پچیس ہزار ارب قرض نے ملک کا بچہ بچہ مقروض کر دیا تھا تو ہم نے قرض اتار کر چالیس ہزار ارب کردیا اور اب ملک کا بچہ بچہ خوشحال ہے۔ اقتدار میں ہر نیا آنے والا اپنے آپ کو صادق و امین اور قابل منوانے کےلیے اپنے سے پہلے والوں پر کرپشن، چوری اور نااہلی کا الزام ضرور لگاتا ہے اور دھوکا کھائے ہوئے عوام کو پھر سے دھوکا کھانے کے لیے تیار کرتا ہے۔ واہ واہ بھی سمیٹتا ہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتا ہے۔

سچ اور جھوٹ کا معرکہ ازل سے جاری ہے مگر اس میں سوشل میڈیا نے مزید اشتعال پیدا کردیا ہے۔ اب جھوٹ کو اپنی عیاری، مکاری، پردہ فاش، جیسے ہتھیار سے لیس ہوکر سچ کو دبانے کا موقع ملا ہے، کیونکہ سچ تو اٹل ہے اسے بناؤ سنگھار کی ضرورت نہیں، وہ تو دو ٹوک ہوتا ہے، اسے اپنے سچا ہونے کا بھرم ہوتا ہے۔ مگر جھوٹ کئی بہروپ بنا کر آپ تک پہنچتا ہے اور اسے پھیلانے والے ایسے چرب زبان ہوتے ہیں جو آپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کرکے اپنی بنائی جنت کی سیر کرا دیتے ہیں اور اپنی بات کو سچ ثابت کرکے آپ کو ہی اسے آگے پھیلانے کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں۔ جبکہ اس کے مدمقابل سچ اپنی پوری آب وتاب اور دلائل کے انبار کے ساتھ بھی رکھائی سے بیان کیا جاتا ہے اور ہم اسے سن کر بھی اَن سنا کرکے اگلے جھوٹ میں مگن ہوجاتے ہیں۔ سچ اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ کوئی تو روشن دل مجھے تلاش کرکے منظرعام پر لے ہی آئے گا اور جب تک ان روشن ضمیر اور حق و سچ کے جانبازوں کی اس دنیا میں موجودگی ہے سچ کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتا ہی رہے گا کہ بڑے بول اور حقیقی عمل میں جو فرق ہے وہ واضح ہو ہی جاتا ہے۔

موجودہ حکومت کی انتخابی مہم اور حکومتی کردار کا اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی باتوں سے دھول چھٹ جائے گی اور حقیقی پس منظر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگا۔ مگر مجھے پورا یقین ہے کہ اتنی تگ و دو کوئی نہیں کرے گا کیونکہ ہمیں مصالحے دار چیزیں پسند ہیں اور ہم خوش رنگ خوابوں میں رہ کر اپنی زندگی ختم کردینا پسند کرتے ہیں۔ ہم سہولت پسند ہیں، ہم ایک اشارے سے سارے کام سر انجام دینا چاہتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں ہم سب میں کہیں نہ کہیں حاکم بننے کی چنگاری چھپی ہوئی ہے اور جہاں تک ہوسکے ہم خود کو آرام دے کر دوسروں سے کام کرا کے خود کریڈٹ لے کر اس چنگاری کو جلا بخشتے ہیں۔ مگر اس سب سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے دوبارہ سے شروعات۔ اور اس شروعات کی ابتدا ایک ہی بات سے ہو کہ پورا سچ بولا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔