بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

جنگل کا آخری قدم
شاعر: افضال نوید،قیمت:1600روپے،صفحات:416
ناشر: بک ہوم ،46 مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)


خیالات کے انبوہ میں جنگل میں اکیلے نکل جانا ، فکر و نظر میں تو اسے تنہائی کہیں گے، مگر شاعر کی فکر میں ایک عالم بسا ہوتا ہے جو جنگل کی خاموشی کی آواز کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ افضال نوید اپنی شاعری سے سوچ کے نئے زاویے عطا کرتے ہیں ۔ وہ جو سوچتے اور محسوس کرتے ہیں وہ بلاکم و کاست بیان کر دیتے ہیں ۔ مگر ان کا انداز بیان ذرا ہٹ کر ہے، انوکھا ہے جو چونکا دیتا ہے ۔ جیسے

دھڑکتی آتما کے جمگھٹے کے بل لے کر
نوید آئے توازن میں ہم خلل لے کر

حسین مجروح کہتے ہیں ’’ افضال نوید کے ہاں بیان کا انوکھا پن اس کے موضوعات کی رنگارنگی میں یوں گندھا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے علاحدہ کر کے دیکھنا خاصا محال ہے بلکہ تکمیلیت کے تعویذ میں اور باہمی تال میل سے ایک ایسی گل رنگ اور دسمبر کی دھوپ کی طرح زرتاب حرارت بہم کرتے ہیں جسے تاپا جا سکتا ہے ناپا نہیں جا سکتا۔‘‘ اسی طرح کاشف نعمانی کہتے ہیں’’ افضال نوید ایک مشکل پسند اور منفرد غزل گو ہے ۔ یہ کہنا اگرچہ مشکل ہے کہ وہ اپنی مشکل گوئی کی وجہ سے منفرد ہے یا اپنی انفرادیت کی وجہ سے مشکل نظر آتا ہے ۔

وجہ جو بھی ہو اس کی شاعری میں پائے جانے والے اشکال کا ایک سبب یہی تہہ در تہہ امیجز کا استعمال ہے۔ امیجز کی یہ تہہ داری افضال نوید کی شاعری کا حسن بھی ہے اور اس حسن کی تعبیر میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ۔ ‘‘ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کہتی ہیں ’’ پڑھنے والوں کو متفق ہونا پڑے گا کہ کلام غالب اپنی جگہ اور افضال نوید کی ’’ جنگل کا آخری قدم ‘‘ اپنی جگہ مسلم ہے کیوں کہ افضال نوید جیسا اسلوب نہ کلاسیک میں ہے نہ موجودہ نوجوان لکھاریوں کے ہاں ہے اور نہ ہی ستر کی دہائی میں ایسا تھا ‘‘۔ شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لئے خاص تحفہ ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

سیلز میں کامیابی کے راز
مصنف: برائن ٹریسی،مترجم: صغیر احمد،قیمت:600 روپے،صفحات:224
ناشر: بک ہوم،46 مزنگ روڈ، لاہور(03014568820)


ہرکس و ناکس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے جس میدان میں بھی قدم رکھے کامیابیاں اس کے قدم چومیں ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ تن من دھن سے محنت کرتے ہیں، مگر درست سمت میں ۔ درست سمت میں اس لئے کہا کیونکہ محنت اس وقت ہی پھل لاتی ہے جب آپ موقع محل کی مناسبت اور درست سمت میں قدم اٹھاتے ہیں ۔

سیلز یعنی خریدوفروخت کی دنیا بڑی وسیع ہے اس میں آپ جتنا چاہیں آگے بڑھتے چلے جائیں ۔ مگر اس میدان میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب میں سیلز کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ برائن ٹریسی کا شمار دنیا کے بہترین سیلز ٹرینر میں ہوتا ہے،ان کے عالمی شہرت یافتہ آڈیو تربیتی پروگرام ’’سیلز میں کامیابی کے راز ‘‘ نے پوری دنیا میں ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی۔

وہ خود اپنی اس کتاب کے بارے میں کہتی ہیں’’اس کتاب کا مقصد آپ کو ایسے آئیڈیاز ، لائحہ عمل اور طریقوں سے متعارف کروانا ہے جن کی پیروی سے آپ صحیح معنوں میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو پہچان پائیں گے اور آپ محسوس کریں گے کہ سیلز کیریئر میں حاصل ہونے والی کامیابیاں آپ کے تصورات و خیالات سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں ۔

سیلز کا داخلی معاملہ، اہداف کا تعین اور حصول، لوگ خریداری کیوں کرتے ہیں، تخلیقی سیلنگ، ترغیب کی قوت، زیادہ اپائنٹمنٹس حاصل کرنا ، سیلز کا اصل عمل اور سیلز میں کامیابی کے دس مستند گر کے عنوانات سے کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ سیلز سے تعلق رکھنے والوں کو تو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی اسے پڑھنا چاہیے تاکہ انھیں کامیابیاں سمیٹنے کے فن سے آشنائی ہو ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

کٹی پوروں سے بہتی نظمیں
شاعر: سلیم شہزاد،قیمت: 600روپے،صفحات:160
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)


شعر جھنجھوڑ دیتے ہیں، ہلا دیتے ہیں ، دل کے تاروں کو چھیڑ دیتے ہیں ، درد جگا دیتے ہیں ، چونکادیتے ہیں ، اندر کا موسم بدل دیتے ہیں ، ان کیفیات کو محسوس کرنا ہو تو آپ کو سلیم شہزاد کی ’’کٹی پوروں سے بہتی نظمیں‘‘ پڑھنا ہو گی ۔ پڑھنے والا جیسے خش و خاشاک کی طرح زورآور ندی میں بہتا چلا جاتا ہے ۔

محمد اظہار الحق کہتے ہیں ’’ سلیم شہزاد کی شاعری مجھے دشت مصاف لگتی ہے، دو لشکر آمنے سامنے صف آراء ہیں ۔ ایک طرف کوے ہیں اور بھیڑیے، سانپ ہیںاور بچھو اور بارود ! اور ان کے مدمقابل کون ہے ؟ فاختہ ، چڑیا، تتلیاں، خرگوش، جھینگر اور چیونٹیاں ! خیر اور شر کی اس ازلی ابدی جنگ کو ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھا سلیم شہزاد لمحہ لمحہ لہو کی بوند بوند ریکارڈ کر رہا ہے ! کوئی روزنامچہ اس سے زیادہ لائق اعتبار نہیں ہو سکتا ۔‘‘ ڈاکٹر وحید احمد کہتے ہیں ’ سلیم شہزاد اردو نظم کے ممتاز شاعر ہیں۔ منفرد انداز بیاں نے انھیں دنیائے ادب میں الگ پہچان دی ہے ۔

سادگی و پرکاری ان کی نظموں کا طرہ امتیاز ہے ۔’’کٹٰی پوروں سے بہتی نظمیں‘‘ پابند، آزاد اور نثری نظموں کا دلکش کالاژ ہے۔ کتاب کیا ہے دروں بینی کی رنگا رنگ سیربین ہے ۔کتاب کیا ہے ، جذبوں کی حیرت سرا ہے جس کے قریب خیالوں کا گھنا جنگل ہے جس میں شاعر ، پرندے اور جانور ہمہ زیست ہیں ۔ ‘‘ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

رب رحمان کے مہمان
مصنف : ڈاکٹر آصف محمود جاہ ،قیمت : 600 روپے،ناشر : علم و عرفان
پبلشرز،الحمد مارکیٹ ، اردو بازار لاہور ، رابطہ : 042-37223584


ڈاکٹر آصف محمود جاہ ان دنوں وفاقی ٹیکس محتسب ہیں۔ متعدد سفرنامے لکھ چکے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ ادھر ان کا سفر مکمل ہوتا ہے، ادھر سفرنامہ تیار ہوتا ہے۔ زیر نظر سفرنامہ دو اعتبار سے منفرد ہے، اولاً سفرنامہ حجاز ہے، ثانیاً بیت اللہ شریف اور روضہ رسول ﷺ کی چھائوں میں بیٹھ کر لکھا گیا ۔اس دوران انھیں ایسے تجربات ہوئے، ایسی کیفیات سے گزرنا ہوا کہ جان کر انسان سرشار ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ سفرنامہ ایک تاثراتی تحریر بھی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’ مکہ مکرمہ میں دوران حج ، مقدس مقامات کے سفر اور آخر میں مدینہ منورہ میں مختلف مقامات کی زیارت کے دوران جو کیفیات دل پر وارد ہوئیں ان سب کا تذکرہ ہے۔ حرم میں نمازوں کے دوران طواف کے دوران سعی کرتے ہوئے یا پھر مختلف مناسک حج کے دوران جو کچھ دل پہ بیتا وہ عین اسی وقت ضبط تحریر میں لایا گیا۔ حرم اور مناسک حج کے علاوہ مکہ مکرمہ میں مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے ان مقامات پر دل کی جو کیفیت ہوئی ، وہ بھی اسی وقت احاطہ تحریر میں لائی گئی اور کوشش یہی کی گئی ہے کہ ان تمام مقدس اوقات کے ایک ایک لمحے کے لمحاتی تاثرات اور دل پر گزری کیفیات کو محفوظ کرکے اسی لمحے قلم بند کر لیا جائے ۔‘‘

ظاہر ہے کہ دل پر جو گزرے اور پھر وہ دل سے نکلے تو وہ بات اثر رکھتی ہے۔

مصنف لکھتے ہیں : ’’ اللہ کے گھر پر نظر پڑتے ہی پہلے چکر میں انسان کعبۃ اللہ کو دیکھ کر مبہوت و مخمور ہو کر اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے سے آئے تمام افراد اپنا وجود کھو دیتے ہیں ۔ وہ ایک ذرہ بن جاتے ہیں اور وہ ذرہ بن کر اللہ کے گھر میں جذب ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ ہوتے ہیں پر نہیں ہوتے۔ ایک صرف اللہ کا گھر ہوتا ہے۔ باقی سب فنا ہو جاتا ہے۔ فنا فی البیت اللہ ہو جاتا ہے۔ حل ہو جاتا ہے ۔ محلول میں سب حلول کر جاتا ہے۔ کسی کو اپنی پہچان نہیں رہتی۔ سب اللہ کے گھر میں آکر اس کے دربار میں پہنچ کر اپنے آپ سے ، اپنی ذات سے بے نیاز اور بیگانہ ہو جاتے ہیں ، بے خود ہو جاتے ہیں۔‘‘

ایک اعلیٰ سرکاری عہدے کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مصنف خدمت انسانیت کے عنوان سے بھی ایک بھرپور زندگی گزارتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی کتابیں بھی منصہ شہود پر آتی رہتی ہیں ، جو بتاتی ہیں کہ زندگی ایسے ہی گزارنی چاہئیے ۔

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی پانچ نئی کتابیں


علمی و ادبی دنیا میں پروفیسر ہارون الرشید تبسم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ معروف استاد، ماہر اقبالیات، دانشور، ادیب و شاعر اور عظیم محب وطن شخصیت کے مالک ہیں۔ اقبال ؒ ، قائد اعظم ؒ اور پاکستانیت ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا بنیادی موضوع رہا ہے اور یہی موضوع ہی ان کی تمام تحریروں کا محور و مرکز ہے۔

ایک عرصہ تک تعلیم و تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی علم کی روشنی عام کرتے رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا جنون انہیں آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ علمی و ادبی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہنے والے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے پاکستان کے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر اہل پاکستان کو پانچ خوبصورت کتابوں کا تحفہ پیش کیا ہے۔

جن میں’’شوکت اقبال ؒ ‘‘،’’ اقبالیاتی کتب مینار‘‘۔ ’’قائد اعظم شناسی‘‘، ’’بالاں لئی اقبال ؒ ‘‘ ( پنجابی ) او ر ’’وقار ِ پاکستان‘‘ شامل ہیں۔’’شوکت ِ اقبال ؒ ‘‘ 368 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کی اہم کتب پر ڈاکٹر تبسم کے تحریر کردہ تجزیے اور تبصرے شامل ہیں۔

’’اقبالیاتی کتب مینار‘‘ 240 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے کتابیات ِ اقبال کا چھوٹا لیکن اچھوتا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جا سکتا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بارے میں تحریر شدہ کتب پر ڈاکٹر تبسم کی رائے اور تبصرہ ’’ قائد اعظم شناسی ‘‘ میں شامل ہے۔ یہ کتاب 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’وقار ِ پاکستان‘‘ کے نام سے منظر ِ عام پر آنے والی کتاب کے 240 صفحات ہیں۔ اس کتاب میں پاکستان کی ترقی کے پچھتر(75) برس کی فتوحات کا تذکرہ ہے۔ پنجابی زبان میں مرتب کردہ ڈاکٹر عبدالرشید تبسم کی کتاب کا نام ’’بالاں لئی اقبال ؒ‘‘ ہے۔

یہ کتاب 200 صفحات پر محیط ہے۔ بچوں کے لیے حضرت ِ اقبال ؒ نے نظمیں لکھیں ان کا پنجابی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ پانچوں کتب مثال پبلشرز، فیصل آباد نے شائع کی ہیں ۔ یہ تمام کتب پاکستان سے عشق اور بانیان ِپاکستان کی قدرو منزلت اور عزت و وقار کے جذبات کی آئینہ دار ہیں۔ جن کا بنیادی مقصد پاکستان کی نئی نسل کو پاکستانیت اور اکابرین پاکستان کے بارے میں آگاہ کرنا ا ور ان کے دل میں حب الوطنی کے جذبات اجاگر کرنا ہے۔

اقبالیات، پاکستان اور قائد اعظم کے حوالے سے یہ کتب بلاشبہ ہر گھر کی ضرورت اور ہر نوجوان کے لیے قابل ِ مطالعہ ہیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اس خدمت کے لیے تمام اہل پاکستان کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔

سب رنگ کہانیاں
شکیل عادہ زادہ کا نگارخانہ ( حصہ اول )


شکیل عادل زادہ کے نام اور کام سے ہماری ایک پوری نسل آگاہ ہے، باذوق لوگ جنھوں نے ان کی کہانیاں برسوں پہلے پڑھیں، آج بھی ان کے سحر میں گرفتار ہیں، جذب و مستی میں جھومتے رہتے ہیں، موقع ملتے ہی ان کہانیوں کو دوبارہ ، سہ بارہ پڑھتے ہیں ۔ بار بار پڑھتے ہیں۔ دراصل یہ کہانیاں جہاں لطف و انبساط بخشتی ہیں، وہاں بہت کچھ سکھاتی بھی ہیں۔ مثلاً یہ لوگوں کو بات کہنا سکھاتی ہیں ، لکھنا سکھاتی ہیں۔ یہ کہانیاں پوری ایک تہذیب ہیں، پورا ایک تمدن ہیں ۔ پڑھنے والا انھیں پڑھ کر ایک خوبصورت زندگی جینا سیکھتا ہے۔

آئیے ! زیر نظر مجموعہ کی چند کہانیوں کا تعارف کرائوں۔’ قول زریں ‘ ایک ایسی شہ زادی کی کہانی ہے جس کا محبوب ، تاج و تخت ، خدام باندیاں ، سارا جاہ و حشم ، سب کچھ خزاں کھا گئی تھی لیکن وہ ایک شہ زادی رہی گل فام ، نازک اندام۔’ اچھوت ‘ یہ ایک اکلوتے آدمی کی سرگزشت ہے۔ ایسی کہانیاں صرف مغرب میں لکھی جاتی ہیں۔ ’ سر بازار ‘ ایک اپسرا کی داستان ہے جو انیسویں صدی کے ایک دیوانے ادیب کے قلم سے لکھی گئی۔ ’ بوہنی ‘ ایک سیلز مین کی کہانی ہے جو دیدہ و دل فرش راہ کیے پہلے گاہک کا منتظر تھا۔ ’ حاصل ضرب‘ ، ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس سے ابلیس کی دوستی ہوگئی تھی ۔ یہ ’ ٹالسٹائی ‘ نے لکھی جن کا تعلق روس سے تھا لیکن اب وہ سارے دنیا کے ہیں ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں ٹالسٹائی کی لکھی کہانیاں منتقل نہ کی گئی ہوں۔’ حاصل ضرب ‘ پر فلم بھی بن چکی ہے۔

’ بے ہنر ‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی زلفیں ریشم ، آنکھیں غزالیں تھیں جو سراپا ناز تھی ، سر تا پا بہار تھی۔ جو بھی اس سے آشنا ہوتا ، اس عورت میں ایک سے بڑھ کر ایک اور ہی خوبی پاتا ۔’ آشیاں سلامت ‘ ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جس نے آشیانہ بنایا تھا۔ یہ کہانی اس قدر مقبول ہوئی کہ اس پر امریکا میں متعدد بار ڈرامے بنے۔’ درجہ ‘ ایک دولت مند سے متعلق ہے جو نوجوان لڑکیوں کے خواب خرید لیتا تھا ۔اس کا لکھنے والا ’ او ہنری‘ ہے۔ ’ نا تراش ‘ ایک ایسے آدمی کی داستان ہے جس کی آنکھ اس کے قلب سے مشروط تھی ۔ ’ گرہ ‘ ایک ہوا باز کی داستان ہے ، وہ ان خوش نصیب نوجوانوں میں سے تھا جنھیں لوگ خط لکھتے ہیں۔ یہ دو خطوں کی ایک شگفتہ نودمیدہ تحریر ہے۔

’ زمیں دوز ‘ اس اعلیٰ آدمی کا قصہ ہے جو ادنیٰ خواب دیکھتا تھا۔ ’ بر ہدف ‘ ایک خوش جمال ۔ خوش خصال خانہ دار کی کہانی ہے جو ایک روز آئینہ دیکھنا بھول گئی تھی۔’ چور چکور ‘ دو شکاریوں کی داستان ہے جو بندوق سے شکار نہیں کرتے تھے۔’ عامل معمول ‘ جرمن ادب سے ایک منفرد ، دلچسپ اور فکر انگیر کہانی ہے ، بظاہر ایک سادہ سی کہانی ہے مگر اس کی سادگی میں جو پرکاری اور معنی خیزی ہے اس نے اس تحریر کو دنیا کی بہترین کہانیوں میں شامل کیا ۔’ خاکستر ‘ ایسے عورت اور مرد کی کہانی ہے جن کے درمیان کوئی رقیب نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ ایک کہانی بن گئے۔’ ٹھوکر ‘ دنیا کے ایک نادر روزگار کہانی کار چیخوف نے لکھی ہے، یہ ایک شوہر کی کہانی ہے جو ایک مرد بھی تھا اور ایک منصب دار بھی۔’ نیم کش ‘ جرمن ادب سے لی گئی دو بہنوں کی کہانی ہے۔ ’ چٹا بندر ‘ چین کے ایک مشہور جنرل کا سفرنامہ زندگی ہے ، وہ ایک زہرہ جمال عورت کا پاسبان تھا۔ آپ یہ کہانی پڑھیں گے تو برسوں اس کے سحر سے نکل نہیں پائینگے۔

’ خمیازہ ‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا آئینہ ٹوٹ گیا تھا۔ موپساں نے یہ کہانی لکھی ہے۔ ’ برفاب ‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو ایک ہی لباس میں رہتی تھی۔ ’ گئو دان ‘ ایک ایسی گائے کا قصہ ہے جس کا شہرہ سارے شہر میں تھا۔ ’ تمغہ عفت مآبی ‘ چینی ادب کی ایک نہایت عمدہ کہانی ہے، اس میں ہمارے بہت سے گھروں کے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ ’ دست لرزاں ‘ ایک سابقہ پولیس افسر کا قصہ ہے جو ایک بہترین نشانے باز تھا، ایک روز وہ خود ہی زد میں آگیا۔ ’ سنہرا جادو ‘ پانچ دوستوں کی ایک خون رنگ داستان ہے جو دوستی کی تجدید کے لئے ایک شکار گاہ میں جمع ہوئے تھے۔ ’ دو بول‘ ایک ایسے مسیحا کی کہانی ہے جسے چارہ گری کے سارے ہنر آتے تھے اور ’ شیشہ ‘ ایک شکوہ کناں کی کہانی ہے جس کا کوئی رازداں نہیں تھا جبکہ ’ وجود ‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو خود پر منکشف ہوگئی تھی۔

شکیل عادل زادہ کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں کہ وہ ایسی کہانیاں جمع کرتے تھے جو کبھی کبھی لکھی جاتی ہیں، وہ ان کہانیوں کا ترجمہ کرواتے اور اس وقت تک شائع نہ کرتے جب تک وہ مطمئن نہ ہو جاتے، چاہے اس کے لئے انھیںمہینوں انتظار کرنا پڑتا ۔ یہ مجموعہ کہانیوں کے تین مجموعوں کا پہلاحصہ ہے، قیمت 900 روپے، ’ بک کارنر ، جہلم ‘ ( رابطہ واٹس ایپ نمبر :03144440882 ) نے، اسے شائع کرتے ہوئے حق ادا کردیا ہے، انتہائی خوبصورت ٹائٹل ، عمدہ طباعت ، مضبوط جلد ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔