- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
ماں کا ذہنی تناؤ نسلوں تک منتقل ہوسکتا ہے
آئیووا: ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماں کا دماغی تناؤ اور پیچیدگیاں اگلی بلکہ اس سے اگلی نسل تک بھی منتقل ہوسکتی ہیں۔
جامعہ آئیووا کے سائنسدانوں نے اس کے لیے کیچووں (راؤنڈ ورم) کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جب ان کیڑوں کو گرمی کے تناؤ کا سامنا ہوتا ہے تو اس کے نقوش ان کے جین تک پہنچتے ہیں اور وراثت کے تحت نہ صرف ان کی اگلی نسل (اولاد) بلکہ اس کی بھی اگلی نسل تک جا پہنچتے ہیں۔
یونیورسٹی میں شعبہ حیاتیات کی پروفیسر وینا پرلاد نے بتایا کہ کسی خطرے، مثلاً درجہ حرارت میں تبدیلی کی صورت میں کیچوے کا فوری احساس کرتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں نقصان یا موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ خطرے میں وہ سیروٹونِن خارج کرتے ہیں جو مرکزی اعصابی نظام تک جاتا ہے اور وہاں سے غیربارآور انڈوں تک جاپہنچتا ہے۔ یہاں وہ انڈوں میں جمع ہوجاتا ہے اور ازخود بچوں تک منتقل ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ کیچوے بہت حد تک انسانی جین رکھتے ہیں اور ان پر تحقیق کا اطلاق ایک حد تک انسانوں پر ہوسکتا ہے۔ ایک مثال 1945 میں ہالینڈ کے قحط سے ہوتے ہیں جسے ’ڈچ ہنگرونٹر‘ کا نام دیا گیا تھا۔ بھوک اور قحط سے مائیں ذیابیطس اور ذہنی امراض کی شکار ہوئی تھیں اور یہ کیفیت ان کی اولاد میں بھی دیکھی گئی تھی۔
اس طرح ذہنی تناؤ یا جسمانی ایذا کی یادداشت اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ جین میں ثبت ہوکر اگلی نسلوں تک جاپہنچتی ہے۔ اسی طرح خود جین کی یادداشت بھی ہوتی ہے اورماحولیاتی آلودگی سے بھی ان پر یادداشت ثبت ہوجاتی ہے۔ پھر یہ نسل خیزی کے دوران دوسری نسل تک جاتا ہے۔
اسی طرح کیچووں میں ذہنی تناؤ کی معلومات ان کے انڈوں تک جاتی ہے جہاں ایک پروٹین ایچ اس ایف ون میں منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ پروٹین اگلی نسلوں تک کئی تبدیلیوں کی وجہ بنتا ہے۔ اس لیے اگر کیچووں کو طویل عرصے تک کسی دباؤ یا خطرے کی تناؤ بھری کیفیت میں رکھا جائے تو اس کا اثر اگلی دونسلوں تک جاپہنچتا ہے جس کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔