15 اکتوبر ’ہاتھ دھونے کا عالمی دن‘

ڈاکٹر عبدالعزیز میمن  جمعرات 14 اکتوبر 2021
صحت مند زندگی کے لیے سب سے مؤثر احتیاطی تدبیر صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ فوٹو : فائل

صحت مند زندگی کے لیے سب سے مؤثر احتیاطی تدبیر صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ فوٹو : فائل

دنیا بھر میں 15 اکتوبر ’’ ہاتھ دھونے کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد لوگوں، بالخصوص بچوں میں ہاتھوں کو صابن کے ساتھ دھونے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ ہاتھ دھونے کی عادت کو پروان چڑھایا اور اس کے ذریعے مختلف بیماریوں سے بچایا جا سکے۔

ہم جانتے ہیں کہ صحت مند زندگی کے لیے صفائی ستھرائی نہایت اہم ہے۔ ہمارے دین نے اس کی اہمیت کو اس طرح سے واضح کیا ہے کہ صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر باطن کے ساتھ ساتھ جسمانی و ظاہری صفائی کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (البقرہ 222)

نبی اکرمﷺ کا ارشاد پاک ہے : پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ (مسلم 223)

آپؐ کی ذات مبارکہ طہارت اور پاکیزگی کا عملی نمونہ ہے۔

کورونا وبا نے ہاتھوں کو صاف رکھنے کی اہمیت مزید بڑھا دی ہے کیونکہ ہاتھوں کو مسلسل صاف رکھنا اس وائرس سے بچاؤ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔اس وبا کے دوران ہم نے یہ سیکھا کہ ہاتھوں کو کم از کم 20سیکنڈز تک صابن سے مسلسل دھویا جائے تو اس پر کسی قسم کے وائرس یا جراثیم باقی نہیں رہتے۔

ہاتھوں کو مسلسل صاف رکھنے سے کورونا وائرس کے علاوہ دیگر کئی بیماریوں سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ان بیماریوں میں ڈائریا، ٹائیفائیڈ، پیٹ کی بیماریاں اور ہیپاٹائٹس اے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ہاتھ دھونے کی اس آگہی مہم کا مرکز و محور کم سن لڑکے اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں اس لیے کہ بچے کسی بھی معاشرے کا سب سے توانا اور چست اور حوصلہ مند طبقہ ہیں اوروہ نئے خیالات کو آسانی سے قبول کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی صفائی کے طرز عمل کو جلد اور باآسانی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اسہال/ دست/ پیچش کے سبب بچوں کی شرح اموات میں خطرناک اضافہ بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ بچوں میں ہاتھ دھونے کی عادت کو پروان چڑھایا جائے تاکہ انہیں مذکورہ بیماریوں سے بچایا جائے جن کے امکانات کو صرف صابن سے ہاتھ دھو کر کئی گنا کم کیا جا سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 87 فیصد پینے کاپانی صاف نہیں ہے اور صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ صفائی کے ناقص انتظام اور ہائی جین سے متعلق عمومی لا پرواہی اسہال یا پیچش کی بنیادی وجہ ہے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے سالانہ 20 ملین سے زائد بچے اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اڑھائی لاکھ بچے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں میں شرح اموات میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے افراد تو پانی کی کمی کو پورا کر کے اور حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر مذکورہ بیماریوں سے چھٹکارا پا لیتے ہیں لیکن کم سن بچے جنہیں حفظانِ صحت کے اصولوں کا شعور نہیں ہوتا اور نہ ہی صاف پانی کے استعمال سے متعلق مناسب آگہی ہوتی ہے، وہ ان مہلک بیماریوں کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔اس بناء پر بچوں کو اس آگاہی مہم میں مرکزی اہمیت دی جاتی ہے۔

اسہال کی بیماری مختلف جراثیم سے پیدا ہوتی ہے ۔ انسانی فضلے سے پیدا ہونے والے یہ جراثیم، آلودہ پانی یا جراثیم والے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اس بیماری کو روکنے کا سب سے مؤثر اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کو جراثیم سے پاک رکھا جائے، صاف پانی کا استعمال کیا جائے اور کھانے سے قبل ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھویا جائے۔

دیہی علاقوں میں چونکہ مناسب تعلیم اور آگاہی دونوں کی کمی ہے ، اس لیے ان علاقوں میں ڈائریا، ٹائیفائیڈ، پیٹ کی بیماریاں اور ہیپاٹائٹس (اے)جیسی بیماریاں بہت عام اور شدت کے ساتھ حملہ آور بھی ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو پہلے پیٹ کا درد ہوتا ہے، مروڑ اٹھتے ہیں، پاخانہ بار بار آتا ہے اور آنکھیں پیلی ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔

جب بھی کسی فرد یا بچے میں اس طرح کی علامات نظر آئیں، ورثا کو چاہئے کہ فوراً اپنے قریبی مرکزِ صحت میں رابطہ کریں۔ بعض اوقات ان بیماریوں کو معمولی سمجھ کر سے صرف نظر کرنے سے وہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہیں اور بعد ازاں ان کا علاج بھی اسی قدر مشکل اور مہنگا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مذکورہ علامات کے بعد علاج میں تاخیر نہ کی جائے۔

بالعموم یہ بیماریاں تمام ہی عمر کے افراد کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہیں لیکن بچوں میں بالخصوص ان کے اثرات شدید ہوتے ہیں۔یہ بیماریوں جس قد ر مہلک ہیں ان سے محفوظ رہنا اتنا ہی آسان ہے، بنیادی طور پر روز مرہ زندگی میں صحت و صفائی کے اصولوں کو مد نظر رکھنا اور اس سے متعلق شعور سے آگہی سب سے اہم ہے۔

ہمیں خود بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے اور بچوں کو بھی تاکید کرنی چاہیے کہ درج ذیل صورتوں میں لازمی اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ کم از کم 20سیکنڈز تک دھوئیں:

1۔ بیت الخلاء سے فراغت کے بعد
2۔کھانا کھانے سے پہلے
3۔ کھانا تیار کرنے، تقسیم کرنے یا کھانا تیار کرنے میں مدد دینے سے قبل
4۔ ہاتھ واضح طور پر گندے دکھائی دینے کے بعد
5۔ ہاتھوں میں کھانسی کرنے یا چھینکنے کے بعد
6۔ گھر میں واپس لوٹنے کے بعد

اس کے علاوہ پینے کے پانی کو ابال کر استعمال کرنا اور پینے کے پانی کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔

ہاتھ دھونے کے طریقہ کار کے حوالے سے کئی عالمی اور قومی گائیڈ لائینز موجود ہیں۔ پاکستان میں قومی ادارہ صحت نے بھی یہ گائیڈ لائینز شائع کی ہیں ۔ ان کے مطابق ہاتھوں کو دھونے سے ان پر جراثیم کا بالکل خاتمہ یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار درج ذیل ہے:

1۔ ہاتھوں پر اچھی طرح صابن لگائیں۔
2۔ دونوں ہتھیلیوں کو مخالف ہاتھ کی مدد سے خوب رگڑیں۔
3۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پشت سے ملا کر باری باری صاف کریں
4۔ باہم انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر صاف کریں۔
5۔ انگوٹھوں کو ہتھیلی سے گھما کر صاف کریں۔
6۔ بند انگلیوں کی پشت کو ہتھیلی کے ساتھ رگڑیں۔

ہاتھ دھوتے ہوئے اکثر انگلیوں کے سرے، ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور انگوٹھے صاف ہونے سے رہ جاتے ہیں ۔ ان حصوں کو صاف کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

حفظان صحت کے لیے صفائی کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں اور ہمارا دین بھی ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں بالخصوص دیہی علاقوں میں ہاتھوں کی صفائی اور صاف پانی کے استعمال کے کلچر کو فروغ دیا جائے اور اس کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عوامی شعور کی آگہی کی مہمات چلائی جائیں تاکہ صحت و صفائی کے ذریعے صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

( ڈاکٹر عبدالعزیز میمن ماہر امراض جلد ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن( پیما ) سندھ کے سابق صدر ہیں۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔