ہر مذاق میں نصیحت ۔۔۔ ہر شگوفے میں کاٹ۔۔۔!

رضوان طاہر مبین  اتوار 10 اکتوبر 2021
تفریح کے ساتھ سماجی وثقافتی اصلاح کے باب میں بھی عمرشریف کے کردار کو ماپنا ضروری ہے!

تفریح کے ساتھ سماجی وثقافتی اصلاح کے باب میں بھی عمرشریف کے کردار کو ماپنا ضروری ہے!

ہمارا خیال ہے کہ ’اِبلاغ‘ (Communication) کے ’باب‘ میں ’زبان‘ کا حصہ بہ مشکل 20 سے 25 فی صد تک ہوتا ہے۔۔۔ باقی کا سب ’اِبلاغ‘ اشاروں، چہرے کے تاثرات اور دیگر جسمانی حرکات وسکنات، جنھیں عرف عام میں ’بدن بولی‘ کہتے ہیں، اس کے ذریعے انجام پاتا ہے۔۔۔ یہی نہیں اس میں ہماری ’حواسِ خمسہ‘ کو بھی بہت دوش ہوتا ہے۔۔۔

عام طور پر ہم دیکھ اور سن کر اِبلاغ کے عمل کو مکمل کرتے ہیں، لیکن اس میں کہیں سونگھنے، چکھنے اور محسوس کرنے کو بھی دخل ہوتا ہے۔۔۔ البتہ جب ہم ’منچ‘ پر پیش کیے جانے والے کسی بھی قسم کے پیغام کی بات کرتے ہیں، تو وہاں ہم زیادہ تر اپنے دیکھنے اور سننے کی حِس سے ہی ’اِبلاغ‘ کا عمل پورا کر رہے ہوتے ہیں، جس میں زبان اور حرکات وسکنات کے ساتھ ساتھ پس منظر، لباس، رکھ رکھاؤ اور ماحول وغیرہ کے ذریعے بھی اپنے مافی الضمیر کا تاثر مضبوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

الفاظ کے سوا اِبلاغ کے اس تنوع کو محسوس کرنا یا اسے استعمال کرنے کا فن بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔۔۔ بالخصوص جب آپ لوگوں کے سامنے کوئی فرضی چیز بنا کر پیش کر رہے ہیں، اور مختلف چیزوں کی مدد سے اس میں حقیقت کا رنگ بھر رہے ہیں جس میں آپ کے مختلف جملے، فقرے اور مکالموں کے ساتھ آپ کے تلفظ اور ادائی کے ساتھ آپ کا پورا وجود بھی اپنے آپ میں ایک اِبلاغ بن جاتا ہے۔۔۔ اور یہ فن جن کلا کاروں میں نمایاں رہا، ان میں بلاشبہ عمر شریف سرفہرست رہے ہیں، کہ جہاں وہ کوئی لفظ ذرا سا دبا کر کہیں، تو شائقین بے ساختہ ہنس پڑیں۔۔۔ اور اگر وہ کہیں ٹھیر جائیں، تو ان کے اس توقف کے معنی بہت تیزی سے دیکھنے اور سننے والوں کے دل میں اتر جائیں اور وہ اپنا کلیجہ تھام کر داد دینے پر مجبور ہو جائیں۔

اگر عمر شریف کی جانب سے اس فن کی ادائی کا جائزہ لیا جائے، تو ہم حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے کہ کس طرح انھوں نے ایسے ایسے سخت اور کاٹ دار کلمات کو ہنسی مذاق اور قہقہوں میں اڑا دیا کہ اگر سماج کا کوئی عام دانش ور، صحافی، مبلغ یا ’مصلح‘ کہے تو یہ اس کے لیے کوئی آسان بات نہیں لگتی۔

پھر عمر شریف کے اِس کردار کو بھی تو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے عوام کو اپنے مزاح کے درمیان بارہا کوئی نہ کوئی نصیحت اور سنجیدہ پیغام دینے کی بھی کوشش کی۔۔۔ انھوں نے جس وقت کام کرنا شروع کیا، تب ’اسٹیج‘ گویا معیار کے بحران سے دوچار ہونے لگا تھا۔۔۔ پھکڑ پن، لچر گفتگو اور بے ہودگی کو ’کام یابی‘ کا تیر بہ ہدف نسخہ سمجھ لیا گیا تھا۔۔۔

دوسری طرف تفریح کے نام پر مختلف دیگر ثقافتیں بھی ہمارے دروازے پر دستک دینے لگی تھیں، ایسے میں انھوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور گویا ان تمام محاذوں پر ثابت قدمی سے جم کر نہایت کام یابی سے اپنی اقدار اور رکھ رکھاؤ کا دفاع کیا۔ اُس وقت یہ بات تک کہی گئی کہ عمر شریف کے کام نے پاکستان میں ’ہندوستانی فلموں‘ کے بھاؤ گرا دیے ہیں۔۔۔ وہ اعلانیہ کہتے تھے کہ میں فحش مکالموں اور رقص کے بہ جائے محنت کر کے اپنا ’اسکرپٹ‘ لکھتا ہوں۔۔۔

دسمبر 2004ء میں ’شوکت خانم اسپتال‘ کے ’فلاحی پروگرام‘ کے لیے اداکار عامر خان پاکستان آئے، تو عمر شریف نے لاہور میں ان کے پروگرام کی میزبانی کی۔ عامر خان کے لمبے بال دیکھ کر انھوں نے کہا کہ ’’آپ اتنے اچھے لگ رہے ہیں کہ اگر ہیرو نہ آتے، تو ہیروئن بھی آ سکتے تھے۔۔۔!‘‘ عامر خان نے عمر شریف کے ڈرامے ’بکرا قسطوں پر‘ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس ڈرامے کے ذریعے ہی عمر شریف سے متعارف ہوئے۔

٭ گنگا جمنی تہذیب کی ’کراچوی سنگت‘

ہم دیکھتے ہیں کہ عمر شریف اپنے پروگراموں میں کہیں پروفیسر نظامی، کہیں ملازم شرفو، شبراتی یا بلگرامی کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔۔۔ تو کہیں اپنی صداؤں میں بھائی نواب، بڑے بابو اور آپا چینا جیسی روایتی عرفیتوں کو امر کر رہے ہیں۔ کبھی ان کے ہاں دوپلی ٹوپی اور کُرتے پاجاموں کا جلوہ ہے، تو کبھی انھوں نے سر پر جناح کیپ سجائی ہوئی ہے اور کہیں کہیں پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی بہار دکھا رہی ہے۔۔۔ شگوفوں کے سنگ ’آداب عرض‘ کرنے کی ادا بھی ناظرین کا دل لبھاتی ہے۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جب مغربی تہذیب سب کچھ تہ وہ بالا کر رہی تھی۔

وہ نہ صرف روایتی مشرقی اقدار کا عَلم بلند کیے ہوئے تھے، بلکہ ’کراچوی‘ بولی ٹھولی کا دیپ بھی روشن کیے بیٹھے تھے۔۔۔ ان کے پرلطف فقروں میں ’آ ریا ہوں‘، جا ریا ہوں، کہہ ریا ہوں، بتا ریا ہوںِ، طرز کے بے ساختہ عوامی لب ولہجے کانوں میں رس گھولتے ہیں، تو کہیں وہ ’پھڈا‘ بہ زبان ’فڈا‘ ادا کرتے، کہیں انگریزی لفظوں کو عوامی رنگ دیتے ہوئے ششٹم (سسٹم)، کارَڈ، الاؤنسر (اناؤنسر) اور ڈلیور (ڈرائیور) کہتے۔۔۔ عام بول چال کے الفاظ پنگا، تپنا، بِِھنّوٹ اور پھوکٹ وغیرہ کی بازگشت بھی خوب رہتی۔۔۔ کہیں ’یہاں کُو، وہاں کُو، آپ کے کنے۔ ’بلوہ کاہے میں ہو ریا ہے‘ جیسے فقروں کی چاشنی بھی ملتی۔ ’’عالی جاہ‘‘ اور ’’ظلِ سبحانی‘‘ کے تاریخی انداز تخاطب کے ساتھ ان کا یہ ٹکڑا لگانا ’’اگلے مہینے کی تنخواہ پاؤں، تو کچھ عرض کروں!‘‘ سامعین کو بہت عرصے تک یاد رہے گا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر معین اختر اور عمر شریف نہ ہوتے، تو نہ صرف شہرِقائد کے بہت سے مصائب کو زبان نہ ملتی، بلکہ زبان وبیان اور کراچی میں گنگا جمنی اور دیگر لوگوں کے تال میل سے نمو پانے والی اردو کے شیریں لہجے اور روزمرے میں عوامی شگفتگی کا ایک بہت بڑا خلا باقی رہ جاتا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ اردو دنیا ’لالو کھیت‘ اور کورنگی ولانڈھی کے مخصوص لب ولہجے اور منفرد نشست وبرخاست کا صحیح معنوں میں لطف ہی نہ لے پاتی۔ اگرچہ ان سے پہلے اس حوالے سے معین اختر اور انور مقصود حالات حاضرہ پر اپنے اپنے انداز میں طنز ومزاح کی چٹکیاں لے رہے تھے، لیکن عمر شریف نے جس طرح سے کراچی کی عوامی بیٹھکوں کی زبان کو ایک اعتبار اور ’سند‘ عطا کی، ہمارے خیال میں ’اردو لسانیات‘ میں اس کی باقاعدہ پیمائش اور تعین کیا جانا چاہیے۔

٭ ’’ہاں، ہاں میں ہاتھی ہوں۔۔۔!‘‘

عمر شریف نے کئی جگہوں پر پولیس افسر کا روپ دھار کر جہاں اس محکمے پر تنقید کی، وہاں ان کے مسائل کو بھی بہت اچھی طرح اجاگر کیا، جب ان سے کہا گیا کہ ’آخر ہماری پولیس جائے واردات پر اتنی دیر سے کیوں پہنچتی ہے۔۔۔؟‘ تو انھوں نے بے ساختہ کہا کہ ’کیا واردات سے پہلے پہنچ جائیں۔۔۔؟‘ ہمیں جو گاڑیاں دی گئی ہیں، ان کی حالت دیکھیے، تھرڈ گیئر لگاؤ، تو انجن پیچھے چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس جو اسلحہ ہے، وہ کسی کو دکھانے جیسا نہیں ہے، گولی چلاؤ، تو پانچ منٹ بعد سپاہی کو آکر لگتی ہے، ٹھاہ۔۔۔!‘ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے پولیس کی تفتیش پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک مرتبہ دنیا بھر کی پولیس جنگل میں گُم ہو جانے والے ہاتھی کو تلاش کرنے میں ناکام ہوگئی، لیکن پھر ہماری پولیس گئی اور جنگل سے ایک ہرن کو پکڑ کر لے آئی، جو یہ کہہ رہا تھا کہ ’’ہاں، ہاں میں ہاتھی ہوں۔۔۔!‘‘

٭ اکبر بادشاہ کی پاکستان آمد

عمر شریف نے اپنے طنزومزاح سے آراستہ ایک تصوارتی کھیل بھی پیش کیا، جس میں مغل بادشاہ اکبر کا دور اس پاکستان میں واپس آجاتا ہے اور پھر وہ پاکستان کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس میں پاکستان کے قیام، یہاں کے رکھ رکھاؤ، زبان وبیان کے ساتھ سب سے زیادہ جس چیز پر توجہ دلائی گئی، وہ مختلف چیزوں کے ساتھ شاہی اور مغل کا ’سابقہ‘ لگانا تھا، جیسے شاہی حلیم، شاہی مرغ چھولے، مغلیہ پلاؤ اور شاہی ٹکڑے وغیرہ۔ پھر ان چیزوں کے مقام اور مرتبے کے حوالے سے شاہی دربار کے تاثرات کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی تھی۔۔۔

جس میں مغل بادشاہ دل چسپی سے پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عالمِ برزخ میں انھیں یہاں کے کچھ لوگ ملے تھے۔۔۔! عمر شریف عام شہری کا روپ دھارے ہوئے ایک کردار سے شاہانہ انداز میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کرتے ہیںکہ ’’حیرت انگیز بات ہے، تم مسلمان ہو، لیکن تمھارے چہرے پر نور نہیں ہے، تم اپنے ’نور‘ کی حفاظت نہیں کر سکے۔۔۔؟ کیوں۔۔۔؟‘‘ تو وہ کہتا ہے کہ ’’حفاظت تو ہم اپنے پاکستان کی بھی نہیں کر سکے۔۔۔!‘‘ جس پر عمر شریف اُسے سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اوہ۔۔۔، تو تم طنزیہ گفتگو بھی کرتے ہو۔۔۔!‘ پھر کہتے ہیں کہ ’’تمھارا ’بابا‘ جب تمھارے لیے ایک ملک بنا کر گیا ہے، تو تمھیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے!‘‘

٭ راستے میں ’لالو کھیت‘ پڑتا ہے، اس لیے۔۔۔

عمر شریف ایک پروگرام میں بطور نئے ’ایس ایچ او‘ اپنے تھانے پہنچتے ہیں، تو وہاں موجود پولیس اہل کار انھیں تنگ کرنے لگتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’تمھیں شرم نہیں آتی، اپنے نئے آنے والے ’ایس ایچ او‘ کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو۔۔۔؟‘ اہل کار کہتے ہیں، اگر تم ’ایس ایچ او‘ ہو تو وردی کدھر ہے۔۔۔؟ جس پر عمر شریف سخت برہمی سے لام، کاف کرتے ہوئے پولیس کی وردی کے اوپر پہنا ہوا جُبہ اتارتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ’’راستے میں لالو کھیت پڑتا ہے، اس طرح گزرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔!‘‘ صرف یہی نہیں لالو کھیت اس کے علاوہ بھی عمر شریف کے ڈراموں کا ایک لازمی سا جزو رہا ہے۔ انھوں نے لالو کھیت کے لوگوں کے مسائل اور ان کی مخصوص زندہ دلی اور ایک خاص طرح کے ’جی داری‘ کو کھل کر اپنے فقروں اور مکالموں کی زینت بنایا۔ پھر لالو کھیت کے اِس رنگ کی مقبولیت کا یہ عالم ہوا کہ انھی کے ایک معروف ساتھی سلیم آفریدی نے ’’السلام علیکم لالوکھیت‘‘ کے عنوان سے بیسیوں آڈیو کیسٹ بھی نکالیں۔

٭ ’’اگر مجرم نہیں ہوں گے، تو پھر پولیس کیسے ہوگی!‘‘

’ایس ایچ او‘ کے روپ میں جب عمر شریف نئے تھانے پہنچتے ہیں اور خالی ’لاک اپ‘ دیکھ کر استفسار کرتے ہیں کہ ’یہ علاقہ خالی کیوں ہے بھئی؟‘ جواب ملتا ہے کہ یہ ہماری شان ہے، عزت ہے۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ کوئی عزت نہیں ہے، تم یہ چاہتے ہو کہ اوپر والوں کو پتا چل جائے کہ مجرم نہیں ہیں، جرائم ختم ہوگئے ہیں، تھانے خالی ہو گئے ہیں۔۔۔ تم ہماری نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو۔۔۔!‘ پھر وہ اپنا یہ یادگار فقرہ کہتے ہیں کہ ’’اگر مجرم نہیں ہوں گے، تو پھر پولیس کیسے ہوگی!‘‘ وہ اپنے ہی ایک اہل کار کو اندر ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک یہ ’علاقہ‘ خالی ہے تم اندر بیٹھو۔ مجھے ’خالی علاقے‘ میں اچھا نہیں لگتا۔ اس کے بعد وہ اپنے علاقے کے حوالے سے باری باری سارے انتظام وانصرام کا پوچھتے ہیں، سب کا جواب ملتا ہے کہ ’’ٹھیک ہے‘‘ تو وہ کہتے ہیں ، یہ سب خراب کرنا ہے، ورنہ لوگوں کو میرے آنے کا پتا کیسے چلے گا۔۔۔؟ یہ سب تو کرنا پڑے گا۔

٭ پُر مقصد اور ’سنجیدہ مزاح‘ کے کچھ یادگار کلمات

عمر شریف کے ایک پروگرام میں ولی شیخ کہتے ہیں کہ میں امریکا سے آیا ہوں، امریکا۔۔۔! تو عمر شریف کہتے ہیں کہ ’’امریکا سے ہمیشہ کوئی صلاح آتی ہے، امداد آتی ہے، یہ پہلی بار ہے کہ انھوں نے کوئی آدمی یہاں بھیجا ہے۔‘‘ ایک جگہ بطور گھریلو ملازم وہ سماج کی عدم مساوات پر بہت خوب صورتی سی ’یہ جمہوریت نہیں ہے، کی تکرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں ابھی جلسے میں سن کر آرہا ہوں، لیڈر کہہ رہا تھا، جمہوریت ہے، اس میں کوئی چھوٹا کوئی بڑا نہیں ہوتا، سب برابر ہوتے ہیں، لیکن یہ جو تم کر رہے ہو، یہ جمہوریت نہیں ہے، بتا ریا ہوں میں۔۔۔‘‘ ایسے ہی ایک اور ’منچ‘ پر عمر شریف بتا رہے تھے کہ ہمیں مکان نہیں مل رہا تھا، تو پھر ہم سب اہل خانہ محلے کی مختلف مسجدوں میں ٹھیر گئے، ابا بھی ایک نزدیکی مسجد میں جا ٹھیرے۔۔۔ بہت دن گزر گئے، مسئلہ تو تب ہوا کہ جب امام صاحب نے ابا کا ذکر خطبے میں کر دیا کہ ’’شیطان ہم میں ہی موجود ہے۔۔۔!‘‘

عمر شریف کے دیگر قابل ذکر جملوں میں دیکھیے تو ’’غریب آدمی کچھ نہیں کر سکتا، سوچ تو سکتا ہے، سوچنے پر دنیا کا کوئی قانون نہیں پکڑ سکتا۔‘‘ ’’ملازم ہیں، کسی کے باپ کے نوکر نہیں ہیں۔۔۔!‘‘ ’’زبان نہ ہوتی، تو ہم آپس میں جڑے ہوئے ہوتے، ہمارے کبھی جھگڑے نہ ہوتے، کاش ہماری ایک زبان ہوتی!‘‘ ’’اگر ہمارے ہاتھ نہ ہوتے، تو آج ہم یوں دربدر، لوگوں سے قرضے نہیں مانگ رہے ہوتے۔‘‘ ایک جگہ وہ رنگا رنگ سیاسی پرچموں کا تذکرہ کیے بغیر براہ راست قومی پرچم کی تنہائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے پاکستان کا جھنڈا ملا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ’’مجھے تنہائی رلا رہی ہے!‘‘

ایک جگہ وہ مذاق مذاق میں ’طلاق‘ کے حوالے سے بھی لوگوں کو سنجیدہ نصیحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’’آپ لوگوں نے مذاق سمجھا ہوا ہے لفظ طلاق۔۔۔!‘‘ پھر گویا ہوتے ہیں کہ ’’میاں بیوی گاڑی کے دوپہیے ہیں اور بچے اس گاڑی کے مسافر ہیں، اگر گاڑی کا ایک بھی پہیا ٹوٹ جائے گا، تو گاڑی رک جائے گی، اور مسافر اپنی منزلوں تک نہیں پہنچ پائیں گے، اس لیے ہمیں گاڑی کو روکنا نہیں ہے، چلتا رکھنا ہے، تاکہ وہ اپنے مقام تک پہنچیں۔۔۔!‘‘

معیاری طنز ومزاح اور تفریح کے ساتھ سماجی وثقافتی اصلاح کے حوالے سے عمر شریف کے اس کردار کو دنیا بھر میں اردو سمجھنے والے شائقین تادیر یاد رکھیں گے۔۔۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔