ذکر کچھ غیر مسلموں کو درپیش مسائل کا

مقتدا منصور  پير 3 فروری 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کمیشن پاکستان (HRCP) نے کراچی میں ایک دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ جس کا موضوع ’’پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا مقام: انھیں درپیش چیلنجز اور ردعمل‘‘ تھا۔ پاکستان کی معروضی سیاسی و سماجی صورتحال کے تناظر میں یہ ایک انتہائی حساس اور نازک موضوع ہے۔ لیکن جن حالات کا یہ ملک اس وقت شکار ہے، اس میں اس موضوع پر گفتگو وقت کی اہم ترین ضرورت بھی بن چکی ہے۔ کیونکہ جب ان مسائل کی نشاندہی کر کے گفت و شنید کا سلسلہ شروع نہیں کیا جاتا، جن سے آبادی کا ایک خاص طبقہ متاثر ہو رہا ہے، حالات میں بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس ورکشاپ میں بیرون ملک خاص طور پر انڈونیشیاء اور فلپائن سے آئے مندوبین کے علاوہ پاکستان اقلیتوں کے نمایندے بھی شریک تھے۔ اس ورکشاپ میں پاکستان میں آباد مختلف کمیونٹیز کو درپیش مسائل اور مشکلات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ دوسری طرف غیر ملکی مندوبین نے اپنے تجربات اور اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان کی متعلقہ حکومتوں اور سول سوسائٹی نے جو اقدام کیے ان پر گفتگو کی۔

ہندو کمیونٹی پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے  بڑی غیر مسلم آبادی ہے، جو1998ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا 1.86 فیصد (تقریباً 33 لاکھ) ہے۔ اس کمیونٹی کی اکثریت سندھ کے بعد بلوچستان میں آباد ہے۔ ہندو پاکستان میں مختلف نوعیت کی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کا پہلا مسئلہ ہندو پرسنل لا کی عدم موجود گی ہے۔ جس کی وجہ سے ان گنت مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اول، ہندو شادیاں اور طلاقیں رجسٹر نہیں ہو رہیں۔ دوئم، طلاق کی صورت میں بچوں کی سپردگی، نگہداشت اور وراثت جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ ہندو لڑکیوں اور جوان شادی شدہ خواتین کا تسلسل کے ساتھ اغوا ہے۔ اس عمل کی سرپرستی علاقے کے بااثر زمینداروں کے علاوہ بعض علماء بھی کر رہے ہیں۔ تیسرا شکوہ یہ تھا کہ بعض محکموں میں قابلیت اور اہلیت کے باوجود ہندو نوجوانوں کو ملازمت نہیں دی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اس ملک کے شہری ہیں اور میرٹ پر پورا اترتے ہیں، تو پھر ہمارے ساتھ اس قسم کا امتیاز کیوں برتا جاتا ہے۔ چوتھا مسئلہ کاروباری ہندوئوں کا اغواء برائے تاوان ہے۔ لاہور سے آئے سکھ مندوب کا کہنا تھا کہ گردوارہ کے ٹرسٹ میں غیر سکھ کو چیف ٹرسٹی بنایا گیا ۔

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے مندوبین کا کہنا تھا کہ ان کی کمیونٹی سب سے زیادہ ناانصافیوں کا شکار ہے۔ مسیحی کل آبادی کا 1.6 فیصد (تقریباً 28 لاکھ) کے قریب ہیں۔ ان کی آبادی کی اکثریت وسطی پنجاب کے چار اضلاع میں آباد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران توہین رسالت کے 90 فیصد مقدمات صرف ان کی کمیونٹی کے خلاف رجسٹر ہوئے ہیں۔ یہ زیادہ تر پنجاب کے ان اضلاع میں رجسٹر کرائے گئے ہیں، جہاں مسیحی کمیونٹی زمینداری سے وابستہ ہے۔ اس وقت بیشمار مسیحی نوجوان جیلوں میں بند ہیں۔ ان کا یہ بھی شکوہ تھا کہ غیر مسلم طالب علموں کو ہائی اسکول کی سطح تک اسلامیات پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلامیات کے متبادل کے طور پر اخلاقیات پڑھانے کی قانونی اجازت موجود ہے اور پورے ملک کے امتحانی بورڈ اخلاقیات کا پرچہ بھی تیار کرتے ہیں، مگر یہ سب دکھاوے کی باتیں ہیں۔ عامر محمود کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان میں ان کی کمیونٹی کی قربانیوں اور خدمات کو مکمل طور پر فراموش کر دیا گیا ہے۔ آج ملک کی سیاسی تاریخ سے سر ظفر اللہ چوہدری کا نام تک خارج کیا جا چکا ہے۔

انڈونیشیاء سے آئے احسان علی فوزی کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کی آبادی کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ مسلمان88 فیصد، ہندو 2 فیصد، مسیحی 8 فیصد (5فیصد پروٹسٹنٹ اور 3  فیصد رومن کیتھلک)، 2 فیصد میں دیگر مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔ انڈونیشیاء کے آئین میں تمام مذہبی کمیونٹیز کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں غیر مسلم صرف3 فیصد ہیں، جب کہ مسلمان کل آبادی کا 97 فیصد ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ غیر مسلم آبادی مسلمان اکثریت کے لیے کسی قسم کا خطرہ بن سکتی  ہے سوائے واہمہ کے کچھ اور نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں جو 3 فیصد غیر مسلم آبادی ہے، اس میں مختلف مذاہب کے ماننے والی دیگر کمیونٹیز شامل ہیں۔ یعنی 1.86 فیصد (تقریباً33لاکھ) ہندو،1.6 فیصد (تقریباً 28 لاکھ) کے قریب مسیحی ہیں۔ جب کہ20 ہزار کے قریب پارسی، 80 ہزار کے قریب بہائی اور لگ بھگ  40 لاکھ احمدی آباد ہیں۔ یہ ایک سماجی و نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو کمیونٹی اپنی آبادی کے لحاظ سے کم ہوتی ہے، وہ اپنی بقاء(Survival) کی خاطر زیادہ منظم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اکثریت پر قابو پانے جا رہی ہے۔ اگر پاکستان کے سیاسی و سماجی منظر نامہ کا مطالعہ کیا جائے تو اکثریت میں خوفزدگی کے ان رویوں کے پس پشت قوانین میں پائے جانے والے سقم اور ان کے نفاذ میں موجود بے قاعدگیاں نظر آئیں گی۔ اس کے علاوہ حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کے فقدان اور مناسب فیصلہ سازی میں عدم دلچسپی بھی نظر آئے گی۔

یہ طے ہے کہ اگر ملک 3 فیصد غیر مسلم آبادی کو مساوی حقوق دے دیے جائیں، تو اس سے نہ تو اکثریت کے حقوق پر ضرب پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی فیصلہ ساز حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ بات صرف وسیع القلبی اور ذہنی وسعت کی ہے۔ اگر علماء اور دانشور مسلمانوں کو اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک پر آمادہ کریں اور ریاستی مقتدر اعلیٰ ایسے قوانین مرتب کرے جن سے غیر مسلموں کو مساوی حقوق مل سکیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں حالات بہتری کی طرف نہ جا سکیں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کسی عقیدہ یا نظریہ کو پسند یا ناپسند کرنا ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کا اظہار اس طرح نہ کیا جائے کہ دوسرے کی دل آزاری کا پہلو نکلے۔ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرنا پاکستان کی مسلم اکثریت کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ جب کہ اپنے ملک کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ وطنِ عزیز کا کوئی بھی شہری، خواہ اس کا مذہب، مسلک یا فرقہ کچھ ہی کیوں نہ ہو کسی بھی مرحلے پر عدم تحفظ کا شکار نہ ہونے پائے۔ یہی اس ملک کی فلاح اور بہتری کا راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔