پنڈی سازش کیس کا آخری کردار (2)

زاہدہ حنا  بدھ 13 اکتوبر 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ ایک ایسا سنسنی خیز مقدمہ تھا جس نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ہندوستان میں بھی اس کی گونج تھی اور سجاد ظہیر کا نام کچھ کم دھماکا خیز نہیں تھا۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ افواہیں یہ چل رہی تھیں کہ فیض صاحب کو پھانسی دے دی جائے گی۔ فیض پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں نہایت مقبول تھے۔ ان کو پھانسی دینے کی افواہ لوگوں کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھی۔

ٹریبیونل نے پانچ جنوری 1953کو مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ جنرل اکبر کو 12 برس قید کی سزا سنائی گئی جب کہ باقی افسران کو چند برسوں کی (چار سے پانچ برس) قید کی سزا دی گئی۔ میجر جنرل (نذیر احمد) کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا دی گئی۔ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کو پانچ پانچ برس کی سزا سنائی گئی۔ بیگم نسیم اکبر (نسیم جہاں) کو دو برس قید میں رکھنے کے بعد بری کر دیا گیا۔ ٹریبیونل نے نسیم کے بارے میں کہا کہ اْنھیں سازش کا علم تو ہوگا لیکن وہ اکبر خان کی بیوی کی حیثیت سے ہر بات ماننے پر مجبور ہوں گی۔

راولپنڈی سازش کیس کا ٹریبیونل سزائیں سنا کر ختم ہوگیاکیونکہ اس کا کْل یہی مینڈیٹ تھا۔ 1954 میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی یہ کہہ کر تحلیل کر دی کہ یہ اپنا مینڈیٹ کھو بیٹھی ہے کیونکہ یہ آئین بنانے میں ناکام رہی۔ تاہم اسمبلی کے اسپیکر، مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے تحلیل کرنے کے حکم کو اس بنیاد پر رد کیا کہ یہ حکم نامہ غیر آئینی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اسپیکر کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل پر فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے تحلیلی حکم نامے کو درست قرار دیا اور اسی فیصلے میں یہ بھی تعین کردیا کہ آئین ساز اسمبلی نے جو قوانین بنائے وہ اس وقت تک درست ہوں گے اگر ان کی گورنر جنرل نے توثیق کر دی ہو۔

اس طرح اس تحلیل شدہ اسمبلی کے تمام وہ قوانین جن کی گورنر جنرل سے توثیق نہیں لی گئی تھی وہ کالعدم ہو گئے۔ ان کالعدم ہونے والے قوانین میں سے اس سازش کے مقدمے کو سننے والے ٹریبیونل کا قانون بھی شامل تھا۔ ملزمان نے نئی آئینی صورتِ حال میں راولپنڈی سازش کیس کا قانون عدالت میں چیلنج کیا اور بالآخر انھیں رہائی مل گئی۔ تاہم ان میں سے کسی کو نوکری پر بحال نہیں کیا گیا اور نہ ان کے نقصانات کا کوئی ازالہ کیا گیا۔

1951کی راولپنڈی سازش کے بارے میں مبصرین کہتے ہیں کہ یہ مبینہ طور پر فوج کی ایک سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس کے علاوہ اس مبینہ سازش میں ایک اور منفرد بات یہ تھی کہ یہ واحد مبینہ سازش ہے جس میں پاکستان کی ایک سیکیولر اور کمیونسٹ پارٹی پر فوج کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام بھی لگا، جب کہ اس کے برعکس جن مورخین نے ان معاملات پر تحقیق کی اور سازش کے ثبوت مانگے ہیں۔

ان کے بقول اصل سازش حکومت کا تختہ الٹنے کی نہیں تھی ، بلکہ اصل سازش تحتہ الٹنے کے نام پر قوم پرست پاکستانی فوجیوں اور کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کو منظر نامے سے ہٹانے کے لیے تیار کی گئی تھی جوکہ اس دورکی سرد جنگ اور امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ تھی۔ تاہم پاکستان کی قومی تاریخ اور شعور میں یہی سمجھا اورکہا جاتا ہے کہ 1951 میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔

محقق سعدیہ طور اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا تسلسل کے ساتھ برقرار رکھے جانے والے بیانیے کو قرار دیتی ہیں ’’ جتنا بڑا ایک گروہ ہو گا یا اْس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہو گی، تو اْس کے پاس اپنا پیغام دور دور تک اور بہت زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے اور متبادل حقائق کو دبانے کے اْتنی ہی زیادہ وسائل ہوں گے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اس سازش کے واقعے کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور ان کی حکومت اور اس سے وابستہ میڈیا اور اخبارات نے جس انداز سے کور کیا اْس کے نتیجے میں اس سازش کے حقیقی ہونے اور اس میں شامل کرداروں کو ملک دشمن ثابت کرنے کا پورا ماحول تیار کر لیا گیا تھا، جس کا اثر آج تک موجود ہے۔

کامران اسد علی کے مطابق، فیض احمد فیض کو بدنام کرنے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرپرستی، لبرل اور دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے صحافیوں کے ذریعے مہم چلوائی گئی جس میں انھیں ریاست مخالف اور اسلام دشمن بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بعض موقعوں پر تو گستاخِ رسول جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

راولپنڈی سازش کیس میں فیض اور سجاد ظہیر سمیت چند نامور شخصیات اسیر رہیں۔ فوج سے وابستہ اور بعدازاں فکشن نگاری کی سمت آنے والے، ظفر اللہ پوشنی پر بھی مقدمہ ہوا۔ وہ ان ’’شرپسندوں‘‘ میں سب سے کم عمر تھے۔ انھوں نے اس زمانے کی یادوں کو ’’زندگی زنداں دلی کا نام ہے‘‘ کے زیرِ عنوان قلم بند کیا۔ جس میں عید سے جڑے چند دلچسپ واقعات ملتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’ البتہ ایک نوازش ہمارے حال پر ضرور کی گئی اور وہ یہ کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر ہم تمام ملزموں کو اپنے عزیزوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں اکٹھا ہونے اور ان کے ساتھ کھانا کھانے کی خاص اجازت دے دی گئی۔ ہم نے مقدمے کی سماعت کے دوران میں ایسی کل 4 عیدیں حیدرآباد جیل میں گزاریں۔ ہم سب 4گھنٹے تک ایک بڑے ہال میں اکٹھے بیٹھتے تھے، اور خوب رونق رہتی۔‘‘

اسی مضمون میں ظفر اللہ پوشنی عید کے روز ملنے والی ظہرانے کی ایک دعوت کا ذکر کرتے ہیں،جو اسیروں کے درمیان موضوعِ بحث بن گئی تھی۔ ان کے بقول، عید میں ابھی چند روز باقی تھے۔ ایک شام کو اکبر خان نے دوستوں (اسیروں) کو یہ خبر دی کہ سرکاری وکیل مسٹر بروہی نے تمام ملزموں کو عید کے روز دوپہر کے کھانے پر مدعوکیا ہے۔

’’کس نے دعوت دی ہے؟‘‘ فیض نے حیران ہوکر پوچھا ، ’’ ذرا پھر سے کہنا؟‘‘ ظفر اللہ پوشنی بھی حیران تھے۔ ایسے میں ایک صاحب نے طنزاً یہ کہہ کر بات آگے بڑھائی کہ ’’ وہ باہر لے جاکر کسی ہوٹل میں کھانا کھلائیں، تو بات بنے۔‘‘

مصنف کے مطابق عید آنے تک لنچ کی یہ دعوت زیرِ بحث رہی۔ جب فیض صاحب سے اس بابت پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا، ’’ یہ بلاوا اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اسے ضرور منظور کرلینا چاہیے۔‘‘

سجاد ظہیر نے فیض کی تائید کی، انھوں نے کہا کہ ’’دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی سرکاری وکیل نے ایسے ملزموں کو کھانے پر مدعو نہیں کیا ہوگا ، جنھیں وہ عدالت میں غدار اور سنگین مجرم ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔‘‘ اکثریت دعوت قبول کرنے کے حق میں تھی، مگر بقول پوشنی میجر حسن خان لٹھ لے کر میدان میں کود پڑے۔

سرکاری وکیل کے بھی لتے لیے، اپنے دوستوں کو بھی خوب سنائی۔ بحث بڑھی، شگوفے بھی پھوٹے، پْر لطف جملے کہے گئے ، مگر آخر میں فیض صاحب نے حسن خان سے کہا ’’ حسن خان، مجھے دوستی زیادہ عزیز ہے، اگرچہ میں ذاتی طور پر دعوت نامہ منظور کرنے کے حق میں ہوں، لیکن میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ چونکہ تمہیں اس بات پر شدید اعتراض ہے، اس لیے برادرم من میں لنچ پر نہیں جاؤں گا۔‘‘

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔