یاد گار لوگ، گم شدہ قبریں

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 10 اکتوبر 2021
ہماری اس فانی دنیا میں ہر انسان کے لیے موت کا ایک دن تو ضرور معین ہے  فوٹو: فائل

ہماری اس فانی دنیا میں ہر انسان کے لیے موت کا ایک دن تو ضرور معین ہے فوٹو: فائل

ہماری اس فانی دنیا میں ہر انسان کے لیے موت کا ایک دن تو ضرور معین ہے۔ لیکن بعد از مرگ کس انسان کی قبر کہاں بنتی ہے، کدھر مقبرہ تعمیر ہوتا ہے اور کونسی سرزمین پر اُس کا مزار تیار کیا جائے گا؟ یہ ایک ایسا غیرمعین معاملہ اور پراسرار راز ہے جسے انسان اپنی زندگی میں دریافت کرنا بھی چاہے تو اکثر ناکام و نامراد ہی رہتا ہے۔

مرنے کے بعد بھی، زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والے بے شمار افراد نے قبل از موت، اپنے شان دار مقبرے بنوائے لیکن جب دستِ اجل نے ان کی جانب ہاتھ بڑھایا تو اُن کے جسد خاکی کو اپنا مقبرہ تو بہت دور کی بات ہے، خاک بھی نصیب نہ ہوسکی۔ نیز تاریخ میں بعض فراعین مصر ایسے بھی گزرے ہیں، جن کے ساتھ ’’اہرام‘‘ نما عظیم الشان مقبروں میں اُن کی بیگمات، کنیزیں، پہرے دار اور دنیا بھر کا مال و اسباب بھی دفن کیا گیا تھا۔

مگر افسوس صد افسوس! کہ اُن کے بعد آنے والے لالچی انسانوں نے ’’اہرام‘‘ میں رکھا قیمتی خزانہ تو اپنے قبضہ میں لے لیا لیکن فرعون ِمصر کے تابوت کو عبرت کے لیے عجائب گھر کی زینت بنادیا۔ دوسری طرف اسی بے ثبات دنیا میں اﷲ تعالیٰ کے بے شمار برگزیدہ، مقبول اور محبوب بندے ایسے بھی ہیں، جن کے مزارات کی رونق سیکڑوں برس بعد بھی بدستور سلامت ہے اور اِن خرقہ پوش ہستیوں کے قبریں مرجع خلائق بنی ہوئی ہیں۔

زیرِنظر مضمون میں اپنے وقت کے اُن چنیدہ، نام ور، طاقت ور، صاحبِ اختیار، خوب صورت اور ہنرمند افراد کا اجمالی سا تذکرہ پیش خدمت ہے، جن کے اچھے یا بُرے نام، کام اور کارناموں سے تو آج ہم سب اچھی طرح سے واقف ہیں لیکن اِن کی قبروں سے کوئی بندہ بشر، پرِکاہ جتنی بھی واقفیت نہیں رکھتا۔

٭  چنگیز خان کی بے نام و نشان قبر

عظیم منگول حکم راں چنگیز خان 1162ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام تیموجن تھا۔ چنگیز خان کے حکم راں بننے سے پہلے منگول قبائل اپنی غیرمعمولی حربی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل میں بے دردی سے ضائع کرتے تھے۔ مگر چنگیز خان وہ پہلا منگول سردار ثابت ہوا، جس نے منگولیا کے سیکڑوں قبائل کو اپنی مرکزی قیادت کے تحت متحد و یکجان کرکے ، انہیں ساری دنیا کو اپنا زیرنگین بنانے کا سنہرا خواب دکھایا۔ یاد رہے کہ 1206 میں منگول سرداروں کے ایک جرگے میں تیموجن کو چنگیز خان کا خطاب دیا گیا، جس کے معنی ہیں ’’کائناتی شہنشاہ۔‘‘ آنے والے حالات نے ثابت کیا یہ لقب تیموجن کی شخصیت پر پوری طرح سے صادق آتا ہے۔

چنگیز خان جنگیں جیتنے اور سلطنت کے استحکام کے لیے بہترین اور بعض دفعہ عجیب و غریب سیاسی حکمت عملیاں اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ مثلاً چنگیز خان اپنے مفتوحہ علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے وہاں کے حکم راں خاندانوں میں اپنی بیٹیوں کی شادی کردیا کرتا تھا۔

اس کے بعد وہ اپنے دامادوں کو میدان جنگ میں بھیج دیا کرتا تھا تاکہ ان کی غیرموجودگی میں حکومتی امور اس کی بیٹیاں سنبھال سکیں۔ اس کے زیادہ تر داماد عموماً جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں قید ہوتے یا پھر مارے جاتے، یوں اس کی بیٹیاں کام یابی کے ساتھ دوسروں کی سلطنت پر حکومت کرتی رہتی تھیں۔ علاوہ ازیں چنگیز خان اپنی فوجوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر ظاہر کرتا اور کسی بھی علاقے پر حملے سے قبل وہاں اپنی حملہ آور فوج کی زیادہ تعداد کی جھوٹی افواہیں پھیلاتا اور گھوڑوں پر لکڑی کی ڈمی بٹھا کر اپنے دشمنوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ تاریخ انسانی میں چنگیز خان ہی وہ پہلا ظالم حکم راں تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے حریفوں کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کا بے دریغ استعمال کیا۔ منگول افواج محاصرے کے دوران شہر میں منجنیق کی مدد سے ایسے مردہ فوجیوں کی لاشیں پھینکتی تھی جو وبائی مرض طاعون سے شدید متاثر ہوتے تھے۔

چنگیز خان کا 1227 میں منگولیا میں انتقال ہوا۔ اپنی موت سے کچھ دیر قبل اس نے دو، وصیتیں کی تھیں۔ پہلی یہ کہ اس کے تیسرے بیٹے اوکتائی خان کو اس کا جانشین مقرر کیا جائے۔ دوم، مرنے کے بعد اس کی قبر یعنی جائے مدفن کو دنیا بھر کی نگاہوں سے خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ دوسری وصیت اس لحاظ سے بڑی عجیب و غریب تھی کہ دنیا کا ہر حکم راں اور فاتح مرنے کے بعد اپنی آخری آرام گاہ کو، یادگار بنوا کر دنیا میں باقی رہنا چاہتا ہے اور بعض اوقات اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے مرنے سے قبل ہی اپنے عظیم الشان مقبرے تعمیر کرواتا ہے، جیسا کہ فراعین مصر نے اہرام تعمیر کروائے۔

مگر چونکہ چنگیز خان اپنی موت کے بعد اپنی قبر کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتا چاہتا تھا، چناں چہ وصیت پر من و عن عمل کیا گیا اور چنگیز خان کی تدفین کرنے کے بعد اس کی قبر کے اُوپر کم و بیش ایک ہزار گھوڑے دوڑائے گئے تاکہ زمین کی اُوپری سطح اس قدر ہم وار ہوجائے کہ کوئی شخص چنگیز خان کی قبر کا سراغ نہ لگاسکے۔

بعد ازآں چنگیز خان کے وفاداروں نے ہر اس شخص کو بے رحمی سے قتل کردیا جو چنگیز خان کے تدفین کے موقع پر موجود تھا یا قبر کے درست مقام سے آگاہ تھا۔ جن غلاموں نے قبر بنائی تھی، انہیں کچھ سپاہیوں نے قتل کیا اور پھر غلاموں کو قتل کرنے والے سپاہیوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک دریا کا رخ اس کی قبر کی طرف موڑ کر قبر کو ہمیشہ کے لیے گم نام بنا دیا گیا۔ چنگیز خان کی موت کو آٹھ صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن تاحال اُس کی قبر گم شدہ ہے۔

ایک ماہرآثار قدیمہ ماؤرے کراوٹز نے چنگیز خان کی قبر کی تلاش میں اپنی زندگی کے 40 سال صرف کیے لیکن وہ بھی اس کی قبر کا سراغ نہیں پاسکا۔ مشہور ومعروف تحقیقاتی ادارے نیشنل جیوگرافک نے سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا، جس کا نام ’’ویلی آف خان پروجیکٹ‘‘ رکھا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے میں ہمیشہ غیرملکی افراد کی ہی دل چسپی رہی ہے، جبکہ منگولیا کے مقامی لوگ چنگیز خان کی قبر کا پتا لگانے میں بالکل دل چسپی نہیں رکھتے، بلکہ بعض اوقات اس طرح کی مہم جوئی کی مخالفت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ دراصل اس کی بڑی وجہ ایک خوف بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر چنگیز خان کی قبر کو دریافت کرلیا گیا تو دنیا یک لخت تباہ وبرباد ہوجائے گی۔

کچھ ماہرین ارضیات منگولوں کی اس بے اعتنائی کو چنگیز خان کے لیے منگولیائی لوگوں کا احترام گردانتے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق چوںکہ چنگیز خان خود نہیں چاہتا تھا کہ انھیں کوئی یاد رکھے لہٰذا، اُس سے محبت کرنے والے مقامی لوگ آج بھی چنگیز خان کی خواہش کا احترام کر رہے ہیں۔

 ٭  ملکہ قلوپطرہ کی گم شدہ قبر

قلوپطرہ، مصر کی ایک ایسی حکم راں ملکہ جس کا بے مثال حسن، جاذب نظر نسوانیت، غیرمعمولی ذہانت اور بے وفائی کے دل دہلادینے والے قصے آج کے جدید دور میں بھی ضرب المثل سمجھے جاتے ہیں ۔ ملکہ قلوپطرہ، انسانی تاریخ کی ایک ایسی حکم راں خاتون ہے، جس پر اَب تک سب سے زیادہ داستانیں و کہانیاں لکھیں اور اَن گنت ڈرامے اور فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ قلوپطرہ کو ہم فراعین مصر کے خاندان کی ایک نمائندہ خاتون بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی مصر کے فرماں رواؤں کا ایک ایسا خاندان جہاں نسل در نسل مرد ہی فرعون کہلانے کے حق دار رہے ہوں، وہاں قلوپطرہ جیسی ایک دھان پان، مجسمہ حسن کا اقتدار میں آجانا ثابت کرتا ہے، قلوپطرہ کس قدر غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل خاتون رہی ہوگی۔

ماہرین کے مطابق آج سے دو ہزار برس قبل 69 قبل مسیح میں تلومی فرعون، خاندان میں قلوپطرہ کی پیدائش ہوئی۔ اس کے والد ’’الیتیس‘‘ عظیم مصری حکم راں، سکندراعظم کے ایک انتہائی قابل اعتماد جنرل تھے۔ اپنے والد کی موت کے بعد اٹھارہ سال کی چھوٹی سے عمر میں قلوپطرہ کو اپنے دس سالہ چھوٹے بھائی کے ساتھ مشترکہ طور پر تخت کا حق دار قرار دیا گیا، مگر بھائی کے بالغ ہونے کے بعد قلوپطرہ نے اُسے اپنے اقتدار میں شراکت دار ماننے سے انکار کردیا، جس کے نتیجے میں بہن اور بھائی کے درمیان خوںریز خانہ جنگی ہوئی ۔ قریب تھا کہ قلوپطرہ کو اپنے بھائی کے مقابلے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑتا کہ اس نے رومن جنرل جولیس سیزر کی مدد حاصل کرکے اپنے بھائی اور اس کے حمایتیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا۔

بعد ازآں قلوپطرہ اور جولیس سیزر، ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ جولیس سیزر کی موت کے بعد ان کا بیٹا سیسیریون اپنی ماں کے ساتھ تخت کا وارث بنا۔ قلوپطرہ نے سیزر کی موت کے بعد اُس کے منہ بولے بیٹے اور اپنی فوج کے نائب سپہ سالار، مارک انتھونی کو اپنی زلف کا اسیر بنا کر اُس سے شادی رچالی، جس سے قلوپطرہ کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے۔ واضح رہے کہ مارک انتھونی، شاہ آگسٹس کا بہنوئی بھی تھا، لہٰذا قلوپطرہ اور انطونی کا یہی تعلق بعدازآں دونوں کے درمیان جنگ و جدل کے ایک طویل سلسلے کا سبب بھی بنا۔

مارک انتھونی کے ساتھ مل کر قلوپطرہ نے کئی لڑائیاں لڑیں اور آخرکار 30 قبل مسیح میں قلوپطرہ کے سابق شوہر جولیس سیزر کے بھانجے اکٹوین نے مصر پر حملہ کردیا، جس میں مارک انتھونی اور قلوپطرہ کے بحری بیڑے کو شکست فاش ہوئی۔ قلوپطرہ اور مارک انتھونی کے تینوں بچے گرفتار کرلیے گئے لیکن قلوپطرہ نے رومن حکومت کی فتح یابی کے جشن کا حصہ بننے سے صاف انکار کرتے ہوئے خود کو اور اپنے تینوں بچوں کو زہریلے کوبرا سانپ سے ڈسوا کر 10 اگست کو خود کشی کرلی۔

حیران کن با ت یہ ہے کہ مانچسٹر یونیورسٹی کے ماہرین اس تاریخی دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں کہ ملکہ قلوپطرہ کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوئی تھی۔ کیوںکہ ان کا خیال ہے کہ ’’ملکہ اور دو کنیزوں سمیت تین بچوں کو کاٹنے والا سانپ اتنا چھوٹا نہیں ہوگا کہ اسے چھپایا جا سکے، جب کہ کوبرا سانپ کے کاٹنے کے بعد صرف10 فی صد ہی اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ سانپ کے زہر سے کوئی مر جائے۔ نیز اگر سانپ کا زہر انسان کے جسم میں منتقل ہو بھی جائے تو وہ آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ آپ ایک سانپ کو یکے بعد دیگرے کئی افراد کو قتل کرنے کے لیے باری باری استعمال کریں۔‘‘

بہرحال ملکہ قلوپطرہ کی وجہ موت ہی نہیں بلکہ اُس کی قبر بھی آج تک ایک معما بنی ہوئی ہے۔ قدیم مصری تاریخ داں پلوٹارک کے مطابق قلوپطرہ کا مقبرہ الیگزینڈریا شہر کے مضافات میں ہی کہیں ہونا چاہیے۔ ماہرین آثار قدیمہ قلوپطرہ کی گم شدہ قبر تلاش کرنے کے لیے بے شمار مقامات پر کھدائی کر چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انہیں کبھی کام یابی حاصل نہ ہوسکی۔ بعض ماہرین کو اس با ت کا بھی یقین ہے کہ قلوپطرہ اور مارک انتھونی کی قبریں سمندر کی گہرائی میں کہیں موجود ہوسکتی ہیں۔

٭  سکندر اعظم کا بدقسمت مقبرہ

’’مقدر کا سکندر‘‘ ہمارے ہاں عام بول چال میں استعمال کیے جانے والا ایک روایتی سا محاورہ ہے، جسے اُس خاص موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو انتہائی خوش قسمت یا نصیب کا دھنی قرار دینا مقصود ہو۔ اِس محاورے کی نسبت یونان کے عظیم حکم راں سکندراعظم کی خوش قسمتی کی جانب کی جاتی ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سکندراعظم نے دنیا کا بہت بڑا حصہ فتح کرکے سلطنتِ یونان کو دنیا کی پہلی عالمی عظیم طاقت بننے کا مفرد اعزاز کا حق دار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

سکندر اعظم356 قبل مسیح میں قدیم یونانی ریاست مقدونیہ میں پیدا ہوا، جسے عین لڑکپن میں ہی ارسطو جیسے عظیم دانش ور اُستاد کی صحبت کاملہ دست یاب ہوگئی تھی۔ سکندر اعظم کو 20 سال کی عمر میں بادشاہت ملی تھی، جس کے بعد وہ ساری دنیا کو فتح کرنے کے لیے نکل پڑا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ دنیا کے متعدد قابل ذکر ممالک فتح کرنے میں کام یاب بھی رہا، جن میں مصر، یونان، بھارت کے کچھ حصے اور ایران کے کثیر علاقے شامل تھے۔

سکندراعظم کی موت 323 قبل مسیح میں صرف 32 سال کی عمر میں بابل کے اُس مقام پر ہوئی جو آج عراق میں شامل ہے۔ ایک روایت کے مطابق اُسے اُس وقت زہر دے دیا گیا جب وہ اپنے باپ کے خواب کی تکمیل کے لیے ساری دُنیا فتح کرنے کے لیے نکلا ہوا تھا اور آدھی سے زیادہ دُنیا فتح بھی کر چُکا تھا۔

موت کے وقت سکندر کی زُبان پر یہ آخری الفاظ تھے کہ ’’میں سوچ رہا ہوں کہ آج کے دن تک نجانے میں نے کتنے انسانوں کا خون بہایا، کتنے شہر اُجاڑے اور زیروزبر کر دیے اور آج میں اپنے ساتھ کیا لے جارہا ہوں، مُجھے زندگی میں کبھی سکون حاصل نہ ہُوا، اچھا ہُوا میں مکمل دُنیا فتح نہ کر سکا اور اگر کر بھی لیتا تو اپنے گُناہوں میں اضافہ ہی کرتا، مُجھے فوجی لباس میں دفن کیا جائے کیوںکہ میں ایک سپاہی ہوں۔‘‘

دل چسپ بات یہ ہے کہ2 ہزار سال سے سکندر اعظم کی موت ایک معما بنی ہوئی ہے کہ کیا اس کو واقعی زہر دیا گیا تھا؟ یا اس کی موت کی وجہ کثرتِ شراب نوشی کی عادت بنی تھی؟ یا پھر وہ ملیریا یا ٹائیفائیڈ کا شکار ہوکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا؟

چند برس قبل ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے خیال پیش کیا ہے کہ سکندر اعظم، ایک ایسے آٹو امیون مرض کا شکار ہوا جس میں جسم مفلوج ہوجاتا ہے اور مریض دوسروں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی سکندر کے ساتھ ہوا اور چوںکہ قدیم یونان میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ اگر کسی مردہ کا جسم 6 روز تک گلے، سڑے نہ تو وہ دیوتا ہوتا ہے۔ پس! سکندر اعظم کی سپاہ نے اسے مردہ سمجھ کر 6 دن تک لاش سڑنے کا انتظار کیا اور اس دوران اس کی موت واقع ہوگئی۔

نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ’’سکندر اعظم ایک مرض گیولین بیرے سینڈروم (جی پی ایس) کا شکار ہوا تھا، جس میں جسمانی مسلز اچانک کم زور ہوجاتے ہیں، کیوںکہ جسمانی دفاعی نظام نروس سسٹم کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس عظیم فاتح کی موت کے حوالے سے طرح، طرح کے نظریات گھڑ لیے گئے۔

جس طرح آج تک سکندراعظم کی موت کی درست وجہ کا تعین نہیں کیا جاسکا، بلکہ ایسے ہی سکندراعظم کی تدفین کا درست مقام بھی ماہرین کے لیے ہنوز ایک اُلجھی ہوئی گتھی ہے، جس سلجھا پانا سب کے لیے دردسر بنا ہوا ہے۔ بعض تاریخ روایات کے مطابق سکندراعظم کو سرزمین مصر کے شہر میمفس میں سونے کے عظیم الشان تابوت ’’سرکروفگس‘‘ میں دفن کیا گیا تھا اور کچھ عرصے بعد یعنی 283-293 قبل مسیح کے درمیان سکندر اعظم کے تابوت کو یونان کے شہر الیگزینڈریا منتقل کردیا گیا اور اُس کے مقبرے کے اردگرد ایک مندر بھی تعمیر کردیا گیا تھا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ رومن شہنشاہوں جیسے سیسر اور اگسٹس نے سکندراعظم کے مقبرے سے سونے کا تابوت حاصل کرنے اسے کئی بار بری طرح سے مسمار بھی کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ باربار کی جنگوں، زلزلوں اور سیلاب کی وجہ سے سکندراعظم کی قبر کی باقیات صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ لیکن بعض ماہرین ابھی تک مکمل طور پر نااُمید نہیں ہوئے اور انہیں لگتا ہے کہ سکندراعظم کی قبر الیگزینڈریا میں ابھی بھی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوگی۔ گذشتہ چند برسوں میں سکندراعظم کی قبر کی تلاش کے لیے 140 سے زائد کوشش کی جاچکی ہیں لیکن سب بدترین ناکامی پر منتج ہوئیں۔

٭  لیونارڈو ڈاونچی کی جعلی قبر

لیونارڈو ڈاونچی(Leonardo Da Vinci)، شہرۂ آفاق اطالوی مصور، سائنس داں، حساب داں، مہندس، موجد مجسمہ ساز، معمار، موسیقار اور مصنف تھے۔ انہیں آپ صحیح معنوں میں انسانی تاریخ کا ایک موثر ترین جینیئس یعنی عبقری شخصیت قرار دے سکتے ہیں۔ آج بھی لیونارڈو ڈاونچی کو دنیا کے معروف ترین مصوروں میں سرفہرست شمار کیا جاتاہے۔

لیونارڈو ڈاونچی ایک انتہائی غریب اطالوی کسان خاتون، کاترینا، کے ہاں فلورنس کے علاقے’’ونچی‘‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ چوںکہ لیونارڈو ڈاونچی اپنی ماں کاترینا کی ناکام محبت کے نتیجے میں جنم لینے والی ایک ناجائز اولاد تھے، اس لیے انہوں نے اپنے خاندانی نام کے ساتھ والد کا نام جوڑنے سے احتراز برتا۔

بعد ازآں لوگوں نے انہیں ازخود ہی، مصور ’’ڈاونچی‘‘ یعنی ونچی سے آنے ولا مصور کے نام سے مخاطب کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے فلورنس کے مشہور مصور اور نقاش ’’ویروکیو‘‘ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے اپنی فطری فن کارانہ صلاحیتوں کو جِلا بخشی۔ ان کی ابتدائی پیشہ ورانہ زندگی میلان میں لودوویکو اِل مورو کی خدمت میں گزری۔ چند تاریخی روایات کے مطابق ایک بار فلورنس کے مقامی کسان نے ایک گول ڈھال بنائی اور لیونارڈو ڈاونچی کے والد پیئرو سے درخواست کی کہ وہ اس پر کہیں سے نقاشی کروا لیں۔

لیونارڈو ڈاونچی کے باپ نے جب یہ کام اپنے بیٹے کو کرنے کے لیے کہا تولیونارڈو ڈاونچی نے اس ڈھال پر ایک آگ پھونکتا درندہ بنا ڈالا۔ لیونارڈو ڈاونچی کے والد کو یہ نقاشی ایک آنکھ نہ بھائی ۔ لہٰذا، اس نے یہ ڈھال فلورنس کے آرٹ ڈیلر کو سستے داموں بیچ ڈالی اور اس کے عوض میں ایک دوسری نئی ڈھال لے لی جس پر ایک دل نقش تھا۔ بعد ازآں، اس آرٹ ڈیلر نے لیونارڈو ڈاونچی کی کندہ کردہ ڈھال کو انتہائی اچھے داموں میلان شہر کے ایک رئیس کو بیچ دیا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ لیونارڈو ڈاونچی نے اپنی مشہور زمانہ پینٹنگ ’’مونالیزا‘‘ 16 سال کے طویل ترین عرصے میں مکمل کی تھی۔ لیونارڈو ڈاونچی نے مونالیزا 1503 میں شروع کی اور 1519 میں مکمل کی۔ اس 16 سال کے عرصے میں لیونارڈو ڈاونچی نے دن رات فقط مونا لیزا ہی پر ہی کام نہیں کیا، بلکہ وہ دوسرے تخلیقی منصوبوں کو بھی مکمل کرنے میں مصروف رہے۔ دراصل لیونارڈو ڈاونچی مونالیزا پر اسی وقت کام کرتے جب ان کا دل چاہتا، اور جب دل نہیں چاہتا تو دوسری تخلیقات بنانے میں اپنا وقت صرف کرنے لگتے تھے۔ مونالیزا پر کام کا وقفہ کبھی مہینوں تو کبھی برسوں پر مشتمل ہوتا۔

مونا لیزا کے علاوہ ان کی ایک اور پینٹنگ ’’لاسٹ سپر‘‘ کو بھی ان کی ایک لازوال تخلیق قرار دیا جاتا ہے۔ لیونارڈو ڈاونچی نے اس پینٹنگ کی تکمیل بھی تقریباً 15 سال صرف کیے تھے۔ لیکن ان کے تمام فن پاروں میں ’’مونا لیزا‘‘ سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے اور یہی وہ پینٹنگ ہے جس کی سب سے زیادہ نقل بنائی گی ہے۔

لیونارڈو ڈاونچی 1519 میں 67 برس کی عمر میں فرانس میں اپنے اُس گھر میں فوت ہوگئے، جو اُنہیں بادشاہ، فرانسس اول نے بطور انعام عنایت کیا تھا۔ لیونارڈو ڈاونچی کے جسد خاکی کو ایک چرچ کے احاطے میں دفن کیا گیا تھا۔ لیکن فرانسیسی انقلاب کے دوران یہ چرچ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ 1863 میں اسی چرچ کی زمین میں بڑے پیمانے پر کھدائی کی گئی تو نیچے سے بے شمار انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے، جن میں ایک انسانی ڈھانچے یا ہڈیوں کے مجموعہ کو لیونارڈو ڈاونچی کی باقیات کے طور پر محفوظ کرلیا گیا، جو آج بھی فرانس کے شہر ’’چیٹو ڈی امبوز‘‘ میں ایک مقبرے میں موجود ہیں۔

کہنے کو تو یہ مقبرہ لیونارڈو ڈاونچی کی آخری آرام گاہ کے طو ر پر مرجع خلائق ہے، لیکن معروف تاریخ داں اور ماہرین کی اکثریت اس جگہ کو لیونارڈو ڈاونچی کی حقیقی قبر تسلیم کرنے سے مکمل طور پر انکاری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت یا شہادت موجود نہیں ہے کہ اس مقبرے میں واقعی لیونارڈو ڈاونچی کی باقیات موجود ہیں۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے2016 میں فرانس کی حکومت نے مقبرے میں دفن باقیات کا ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے جانچ کروانے کا فیصلہ بھی کیا تھا، مگر یہ منصوبہ اس لیے ناکامی سے دوچار ہوگیا کہ لیونارڈو ڈاونچی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا۔

٭  ’’وولف گینگ ایماڈیس موزارٹ‘‘ کا تابوت

مغربی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام، جسے آپ اگر مغرب کا ’’تان سین‘‘ قرار دے دیں تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔ وولف گینگ ایماڈیس موزارٹ (Wolfgang Amadeus Mozart) نے 600 سے زائد دھنیں ایجاد کیں، جن میں سے بیشتر دھنوں کو مغربی موسیقی کی معراج سمجھا گیا۔

وہ دنیا کے قدیم موسیقاروں میں سب سے زیادہ معروف اور صاحبِ اثر موسیقار خیال کیے جاتے ہیں۔ وولف گینگ ایماڈیس موسیقی کی خداداد صلاحیت لے کر 27 جنوری 1756 کو سالزبرگ، آسٹریا میں پیدا ہوئے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں، بالکل اس محاورے کے مصداق ولف گینگ ایماڈیس نے محض 5 برس کی عمر میں موسیقی کی پہلی دھن ترتیب دی اور صرف 17 سال کی عمر میں اس عظیم موسیقار نے یورپ کے ایک بڑے مجمع عام کے سامنے اپنے فن کا مظاہر ہ کر کے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنالیا ۔

اُن کا پہلا عوامی مظاہرہ ہی اس قدر شان دار اور مسحور کن تھا کہ سالزبرگ کو راج دربار میں شاہی موسیقار کے خصوصی منصب پر فائز کردیا گیا۔ لیکن ولف گینگ ایماڈیس، راج، دربار کی دیواروں میں قید ہوکر بیٹھنے کے بجائے دنیا گھومنے کے مشتاق نکلے اور اپنے اسی دیرینہ شوق کی تکمیل کے لیے انہوں نے بے شمار سفر کیے۔ دورانِ سفر انہوں نے جو بھی مشاہدات اور تجربات حاصل کیے اُنہیں اپنی موسیقی کی دھنوں میں شامل کردیا۔

وولف گینگ ایماڈیس نے شہرت اور نام وری تو بہت کمائی لیکن تمام عمر مالی آسودگی حاصل نہ کرسکے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام ویانا میں گزارے اور اپنی مشہور ترین دھنیں بھی انہیں ایام میں ترتیب دیں۔

وولف گینگ ایماڈیس کا انتقال 35 سال کی مختصر کی عمر میں 5 دسمبر1791 کو ہوا۔ وولف کی موت کے بارے بے شمار افسانے اور کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ ان کا انتقال ایک پراسرار بیماری کے سبب ہوا، جب کہ کوئی وجہِ موت زہرخورانی بتاتا ہے اور کچھ افراد کا اصرار ہے کہ انہوں نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی تھی۔ وولف گینگ ایماڈیس نے بعداز مرگ لواحقین میں ایک بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے ۔ ان کا جنازہ بہت بڑا تھا، جس میں لواحقین، رشتہ داروں، دوست احباب اور وولف گینگ ایماڈیس کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔

تدفین کے بعد ان کی قبر پر کتبہ نصب کرکے ایک چھوٹا سا مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا تھا، لیکن اس سب انتظام کے باوجود ’’وولف گینگ ایماڈیس‘‘ کی قبر فقط اس لیے گم شدہ ہوگئی کہ اُس زمانے میں ویانا میں قانون نافذ تھا کہ 10 برس بعد قبرستان کی کسی بھی قبر کو نئے مردے کے لیے دوبارہ سے استعمال کی کیا جا سکتا ہے۔ یوں 10 برس بعد مغرب کے ایک عظیم موسیقار کو خاموشی کے ساتھ اُس کی قبر سے نکال کر کسی دوسرے مردے کو دفنا دیا گیا۔ وولف گینگ ایماڈیس کا تابوت کہاں گیا، اس بابت کسی کو کچھ خبر نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔