’رہبر ِ ترقی و کمال‘ کی زندہ تفسیر ’محسن پاکستان‘ کو قوم کا سلام

غلام محی الدین  پير 11 اکتوبر 2021
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو بھارتی بالادستی کے خونی پنجوں سے چُھڑالے جانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ فوٹو:فائل

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو بھارتی بالادستی کے خونی پنجوں سے چُھڑالے جانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ فوٹو:فائل

تاریخ کے ایک ایسے نازک مرحلے پر جب پاکستان عالمی سطح پر بدترین خسارے اور شکست خوردگی کے احساس سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔

پاکستان کا دشمن بھارت اس یقین کے ساتھ مزید تیز رفتاری کے ساتھ ایک ایسے راستے پر گامزن تھا جو بالآخر پاکستان کو بھی خطے کے دیگر چھوٹے اور کمزور ملکوں کی طرح بھارتی بالا دستی قبول کرنے پر مجبور کر دیتا۔

بھارت کے اس منصوبے میں سوشلسٹ بلاک ہو یا پھر اس کے مخالف امریکہ کا سرمایہ دارانہ بلاک، سب بھارت کے مدد گار تھے۔ اسی مدد اور اعانت کی بدولت 1972ء میں بھارت نے کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے دفاعی اعتبار سے پاکستان کو پوری طرح دیوار سے لگا دیا۔ بھارت اس بات پر مظمئن اور مسرور تھا کہ اُس نے پاکستان کو بے دست و پا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس کے علاقائی سپر پاور بننے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہی۔

ایسے میں ہالینڈ کی ایک ایٹمی لیبارٹری میں ملازم پاکستانی سائنسدان ’جسے پاکستانی قوم آج محسن پاکستان‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے‘ میدان میں آیا اور اپنی خدمات مادر وطن کو پیش کر د یں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 1974ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو ’جو خود بھارت کی اس پیش قدمی پر شدید تشویش میں مبتلا تھے‘ دو خط تحریر کئے‘ جس پر انہیں وزیراعظم سے ملاقات کے لئے ا سلام آباد بلا لیا گیا۔

اس تاریخی ملاقات کے بعد بھی ڈاکٹر قدیر مزید دو برس ہالینڈ میں ہی رہے اور 1976ء میں باضابطہ طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا حصہ بن گئے۔ 1979ء میں ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر پر ایٹمی راز چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کر دیا۔ انہیں عدالت میں پیش نہ ہونے پر جرمانہ اور قید کی سزا ہوئی لیکن بعدازاں ہالینڈ‘ بیلجیم ‘برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جا ئزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیاہے وہ تو طبعیات کی عام کتابوں میں موجود ہیں۔

انہیں دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑے سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ پہلے چودہ اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری اور پھر 1998ء کے جوہری دھماکوں کے عبد اگلے برس 1999ء میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انہیں اس اعزاز سے نوازا ۔ اس سے قبل 1989ء میں انہیں ہلال امتیاز عطا کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدلقدیر خان کے پاکستان آنے کی کہانی کی تفصیل نہایت دلچسپ ہے۔

1972 میں ڈاکٹر خان نے ‘فزیکل ڈائینامکس ریسرچ لیبارٹری‘ میں یورینکو (URENCO) کی شراکت دار ذیلی کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ برطانیہ، جرمنی اورہالینڈکی کمپنیوں کے اشتراک سے 1971 میں یورینکو (URENCO) وجود میں آئی تھی جس کے قیام کا مقصد ‘سینٹری فیوجز’ (مختلف اجزا کو الگ کرنے کے عمل) کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کی تیاری اور تحقیق کو ممکن بنانا تھا۔

یہ ‘سینٹری فیوجز’ انتہائی تیز رفتار سے کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے اپنی پیشہ وارانہ قابلیت کی وجہ سے بہت جلد اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر لیا۔

انھوں نے ‘ایل میلو’ (مشرقی ہالینڈ کا شہر) میں قائم پلانٹ ’جو اس ٹیکنالوجی کا ایک اہم مرکز ہے‘ کا متعدد مرتبہ دورہ بھی کیا۔ ان کی ایک ذمہ داری جدید ترین سینٹری فیوجز سے متعلق جرمن دستاویزات کا ڈچ زبان میں ترجمہ کرنا بھی تھا۔ اس کام نے انہیں اس ٹیکنالوجی کی تمام تر جزیات کو سمجھنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔

17 ستمبر 1974 کو ڈاکٹر خان نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا جس میں انھوں نے ایٹم بم بنانے کے لیے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ اس خط میں ان کی رائے تھی کہ سینٹری فیوجز کو استعمال کر کے جوہری بم بنانے کا راستہ پلوٹونیم کے ذریعے بم بنانے سے بہت بہتر ہے۔ دراصل پاکستان پہلے ہی اُسی پلوٹونیم بیسڈ ٹیکنالوجی کے تحت ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا تھا جو اُس وقت زیر استعمال تھی اور بھارت نے بھی اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایٹمی تجربات کئے تھے۔

اگست 2009 میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ڈاکٹر خان نے بتایا تھا ’’میں نے ستمبر 1974 میں وزیراعظم بھٹو کو خط لکھا کہ میرے پاس مطلوبہ مہارت ہے۔ بھٹو کا جواب بہت حوصلہ افزا تھا، دو ہفتوں بعد انھوں نے مجھے جوابی خط لکھا جس میں مجھے پاکستان واپس آنے کے لیے کہا۔’دسمبر 1974 میں پاکستان واپسی پر میں وزیر اعظم بھٹو سے ملا۔ میں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں منیر احمد خان اور اُن کی ٹیم کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور ہالینڈ واپسی سے قبل ان سے کام شروع کرنے کے لئے درکار ‘انفراسٹرکچر’ کی تیاری کے لیے کہا۔‘

1975 میں دوبارہ میں پاکستان واپس آیا۔ میں ہر سال کراچی میں اپنے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے آتا تھا۔ 1975 میں وزیر اؑعظم بھٹو نے مجھے ایٹمی پروگرام کے لئے فراہم کی جانے والی جگہ (سائٹ) کا معائنہ کرنے کے لیے کہا تاکہ دیکھ سکوں کہ کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے ہالینڈ واپس جانا ہے؛ تاہم ان کا اسرار تھا کہ میں واپس نہیں جاسکتا اور مجھے یہاں رہنا ہوگا‘‘۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ہالینڈ میں میری نوکری ہے اور مجھے واپس جانا ہو گا۔ میری بیٹیاں ہالینڈ میں پڑھ رہی ہیں اور میری اہلیہ نے اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنا ہے۔‘

میں نے وزیراعظم سے کہا کہ مجھے سوچنے کا کچھ وقت دیں اور مجھے اپنی اہلیہ سے مشورہ کرنے دیں۔ جب میں نے اپنی اہلیہ سے بات کی کہ ہم ہالینڈ واپس نہیں جائیں گے تو وہ حیران اورپریشان ہو گئیں اور اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔

’میرے جھوٹ نہ بولنے کی ساکھ کی بنا پر کچھ دیرتوقف کرنے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ میں اپنے ملک کے لیے کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘

’’میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں بلند و بانگ دعوؤں سے بچتے ہوئے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرے سوا پاکستان کے لیے یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اس طرح اْن کا ذہن بدل گیا اور انھوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔‘

دسمبر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو مجھ سے ملے اور میری حوصلہ افزائی کی کہ جوہری بم کے حصول کے لیے میں  پاکستان کی جس حد تک مدد کر سکتا ہوں کروں۔ اگلے سال میں  نے سینٹری فیوجز کی ڈرائنگز کو حتمی شکل دی۔ (مغربی ذرائع ابلاغ اور سفارتی حلقے الزام لگاتے ہیں کہ ڈرائینگز چوری کی گئیں تھیں حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو سینٹری فیوجز کی تیاری میں اتنی مشکلات پیش نہ آتیں ، بلکہ ایک مرحلے پر تو کام روک دیا گیا تھا کیونکہ سینٹری فیوجز میں تیزی سے گھومنے والے پنکھے مطلوبہ رفتار پکڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے تھے۔)۔  پھر میں نے مغربی سپلائرز کی فہرست تیار کی جو اس کام کے لیے پرزہ جات فراہم کر سکتے تھے۔

15 دسمبر1975 کو ڈاکٹر خان نیدرلینڈز (ہالینڈ) سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور دو صاحبزادیاں بھی تھیں۔

ابتدا میں ڈاکٹر خان نے پاکستان اٹامک انرجی کمشن (پی اے ای سی) کے ساتھ کام کیا لیکن ادارے کے سربراہ منیر احمد خان سے ان کے اختلافات ہو گئے۔

1976 کے وسط میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر ڈاکٹر خان نے ‘انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری’ (ای آر ایل) قائم کی تاکہ یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ مئی 1981 میں اس لیبارٹری کا نام ‘خان ریسرچ لیبارٹری’ یا ‘کے آر ایل’ رکھ دیا گیا جس کا مرکز کہوٹہ میں تھا۔

ڈاکٹر خان نے جرمن نمونے کے مطابق سینٹری فیوج کا ابتدائی نمونہ تیار کیا اور ضروری اجزا کی درآمد کے لیے پرزے فراہم کرنے والوں کی فہرست استعمال کی۔ پرزے فراہم کرنے والوں میں دیگر کے علاوہ سوئس، ڈچ، برطانوی اور جرمن کمپنیاں شامل تھیں۔

’’زیادہ بم بنانے کی کیا ضرورت ‘ دونوں طرف ایک دو ہی کافی ہوں گے‘‘

قصہ کلدیپ نائر سے ملاقات کا

28 جنوری 1987 کی سہ پہر پاکستان کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے E-7 میں واقع اپنی رہائش گاہ پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ اکیلے تھے جب سکیورٹی افسر نے چند مہمانوں کی آمد کی اطلاع دی۔ان مہمانوں میں سے ایک ملک کے معروف صحافی مشاہد حسین سید تھے۔ ڈاکٹر خان نے سکیورٹی افسر سے کہا کہ مہمانوں کو اندر لے آئیں ۔

ڈاکٹر خان مہمانوں سے ملنے آئے تو مشاہد حسین نے دوسرے مہمان کا تعارف کلدیپ نائرکے طور پر کرایا جو انڈین پنجاب سے تعلق رکھنے والے مشہور صحافی تھے۔

مشاہد حسین نے ڈاکٹر خان کو بتایا کہ کلدیپ نائر اُن کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان آئے ہیں جو ایک ہفتے بعد ہونے والی تھی۔ چائے پیتے ہوئے ڈرائنگ روم میں موجود تینوں افراد کے درمیان بھارت پاکستان تعلقات، برصغیر کی تاریخ ہندو مسلم تعلقات اور پاکستان کے جوہری پروگرام تک کے موضوعات پر طویل گفتگو ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کا جوہری پروگرام ڈاکٹر اے کیو خان کی زیر نگرانی شروع ہو چکا تھا۔

جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر اے کیو خان کے مطابق مشاہد حسین کی شادی تھی اور کلدیپ نائراس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ہوائی اڈے سے مشاہد حسین سید انھیں سیدھا میرے گھر لے آئے۔ میرے گھر میں کوئی ملازم نہیں لہذا میری بیگم نے ہمارے لئے چائے بنائی تھی۔ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے کو ا پنے انٹرویو میں انہوں نے  ماضی میں جھانکتے ہوئے کلدیپ نائر کی یہ گفتگو دہرائی کہ ’میں سیالکوٹ سے ہوں اور اب نئی دہلی میں رہتا ہوں۔آپ (ڈاکڑ خان) بھوپال سے ہیں اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کلدیپ نائر کا استدلال تھا کہ تقسیم برصغیر ایک ’سراب‘ تھا۔ ڈاکٹر خان نے بتایا کہ میں نے جواب میں ان سے کہا تھا کہ ’آپ نے جو کہا ہے وہ اب تاریخ کا حصہ ہے اور کوئی تاریخ بدل نہیں سکتا۔ آگے چلیں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں۔‘

اس پر کلدیپ نائر کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ دس بم بنائیں گے تو ہم ایک سو بنا لیں گے۔‘ میرا جواب تھا کہ ’اتنی بڑی تعداد میں بم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تین یا چار ہی دونوں طرف کافی ہوں گے۔‘ ڈاکٹر اے کیو خان نے اس بارے میں یہ بھی بتایا تھا کہ ’کلدیپ نائر نے میرے ساتھ ہونے والی اس غیر رسمی گفتگو کو انٹرویو بنا کر ’لندن آبزور‘ کو 20 ہزار پاونڈز میں بیچ دیا۔ انٹرویو تو ہوا ہی نہیں تھا، یہ تو چائے پر ہونے والی محض ایک گپ شپ تھی۔‘

کے آر ایل کو ایٹمی تجربات کا حق دلانے کی جد و جہد

مئی 1998 کے جوہری دھماکے کرنے کے حق کو حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر خان نے اسلام آباد کی بیوروکریسی کے پورے نظام کے ساتھ جنگ لڑی۔ ان کے مد مقابل پاکستان اٹامک انرجی کمشن کا ادارہ تھا۔

2000 میں ‘پاکستان ڈیفنس جرنل’ (پاکستان کا دفاعی مجلہ) میں شائع ہونے والی ان کی بیوروکریسی کے خلاف جنگ کی تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر اے کیو خان نے مئی 1998 کے دوسرے ہفتے میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے سامنے اپنا کیس پیش کیا۔

رپورٹ کے مطابق انھوں نے زور دیا کہ ’کے آر ایل پوری طرح سے تیار ہے اور اگر ‘ڈی سی سی’ (کابینہ کی دفاعی کمیٹی) حکم دے تو دس دن کے اندر جوہری دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ کہ کے آر ایل ہی تھا جس نے پہلی بار یورینیم افزودہ کی،اسے دھات میں بدلا، نیم دائروں میں دھات کو مشین میں ڈھالا اور اپنی قسم کے جوہری بم کی شکل دی اور پھر اپنے طور پر اس کے ‘کولڈ ٹیسٹ’ (کمپیوٹر پر جوہری دھماکوں کو جانچنے کا طریقہ) کئے۔‘

’یہ سب کامیابیاں ‘پی اے ای سی’ کی کسی مدد کے بغیر حاصل ہوئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ جوہری شعبے میں کے آر ایل مکمل طور پر خودمختار ہے۔ ڈاکٹر خان نے اس حد تک کہا کہ چونکہ پاکستان کے لیے جوہری شعبے میں پہلی رسائی کے آر ایل کی وجہ سے ہوئی ہے لہذا پاکستان کے پہلے جوہری دھماکوں کو انجام دینے کا اعزاز بھی اسے ہی ملنا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ادارہ مایوسی اور بددلی محسوس کرے گا۔

زندگی کا سفر

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپریل 1936ء میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ 1952ء میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ جبکہ ان کے کچھ رشتہ د ار پہلے ہی پاکستان آ چکے تھے۔

انہوں نے 1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے میٹلرجی کے شعبے میں ڈگری حاصل کی جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی چلے گئے۔ پہلے وہ برلن کی ٹیکنکل یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے جس کے بعد ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلف سے ماسٹرز آف سائنس کی ڈگری حاصل کی اور پھر بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤں سے ڈاکٹریٹ آف مٹیلرجیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انہوں نے ایمسٹرڈیم کی فزیکل ڈائنا مکس ریسرچ لیبارٹری میں کام کا آغاز کیا۔

وہ 1976ء میں وطن واپس آئے اور انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ اس ادارے کا نام 1981ء میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے بدل کر ان کے نام پر ڈاکٹر اے کیوں خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ 1998ء میں جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی تجربات کئے تو ڈاکٹر عبدالقدیر کو بطور خاص چاغی بلایا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ہاتھوں قائم ہونے والے اس ادارے نے آگے چل کر پاکستان کے میزائل پروگرام کو بھی غیر معمولی ترقی اور کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قومی ہیرو کی حیثیت سے دیومالائی شہرت حاصل کی۔ وہ ایک طویل عرصے تک اس پروگرام کے سربراہ رہے۔ مئی1998ء میں جب پاکستان نے انڈیا کے ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب جوہری تجربہ کیا تو بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان کے پاس نہیں تھی بلکہ یہ اعزاز ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے حصے میں آیا۔

لیکن اس کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بڑھ کر کسی اور شخصیت کو پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی جب ڈاکر قدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی قیادت کے لئے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو ہالینڈ کی حکومت نے جہاں وہ ایٹمی لیبارٹری میں تعینات تھے‘ اہم ایٹمی معلومات چرانے کے الزام میں ان پر مقدمہ دائر کر دیا تھا۔

ایران ، شمالی کوریا اور لیبیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے حوالے سے جب بحران سامنے آیا تو تو ڈاکٹر قدیر کو  13جنوری 2004  کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔  4 فروری کو انہوں نے قومی ٹیلی ویژن پر آ کر ریاست پاکستان پر لگنے والے الزامات کو تسلیم کر لیا اور جو بھی غیر قانونی حرکت ہوئی تھی اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس سے اگلے روز صدر مشرف نے ان کی معافی کا اعلان کر دیا۔ انہیں پانچ برس تک ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد کا عرصہ بھی اُن کی نقل وحرکت کو محدود رکھا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کی جانب سے بعد میں سامنے آنے والے موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ریاست پاکستان کو کسی مصیبت کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے تمام الزامات اپنے سر لے لئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس برس 26 اگست کو کورونا کا شکار ہوئے تھے‘ بیماری میں شدت آنے کے باعث انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ کچھ روز میں طبعیت بہتر ہوجانے پر انہیں گھر منتقل کردیا گیا تھا۔

11 ستمبر کو میڈیا کو جاری کی جانے والی اُن کی ایک ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اب صحت یاب ہیں لیکن 10 اکتوبر کی صبح ان کی طبعیت اچانک پھر بگڑ گئی جس پر انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔