کنٹرول لائن پر تجارت بحال کرنے پر اتفاق !

ایڈیٹوریل  اتوار 2 فروری 2014
پاک بھارت کشیدگی کا جاری رہنا بعض نادیدہ عناصر کے مخصوص مقاصد کے مفاد میں ہے فوٹو اے ایف پی/فائل

پاک بھارت کشیدگی کا جاری رہنا بعض نادیدہ عناصر کے مخصوص مقاصد کے مفاد میں ہے فوٹو اے ایف پی/فائل

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک بات بڑے تسلسل سے دیکھی جا رہی ہے کہ جب بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر آنے لگتا ہے تو عین اس وقت کوئی منفی نوعیت کا واقعہ پیش آ جاتا ہے اور معاملہ پھر واپس ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر پہنچ جاتا ہے جیسا کہ کچھ عرصہ پیشتر کنٹرول لائن پر پیش آنے والے ایک مبینہ اسمگلنگ کے واقعہ نے بمشکل کھولے جانے والے دروازے پھر بند کرا دیے۔ تاہم اب میڈیا نے خبر دی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن کے آر پار تجارت بحال کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس بات میں اب کوئی شبہ باقی نہیں کہ پاک بھارت کشیدگی کا جاری رہنا بعض نادیدہ عناصر کے مخصوص مقاصد کے مفاد میں ہے لہذا وہ  ہر بار بساط پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کی ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کے مطابق ڈپٹی کمشنر پونچھ کی جانب سے انھیں تجارت کی بحالی کے حوالے سے ہدایات موصول ہو گئی ہیں جس کے بعد آج 3 فروری سے آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان تجارت بحال ہو جائے گی۔ کشمیری عوام کے درمیان چلائی جانے والی بس سروس پہلے ہی بحال کی جا چکی ہے۔ ادھر آزاد کشمیر میں ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کے سربراہ محمد اسماعیل نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ایلیانس فرانسوا پریس (اے ایف پی) کو بتایا کنٹرول لائن کے آر پار بس سروس دو ہفتے سے زیادہ عرصے تک معطل رہنے کے بعد اس ہفتے دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ دونوں ملکوں کے اعلیٰ افسران نے حال ہی میں ملاقات کی ہے اور پہلے مرحلے میں 3 فروری سے بس سروس دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تاہم انھوں نے کہا تجارت کی دوبارہ بحالی کا معاملہ ابھی پیچیدہ ہے۔ یاد رہے بھارت نے منشیات اسمگلنگ کا الزام عائد کر کے 18جنوری سے کنٹرول لائن کے آر پار سفر اور تجارت سمیت ہر قسم کی آمد و رفت معطل کر دی تھی۔ یہ انتقام در انتقام کی پالیسی بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان بلاوجہ مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔

اگر بھارت پاکستانی ماہی گیروں پر نادیدہ سمندری حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر انھیں پکڑ لیتا ہے تو فوراً ہی جوابی الزام میں سیکڑوں کی تعداد میں بھارتی مچھیروں کو دھر لیا جاتا ہے اور یوں دونوں کی طرف سے ان بیگناہ قیدیوں کی ’’بارٹر ٹریڈ‘‘ کے اصول پر رہائی عمل میں آتی ہے۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ناخوشگوار واقعات کی آڑ میں ایسے جذباتی اقدامات سے گریز کریں جو باہمی تعلقات کی معطلی کا باعث بن جائیں۔ سرحدوں پر ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ان کی تحقیقات بھی ہوتی رہتی ہیں لہذا جذباتیت کے بجائے عقلی انداز میں معاملات کو ہینڈل کیا جائے۔ بہرحال کنٹرول لائن پر تجارت بحال کرنے کا فیصلہ مثبت اقدام ہے‘ اب بھارت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ان افراد کو رہا کرے جو اس نے حراست میں لے رکھے ہیں اور یہی عمل پاکستان بھی دہرائے اور پھر مستقبل میں ناخوشگوار واقعات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت سے اس خطے میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ جائیں گی لیکن بڑا ملک ہونے کے ناتے بھارت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان وجہ تنازعہ بننے والے ایشوز پر بھی بامعنی اور نتیجہ خیز بات چیت کا آغاز کرے۔ جب تک کشمیر کا تنازعہ موجود ہے ‘دونوں ملکوں کے درمیان مستقل بنیادوں پر پائیدار تعلقات قائم ہونا انتہائی مشکل ہے۔ دونوں ملکوں کی قیادت تجارتی رابطے شروع کر چکی ہے۔ یہ ایک اچھی پیشرفت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کریں۔ اس مقصد کے لیے بھارت کی حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے۔ جامع مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے تو بہت سی غلط فہمیاں خود بخود ہی ختم ہو جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔