ادھیڑ عمری میں ہائی بلڈ پریشر سے دماغی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  ہفتہ 9 اکتوبر 2021
درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر پر قابو نہ پایا جائے تو یہ بڑھاپے میں سنگین دماغی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر پر قابو نہ پایا جائے تو یہ بڑھاپے میں سنگین دماغی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کینبرا / بیجنگ: چینی اور آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو 35 سے 44 سال کی عمر میں ہائپر ٹینشن (ہائی بلڈ پریشر یعنی بلند فشارِ خون) کی شکایت رہتی ہے، ان کےلیے بعد کی عمر میں ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس تحقیق میں ’’یو کے بایوبینک‘‘ سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کی صحت سے متعلق تفصیلی اعداد و شمار جمع کیے گئے جو 12 سال پر محیط تھے۔

پہلے مرحلے میں کم و بیش ہر عمر کے 11,399 افراد کے دماغی ایم آر آئی اسکینز کا جائزہ لینے پر پتا چلا کہ جو لوگ ادھیڑ عمری میں ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہے تھے، ان کے دماغ نسبتاً چھوٹے ہوگئے تھے۔

اگلے مرحلے میں مزید تفصیلی اور محتاط تجزیئے پر انکشاف ہوا کہ 35 سے 44 سال کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا رہنے والوں میں ڈیمنشیا کا خطرہ اُن افراد کی نسبت 61 فیصد زیادہ تھا جو عمر کے اس حصے میں ہائی بلڈ پریشر کا شکار نہیں تھے۔

واضح رہے کہ ڈیمنشیا کسی ایک دماغی بیماری کا نام نہیں بلکہ یہ دماغی خرابیوں کی مختلف کیفیات کا مجموعی نام ہے جن میں یادداشت کی خرابی، سوچنے میں دشواری، اور روزمرہ معمولات میں فیصلے کرنے میں مشکلات وغیرہ نمایاں ہیں۔ ڈیمنشیا کی سب سے عام قسم الزائیمرز بیماری ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے ریسرچ جرنل ’’ہائپرٹینشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ کم اور درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر پر سنجیدگی سے قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے طویل مدتی اثرات بڑھاپے میں سنگین دماغی مسائل کو جنم دے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔