اتنی سی اوقات ہے

عابد محمود عزام  جمعـء 8 اکتوبر 2021
 انسانی مزاج میں تنوع موجود ہے یہ تنوع زندگی کا حسن ہے

انسانی مزاج میں تنوع موجود ہے یہ تنوع زندگی کا حسن ہے

انسانی مزاج میں تنوع موجود ہے ، یہ تنوع زندگی کا حسن ہے۔ مزاج کے اختلاف کے ساتھ کیفیات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ ہر انسان ہمیشہ ایک ہی کیفیت میں نہیں رہتا۔ ہم میں سے ہر ایک زندگی میں مختلف کیفیات و احساسات کا ضرور مزہ چکھتا ہے ، انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ حالات کے ساتھ سوچ بھی بدلتی رہتی ہے اور انسان خود بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

انسان کے دل و دماغ میں ان گنت خواہشات اور آرزوئیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے انسان بھرپور جدوجہد کرتا ہے۔ بعض خواہشات پایہ تکمیل کو پہنچ جاتی ہیں اور بعض آرزوئیں محض سراب ہوتی ہیں۔ خواہش اور آرزو انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ خواہش و آرزو کا ہونا اچھی بات ہے۔

ان کے ہونے سے زندگی میں حرارت پیدا ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات یہی خواہش اور آرزو ’’ ہوس ‘‘کا روپ دھار لیتی ہے اور ہوس دوسروں کا نقصان کرکے بھی پوری نہیں ہوتی۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی کنارہ اور کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ موت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔

ہوس ہر ناجائزطریقہ سے خواہش کی تکمیل کو زندگی کا مقصد بنا دیتی ہے۔ انسان کی آنکھوں پرپٹی باندھ کر اسے غلط و صحیح اور جائز و ناجائزکی تمیز سے محروم کردیتی ہے۔ جب انسان پر ہوس کا خبط سوار ہوتا ہے تو وہ اسے کامیاب زندگی سمجھتا ہے اور ایمانداری کی زندگی کو ناکام زندگی کہنے لگتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ ہوس نے اسے فریب میں مبتلا کردیا ہے اور وہ خود کو ہی دھوکا دے رہا ہے۔ جب ہوس بے لگام ہو جائے تو شہوت میں بدل جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو دولت کی شہوت ہوتی ہے، وہ سوتے جاگتے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور جمع کرنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔

اس کے لیے ہر غلط راستہ اختیار کرتے ہیں۔ دولت جمع کرنے کے لیے دھوکا، فریب، ڈاکا، چوری، رشوت، بدعنوانی، قتل تک سے گریز نہیں کرتے۔ یہ سب دولت کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ کچھ لوگوں کو شہرت کی ہوس ہوتی ہے۔ وہ شہرت حاصل کرنے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے سے بھی نہیں شرماتے، ان کے لیے شہرت حاصل کرنا ہی زندگی کا بڑا مقصد ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے اور ضمیر کو سلا دیتی ہے۔ جب انسان دن کے اجالے میں بھی حقیقت نہ دیکھ سکے اور اس کا ضمیر اسے سیدھا راستہ نہ دکھائے تو اس کا تباہی سے بچنا بہت مشکل ہے۔

دولت و شہرت کی چاہت بری بات نہیں ہے۔جائز اور درست طریقے سے ان کا مل جانا نعمت ہے۔ یہ بری تب ہوتی ہیں، جب ان کے مل جانے کی وجہ سے انسان متکبر ہوجائے ، وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے۔ لوگوں کو دولت و شہرت کے پیمانوں سے تولنے لگے۔ صرف ان لوگوں سے ملے جو دولت و شہرت میں اس کے برابر ہوں۔ اپنے سے نچلے لوگوں سے بات کرنا بھی اسے اپنی توہین محسوس ہو۔ آج کل ایسا ہی ہورہا ہے۔ بیشتر افراد کے مزاج ایسے ہی بن چکے ہیں۔ دولت آنے سے لوگ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ اپنے خونی رشتوں تک کو بھول جاتے ہیں۔

غریب رشتہ داروں سے تعلق رکھتے ہوئے انھیں شرم محسوس ہوتی ہے۔ جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے، لوگوں میں شہرت کی بھوک اور شہوت زیادہ ہوگئی ہے۔ لوگ ہر بات میں شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کسی غریب کی مدد بھی کرنی ہو تو سوشل میڈیا پر اس کا چرچا کیا جاتا ہے۔ اب تو عبادات بھی شہرت کی نذر ہوگئی ہیں۔ کسی کو سوشل میڈیا پر کچھ شہرت مل جائے تو وہ اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے غیر معروف دوستوں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے۔

بڑے فخر سے صرف ان لوگوں سے اپنا تعلق بتاتا ہے جن کا معاشرے میں کوئی بڑا مقام ہو۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ باقی لوگ اس کی بات ماننے کے پابند ہیں، جو اس کی بات نہیں مانتا، بلکہ آگے نہیں پھیلاتا اس سے قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔جب انسان دولت، شہرت اور قابلیت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت کے بجائے اپنے زور ِ بازو کا نتیجہ سمجھنے لگتا ہے تو شہرت، طاقت اور دولت میسر ہوجانے سے انسان متکبر بن جاتا ہے اور وہ غرور میں آکر لوگوں کو غیر اہم سمجھنے لگتا ہے۔ غرور انسان کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان غرور کی حالت میں اندھا ہو جاتا ہے۔

غرور کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ غرور انسان کو خیال اور وہم کی وادی میں گم کردیتا ہے۔ اس وادی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔انسان کو چاہیے کہ کائنات میں اپنی حیثیت کو ہمیشہ یاد رکھے۔ اپنے خالق کی مخلوق کے ساتھ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے۔ بلند مقامات صرف تواضع اور انکساری سے حاصل ہوتے ہیں۔غرور اور تکبر کے ہوتے ہوئے بلند مقامات حاصل کرنا انسان کے لیے بہت مشکل ہے۔ انسان غرور کس بات پر کرتا ہے۔ انسان مٹی سے بنا اور مٹی میں دفن ہوجاتا ہے۔ مرنے کے کچھ عرصے بعد اس کا وجود گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے۔

انسان کی زندگی صرف ایک پانی کا بلبلہ ہے، جو کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے۔ یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے۔اس چار دن کی زندگی کے لیے انسان کتنی جدوجہد کرتا ہے۔ جدوجہد کرنا برا نہیں ، بلکہ کامیابی کا راستہ ہے۔ برا تو یہ ہے کہ انسان چار دن کی زندگی کی خاطر اپنی ہمیشہ کی زندگی برباد کرتا ہے۔ اس زندگی کی کامیابی کے لیے دوسروں کو ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ دوسروں کا راستہ روکتا ہے۔

دنیا میں اپنی کامیابی کے لیے بہت سے غلط راستے اختیار کرتا ہے۔ وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتاکہ وہ اپنی کامیابی کے لیے کتنے لوگوں کا نقصان کررہا ہے۔ ناجائز طریقے سے عیش و عشرت کی ہر چیز جمع کرتا ہے، حالانکہ ایک دن اسے یہ سب کچھ چھوڑکر جانا ہے۔ دنیا میں مرنے تک ٹھہرنا ہے۔ جہا ں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے، اس کی فکر نہیں کرتا۔ کوئی انسان کسی بھی شعبے کا کتنا ہی بڑا ماہر ہو، اس کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اس کو بھی دنیا میں ایک محدود مدت ملتی ہے۔ بیشتر صورتوں میں انسان کا عروج بیس سے تیس سال تک محدود ہوتاہے۔

اس کے بعد دنیا آگے بڑھ جاتی ہے۔ انسان لنگڑاتا ہوا پیچھے رہ جاتا ہے۔ وہ اپنے ماضی میں اپنی طاقت کو سوچتاہے اور حال میں اپنی بے بسی کو دیکھتا ہے کہ کسی کے سہارے کے بغیر چلنا بھی مشکل ہے۔ انسان ایک حد تک بااختیار ہے۔ وہ اپنا بڑھاپا روک نہیں سکتا۔ وہ اپنی موت کو روک نہیں سکتا۔ وہ مرنا نہیں چاہتا، لیکن اسے ہر حال میں مرنا ہی ہوتا ہے۔

اتنی سی انسان کی اوقات ہے۔انسان کو ہمیشہ اپنی اوقات یاد رکھنی چاہیے۔وقت گزر جاتا ہے، لیکن حساب باقی رہتا ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں’’انسان بھی کیا چیزہے، دولت کمانے کے لیے اپنی صحت کھو دیتا ہے اور پھر صحت کو واپس پانے کے لیے اپنی دولت کو کھو دیتا ہے۔ مستقبل کو سوچ کر اپنا حال ضایع کرتا ہے پھر مستقبل میں اپنے ماضی کویادکرکے روتا ہے۔ جیتا ایسے ہے، جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مر ایسے جاتا ہے جیسے کبھی جیا ہی نہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔