بُک شیلف

عبید اللہ عابد / شہباز انور خان  اتوار 10 اکتوبر 2021
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

معجزات رسول ﷺ
مرتب : عباس اختر اعوان ، ہدیہ :400 روپے
ناشر : مکتبہ خواتین میگزین منصورہ ملتان روڈ لاہور
رابطہ :03214708024


ایک دفعہ جب مدینہ طیبہ قحط کی لپیٹ میں تھا اور آپ ﷺ مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اسی اثنا میں ایک بدو اٹھا اور گویا ہوا:

’’ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے مویشی ہلاک ہو رہے ہیں اور بال بچے بھوکے مر رہے ہیں۔ ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش کی صورت میں رحمت نازل فرمائے۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فوراً ہاتھ اٹھا دیے۔ اس وقت آسمان پر دور دور تک بادل کا نام و نشان نہ تھا۔ لیکن ابھی حضور ﷺ نے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ بادل آگئے اور ابھی حضور ﷺ منبر سے نیچے نہ اترے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ خود حضور ﷺ کے بال بھی بھیگ گئے اور آپ ﷺ کی ریش مبارک سے بھی قطرے گرنے لگے۔ یہ بارش پورا ہفتہ جاری رہی۔

اگلے جمعہ کو دوران خطبہ وہی بدو پھر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا :

’’ اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے مکان گر چکے ہیں اور مال مویشی غرق ہو رہے ہیں، ہمارے لئے دعا فرمائیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے پھر دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! اس بارش کو ارد گرد برسا اور ہم پر نہ برسا۔‘‘

اس کے بعد حضور ﷺ جدھر اشارہ کرتے ، بادل ادھر کو ہی دور دور چلا جاتا حتیٰ کہ مدینہ کے چاروں طرف بادل بارش برسا رہے تھے مگر مدینہ بارش سے محفوظ تھا۔ ( بخاری )

یہ ان معجزات میں سے ایک ہے جو زیر نظر کتاب میں شامل ہے۔ مرتب نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ تمام معجزات رسول ﷺ ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں۔ یہ تمام معجزات ایمان تازہ کرتے ہیں اور انسان کو غور و فکر کے اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ لے کر جانا چاہتے ہیں ۔ ربیع الاول میں اس کتاب کا نہ صرف خود مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ اوروں کو بھی مطالعہ کی طرف راغب کرنا چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ محبت رسول ﷺ سے سرشار رہے ۔

مشاہدہ حق کی گفتگو
مصنف : پروفیسر محمد منور، قیمت: 700 روپے
ناشر: قلم فائونڈیشن، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101


پاکستان میں سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والوں میں جنرل محمد ضیا الحق پہلے نمبر پر ہیں ۔ دوسرا اور تیسرا نمبر بھی فوجی حکمرانوں ہی کو نصیب ہوا ۔ ہمارے یہاں بہت کم لوگ ہیں جو فوجی حکمرانی کو بلاتفریق ناجائز سمجھتے ہیں، اور جو سمجھتے ہیں، ان میں بھی ایک بڑی تعداد کسی ایک جرنیل کی حکمرانی کو تسلیم کر لیتی ہے اور دوسرے کو جمہوریت کا قاتل سمجھتی ہے ۔ معاشرے میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو سویلین اور فوجی حکمرانوں کے بجائے اچھے اور برے حکمرانوں کے عنوانات سے فہرست ترتیب دیتے ہیں ۔ پروفیسر مرزا محمد منور بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں ۔

لوگ تو حکمرانوں کے قریب ہونے کے کوشش کرتے ہیں لیکن مرزا صاحب کو امتیاز حاصل تھا ، وہ جنرل ضیا الحق سے دور رہ کر مشاہدہ کرتے رہے۔ لوگ تو حکمرانوں سے مفادات سمیٹتے ہیں لیکن مرزا محمد منور ساری عمر لاہور کے ایک خستہ حال علاقے کی ایک بند گلی میں ہی رہے۔ وہ اپنے خستہ مکان سے نکلنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ اس تناظر میں ایسے فرد کے مشاہدے کو کسی میلی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

زیر نظر کتاب میں جنرل ضیا الحق کی حیات ، سیاست اور خدمات کی بابت مرزا صاحب کے چار مفصل مضامین ہیں: ’ مشاہدہ حق کی گفتگو ‘ ، ’ تاریخ اسلام کا قابل فخر حکمران ‘ ، ’ دور ضیا اور دور مابعد ‘ ، ’ شہید ضیا الحق کی ہمہ جہتی جدوجہد کا جائزہ ‘۔ کتاب میں میاں طفیل محمد ( سابق امیر جماعت اسلامی ) ، زیڈ اے سلہری ، محمد صلاح الدین ، سید یوسف عرفان ، برزنسکی اور فریڈ بارنس کے مضامین بھی ہیں جنھیں ضمیمہ جات کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جنرل ضیا الحق اور پاکستان کی تاریخ پر یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ خوبصورت سرورق ، دیدہ زیب طباعت کے ساتھ عمدہ کاغذ پر کتاب کو اس کے شایان شان شائع کیا گیا ہے۔

نور اللہ ( اسلامی تاریخی ناول )
مصنف : ڈاکٹر نجیب گیلانی ، ترجمہ : ڈاکٹر میمونہ حمزہ
ناشر: مکتبہ خواتین میگزین منصورہ ملتان روڈ لاہور، رابطہ: 03214708024


زیر نظر ناول دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصے رسول اکرم ﷺ کے دور ہی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخی ناول کسی دوسرے عہد کا ہو تو ایک مسلمان ناول نگار بھی نسبتاً آزادی محسوس کرتا ہے لیکن جب عنوان ہو عہد نبوی ﷺ تو پھر زیادہ آزادی سے نہیں لکھ سکتا۔ ڈاکٹر نجیب گیلانی نے بہرحال اس چیلنج کو قبول کیا اور بخوبی یہ ذمہ داری ادا کی۔ یہ داستان صبح اسلام کی ہے جب زمانہ خیر و شر کے معرکوں اور عزم و ہمت کی داستانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے کفار و مشرکین اور یہود و منافقین کی سازشوں اور حق کو دبانے کے لئے کی جانے والی کوششوں کا علم بھی بخوبی ہوتا ہے۔ انھوں نے اس کے مقابلے میں عصر نبویﷺ کے زندہ کرداروں کو بھی پیش کیا ۔

ڈاکٹر نجیب سے پہلے جرجی زیدان کے اسلامی تاریخی ناولوں کا عرب میں شہرہ تھا۔ اس نے80 سے زائد ناول لکھے۔ چونکہ وہ عیسائی مصنف تھا اس لئے نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ مسلمان کرداروں کا حق ادا نہ کر سکا۔ حالانکہ اس کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس نے تعصب سے بھی کام لیا ۔ اسی ماحول میں ڈاکٹر نجیب گیلانی نے بیڑہ اٹھایا عہد نبوت کو بیان کرنے والے ایک ایسے ناول کا جس میں ہر کردار کو ویسا ہی پیش کیا جائے جیسا کہ وہ تھا۔ نوبل انعام یافتہ اشتراکی مصری ناول نگار نجیب محفوظ نے نجیب الگیلانی کو ’’ اسلامی ادب کا نظریہ ساز ‘‘ قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے ان کے عربی ناولوں کو اردو کے قالب میں ایسے ڈھالا کہ پڑھنے والا جہاں کہانی سے مزہ لیتا ہے، وہاں اس کی ادبی چاشنی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ ناول جہاں اپنی تاریخ سے واقفیت بڑھاتا ہے، وہیں شخصیت سازی اور کردار سازی کا بہترین کردار بھی ادا کرتا ہے۔اس اعتبار سے ہر گھرانے میں ’ نوراللہ ‘ کا ہونا ضروری ہے تاکہ نئی نسل ایسے ہی ادب کے سائے میں پروان چڑھے۔ ناول کے ہر حصے کی قیمت 350 روپے ہے۔

چاند کو گل کریں تو ہم جانیں (ناول)
مصنف : اسامہ صدیق ، مترجم : عاصم بخشی ، قیمت : 1200 روپے
ناشر : بک کارنر، جہم ، رابطہ : (واٹس ایپ) 03215440882


شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں کہ اس ناول نے میرے اندر عجیب و غریب کیفیات برپا کیں ۔ مستنصر حسین تارڑ نے لکھا:’’جیسے کچھ مہم جو گہرے غاروں کی تاریکی میں اتر جاتے ہیں اور نئی دنیائیں دریافت کرتے ہیں، ایسے ہی اسامہ اپنے تخیل کے سہارے مستقبل کے اجنبی اور نادریافت غاروں میں اترا ہے اور ان دیکھی دنیائوں کے باشندوں کو اپنے زور قلم سے زندہ کر دیا ہے‘‘۔

اسامہ صدیق کی لکھی کہانی شروع ہوتی ہے2084 قبل از مسیح سے اور ختم ہوتی ہے 2084 بعد از مسیح پر۔اس قدر طویل دور کی کہانی بیان کرنا واقعتاً دودھ کی نہر بہانے جیسا ہے۔کیا کوئی کر سکتا ہے ایسا؟ اسامہ صدیق نے کر دکھایا ہے۔

کہانی برصغیر ہی میں سفر کرتی ہے۔آغاز تب ہوا جب دریائے سندھ کے کنارے موہنجو داڑو کے عظیم شہر میں ’ پرکا ‘ نامی ایک نوجوان پروہتوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر سخت فکر مند رہتا ہے اور اپنی محبوبہ ستھوئی کی بے اعتنائی پر بھی۔ پھر کہانی 455ء سے گزرتی ہے ، جب ٹکشا سیلا کی مشہور زمانہ درس گاہ میں بدھ مترا نامی بھکشو سخت آزردہ ہے کہ اس کے ساتھی گوتم بدھ کے پیغام رحم دلی کو بھول چکے ہیں۔

اسی دوران ایک بھیانک خطرہ تیزی سے ان کی طرف گامزن ہے۔کہانی 1620ء میں پہنچتی ہے جب مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں دو آوارہ گرد قسمت کے دھنی اس کوشش میں ہیں کہ طبقہ امرا کو دھوکہ دہی کے ذریعے لوٹیں کھسوٹیں لیکن بات بن ہی نہیں رہی۔ معاملہ تو بگڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پھر1857ء کا مقام آتا ہے جب میر صاحب داستان گو انسانی فریب کاری کا قریبی مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے ہم وطنوں کو خبردار کرنے کی مہم پر نکلے ہیں۔ اسی دوران ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد قوت پکڑ رہی ہے۔

ایک مرحلہ 2009ء کا بھی آتا ہے کہ دور حاضر کے لاہور میں ایک غریب بیوہ رفیعہ بیگم انصاف کے حصول کی تلاش میں قانونی بھول بھلیوں اور مکار نوسربازوں سے بچتی پھر رہی ہے۔ ادھر پولیس سے مفرور اشتہاری بلا سینٹی اپنی حیران کن زندگی کا جائزہ لیتا ہے۔ بالآخر کہانی 2084ء پر جاکر یوں ختم ہوتی ہے کہ ایک زیر عتاب دانشور اس تحقیق میں غرق ہے کہ وہ کیا قیامت خیز واقعات تھے جن کی بدولت دنیا اب پانی کے ذخائر پر مسلسل جنگیں لڑ رہی ہے اور انسانیت دو بالکل مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے۔

یہ ناول کئی ادوار پر محیط اور کئی تہذیبوں کے حالات و واقعات سے بھرپور ہے، اس ایک کہانی میں بہت سے ایسے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو مذہب اور اختیار کے نام پر معاشرتی تسلط پر سوال اٹھاتے ہیں اور حق اختلاف رائے کے علم بردار ہیں ۔ بنیادی طور پر ناول انگریزی زبان میں لکھا گیا ۔ مصنف معلم ، محقق، قانون دان اور پالیسی امور کے ماہر بھی ہیں ۔ لاہور کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور Rhodes Scholar حاصل کی۔ بعدازں ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔

جیسے یہ کہانی لکھنا ناول نگار کے لئے ایک اچھوتا تجربہ رہا، ویسا ہی تجربہ پڑھنے والوں کو بھی ہوگا ۔ وہ اس انوکھے ناول کو پڑھ کر مدتوں سرشار رہیں گے۔

اَن کہی (انٹرویوز)
مصنف : عبدالحفیظ ظفر، صفحات: 248، قیمت : 600/ روپے
ناشر : سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ ، لاہور(042-37355323)

عبدالحفیظ ظفرکہنہ مشق صحافی ہیں جو ملک کے انگریزی اور اردو اخبارات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور ان دنوں بھی ایک اردو روزنامہ سے وابستہ ہیں ۔ عبدالحفیظ ظفر محض صحافی نہیں ادیب اور شاعر بھی ہیں ۔ ان کے قلم میں سلاست و روانی بھی ہے اور برجستگی بھی ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اَن کہی‘‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کے انتڑویوز پر مشتمل ہے جو انہوں نے اپنے اخبار کے لیے کیے۔ ان شخصیات میں سیاست دان بھی ہیں ۔

ادیب و نقاد بھی، شاعر بھی ہیں جرنیل بھی ، شوبز سے تعلق رکھنے والے فنکار بھی اور کھلاڑی بھی۔ ان متنوع شخصیات کی وجہ سے اس کتاب کے قاری کا کینوس بھی وسیع ہوگیا ہے ۔ گویا ہر ذوق کے قاری کے لیے دلچسپی کا سامان اس کتاب میں موجود ہے۔ جن اہم شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں ان میں ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر یونس جاوید، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اصغر ندیم سید، یاسمین حمید، جیسے ادیب اور نقاد، اسلم گورداسپوری، احسان وائیں، محمود الرشید جیسے سیاستدان، محمد قوی خان، مصطفی قریشی، عثمان پیرزادہ، فردوس جمال، حسن عسکری، محمد پرویز کلیم،علی اعجاز، قبال کشمیری، بہار بیگم اور اے نیر جیسی شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات، سلیم الطاف جیسے کھلاڑی اور جنرل ( ر) فیض علی چشتی جیسے جرنیل قابل ِ ذکر ہیں ۔

ان انٹرویوز کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ انٹرویور نے ہر انٹرویو سے قبل متعلقہ شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور پھر وہ وہ سوالات کیے جو عمومی طور پر ایسی شخصیت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن لوگ ان کی ناراضی کے خوف میں پوچھنے سے گریز کرتے ہیں ۔ یوں یہ انٹرویوز متعلقہ شخصیت کی زندگی اور کام کے بارے میں پوری معلومات کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ کتاب کا سر ورق معروف آرٹسٹ ریاظ کے موئے قلم کا شاہکار ہے اور کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں دو سینئر صحافیوں طیبہ بخاری اور خالد وحید کی آراٗ بھی شامل ہیں ۔کتاب کو سانجھ پبلی کیشنز کے ڈائریکٹر امجد سلیم منہاس نے بڑے اہتمام کے ساتھ خوب صور ت گٹ اپ میں شائع کیا ہے۔

جو پیچھے رہ گئے
مصنفہ : زبیدہ رئوف، قیمت :800 روپے


یہ کتاب لکھی نہ جاتی ، اگر ایک عام سے دن ایک چھوٹا سا واقعہ نہ پیش آتا ۔ تھامس پارک ( ٹورنٹو،کینیڈا ) میں ایک تنظیم کی سالانہ پکنک تھی، جہاں بچے چاروں طرف بھاگ رہے تھے۔ مصنفہ پھل کاٹنے والے گروہ کے ساتھ کٹائی میں مصروف تھیں ۔ اسی اثنا میں انھیں ایک بچے کے تسمے کھلے نظر آئے، انھوں نے ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکی سے کہا : بیٹا! اس بچے کے تسمے باندھ دو،کہیں گر نہ جائے ۔

کافی کوشش کے باوجود وہ بچی تسمے نہ باندھ سکی، وہ نروس اور پریشان لگ رہی تھی۔ ساتھی کارکن نے کہا کہ پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ تسمے نہیں باندھ سکے گی۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ اس بچی اس کی سہیلی کی بیٹی ہے ، ماں نے اس سے کبھی کوئی کام نہیں کروایا، اگر کوئی بچی سے کام کروانے کو کہے تو ماں کہتی ہے کہ ’’ اسے سمجھ نہیں آتی ‘‘ یا ’’ یہ کر نہیں سکتی ‘‘۔کوئی ماں سے اس کی بچی کے متعلق بات کرنا چاہے تو وہ بات کرنا بھی پسند نہیںکرتی ۔ اسی سبب کئی لوگ اس سے دوستی ختم کر چکے ہیں ۔ تاہم مصنفہ بچی کی ماں سے ملیں ، وہ مضطرب نظر آئی لیکن مصنفہ سے گفتگو کے بعد انھیں روشنی کی ایک نہیں ، کئی کرنیں نظر آئیں۔

زیر نظر کتاب کی تخلیق اسی فیصلے کے بطن سے ہوئی۔ اردو میں اس موضوع پر کتابیں نہیں لکھی گئیں۔کتاب میں مصنفہ نے پوری کوشش کی ہے کہ والدین کو مایوسی سے نکال کر مثبت پہلو دکھائے جائیں۔ انھوں نے ذہنی مریض بچوں کی سرگرمیوں پر بات کی ، بعض ذہنی اور جسمانی معذور لوگوں کی کہانیاں بیان کیں ۔ اس غرض کے لئے امیر اور غریب مشرق اور یورپ ہر طرح کے معاشرے کے سچے واقعات لکھے ہیں ۔ اس پوری کتاب کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد کارفرما نظر آتا ہے، پیچھے رہ جانے والے بچے پر اس کے والدین افسردہ اور شرمندہ نہ ہوں، بلکہ ایک نئی امید کے ساتھ اسے معاشرے کا فعال رکن بنائیں ۔ مصنفہ نے ایسے والدین کو تنہائی سے نکالنے کی کوشش کی ہے ۔

کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے ؟ فائن موٹر سکلز اور گراس موٹر سکلز کیا ہوتی ہیں؟ نارمل کی وضاحت اور حد بیان کی گئی ہے۔ ذہنی مسائل بیان کیے گئے ہیں، ہر مسئلہ اور ہر کیفیت کا بیان اور پھر اس کا حل نہایت پرتاثیر انداز میں بتایا ہے۔ کتاب اس قدر موثر ہے کہ کم پڑھا لکھا فرد بھی مسئلہ اور اس کا حل سمجھ سکتا ہے ۔کتاب میں شامل بعض مضامین روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شائع ہو چکے ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بطور ایڈیٹر، یہ مضامین پڑھتے ہوئے مجھے بھی اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے اور اصلاح کا موقع ملا ۔

نارمل بچوں کے والدین اس کتاب سے نہ صرف شکرگزاری سیکھ سکتے ہیں بلکہ بہت سارے ایسے پہلو ہیں جن سے وہ اپنے بچوں کو مزید کارآمد شہری اور اچھے انسان بنا سکتے ہیں جیسے ’ شناخت بمقابلہ خود شناسی‘ اور ’ فیل کی طاقت ‘ جیسے مضامین نارمل بچوں کے والدین کے لیے ہیں ۔ وہ فہم دیتے ہیں کہ مشین نما انسانوں کی بجائے درد دل والے انسان پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔

کتاب کے آخر میں حوالہ جات دے کر ایک ذمہ دار اور پختہ کار مصنفہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے، ان کی مدد سے پڑھنے والا ایسے ذرائع تک پہنچ سکتا ہے جو اس کے مطالعہ کو وسعت عطا کریں گے ۔کتاب حاصل کرنے کے لئے 03007935457 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔