کورونا وائرس اور قیدی

محمد ابرار آرائیں  اتوار 10 اکتوبر 2021
یہ وبا عدالتی نظام کو بھی متاثر کر رہی ہے

یہ وبا عدالتی نظام کو بھی متاثر کر رہی ہے

(ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ)

کورونا وائرس کے باعث پھیلنے والی وبا کووڈ19 نے دنیا بھر میں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد کی روزمرہ کی زندگی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے، جن کو طویل لاک ڈاؤن کا تناؤ، بیمار ہونے کا خوف اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

اس وبا نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں اور افراد پر اثرات مرتب کیے ہیں وہیں اس سے عدالتی نظام بالخصوص جیلوں میں موجود قیدی بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کراچی میں وکلاء برادری کے ایک گروپ نے متعدد بار حکومت سے اپنے اور قیدیوں کو وبا سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کرنے کی درخواستیں کی ہیں تاہم اب تک ضرورت کے مطابق احکامات جاری نہیں کیے گئے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ ہماری جیلوں میں گنجائش سے بھی تین گنا زائد قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔

طبی ماہرین وبا سے بچاؤ کے لئے سماجی فاصلہ کو لازمی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ محققین نے بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے عام لوگوں میں ایک دوسرے سے قریب آنے یا ملاقات سے بیمار ہونے کے خطرات اور خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اصل خوف اس بیماری کے متعدی ہونے کا ہے جس کے باعث ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ لوگوں میں ذہنی تناؤ جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی وبا سے جسمانی مزاحمت کم ہوجائے گی۔ یہ تو ہے اس صورت حال کا ایک نفسیاتی پہلو مگر جب حقائق پر نظر ڈالی جائے تو صورت حال کہیں زیادہ بدتر معلوم ہوتی ہے۔

جیلوں میں جہاں گنجائش سے زائد قیدی رکھے گئے ہیں وہاں سماجی فاصلے کے اصول کا اطلاق ناممکن بن کر رہ گیا ہے اور ہزاروں قیدیوں کی زندگیاں فوری اقدامات نہ کیے جانے کے باعث داؤ پر لگ گئی ہیں جب کہ یہ قیدی عدالتوں میں سماعت پر لائے جانے پر نہ صرف اپنے وکلاء بلکہ اہل خانہ کے لیے بھی سنگین خدشات کا باعث بن گئے ہیں۔

امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں امریکن سول لبرٹیز یونین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی وبا کے امریکی جیلوں پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ایک لاکھ اموات کا خدشہ ہے۔ اس انتباہ کے نتیجے میں امریکی محکمۂ انصاف نے فوری طور پر معمولی جرائم میں قید، کم عمر اور معمر قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

قیدیوں کی 2019  میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاقی محتسب کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان بھر کی 114 جیلوں میں 77 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں، جب کہ ان جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش50 ہزار ہے۔ اگست 2020  کے اختتام تک ملک بھر کی جیلوں میں قید79603 افراد میں سے کم از کم 2313  کورونا وائرس میں مبتلا پائے گئے۔ ان چشم کشا رپورٹس کی روشنی میں بھی تاحال نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے گئے۔

قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ قیدیوں کو مناسب انداز میں رکھنے کے لیے ان جیلوں میں گنجائش اس سے کہیں کم ہے جو سرکاری طور پر بتائی جاتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک میں کورونا کی پہلی لہر سامنے آنے کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ وبا جیل میں موجود قیدیوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

ان خدشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور وکلاء برادری کی جانب سے بار بار کے مطالبات کے باعث بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا مگر تاحال ان اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ قیدیوں کا سب سے زیادہ واسطہ ان کو عدالتوں تک لانے لے جانے والے پولیس اہل کاروں اور وکلاء سے ہوتا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں وکلاء کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر عدالتوں میں کیسز کی سماعت اور جیلوں میں قیدیوں کو وبا سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کے مطالبات قابل فہم ہیں۔

قانونی ماہرین اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس تجویز پر بھی زور دیتے ہیں کہ معمولی جرائم پر جیلوں میں قید افراد کو ضمانت پر رہا ئی دینے کے لیے کوئی راہ نکالی جا ئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مقدمات جن میں قتل یا جسمانی ایذا کے جرائم شامل نہ ہوں یا وہ معمولی نوعیت کے جرائم میں قید ہوں تو ریاست ان کو پیرول پر رہائی دے سکتی ہے۔

پیرول پر یہ رہائی سی آر پی سی کا سیکشن39 قانونِ فوجداری کی دفعہ401 کے تحت دی جا سکتی ہے۔ قانون میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ آئین پاکستان میں آرٹیکل45 کے تحت تو صدر پاکستان کو سزا پانے والے مجرموں کو بھی معافی دینے کے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔

صدر مملکت کسی بھی جرم میں سزا پانے والے شخص کو معافی دے سکتے ہیں یا اس کے سزا میں کمی کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف قانونِ فوجداری کی دفعہ494 کے تحت سرکاری وکیل مجاز عدالت کی اجازت کے ساتھ استغاثہ کی طرف سے مقدمہ واپس لے سکتا ہے۔ تاہم ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ نظر آ رہا ہو کہ مقدمہ ملزم کے بری ہونے کے طرف جا رہا ہے۔

بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں جسمانی یا دماغی بیماری میں مبتلا یا55  سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین قیدیوں بشمول نوعمر قیدیوں کو بھی جیل سے رہا کرنے کا اعلان کیا تھا جس کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور سماجی کارکنوں نے سراہا تھا۔

تاہم وکلاء کی جانب سے قیدیوں، عدالتوں میں پیشیوں پر آنے والے قیدیوں کے بارے میں تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے احکامات پر بھی اس کے سیاق و سباق میں عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ موجودہ حالات میں قیدیوں کو جیل سے سماعت پر لایا تو جاتا ہے مگر اکثر کیسز میں سماعت کی تاریخ بڑھا دی جاتی ہے۔ وکلاء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وائرس کی چوتھی لہر بالخصوص ہندوستانی وائرس کی تغیراتی قسم ڈیلٹا سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اب ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔