2050 تک نابینا افراد کی تعداد 115 ملین ہونے کا خدشہ ہے، ماہرین

ویب ڈیسک  جمعـء 15 اکتوبر 2021
پاکستان میں امراضِ چشم کا پھیلاؤ روکنے کےلیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، منزہ گیلانی۔ (فوٹو: سائٹ سیورز پاکستان)

پاکستان میں امراضِ چشم کا پھیلاؤ روکنے کےلیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، منزہ گیلانی۔ (فوٹو: سائٹ سیورز پاکستان)

اسلام آباد: گزشتہ روز پوری دنیا میں بینائی کا عالمی دن منایا گیا تاکہ عوام میں بینائی اور امراضِ چشم سے متعلق آگاہی پیدا کی جاسکے اور اس سے متعلق حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔

اس موقع پر سائٹ سیورز پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر منزہ گیلانی نے ایک بیان میں کہا کہ بینائی سے متعلق 80 فیصد بیماریاں قابل علاج ہیں لیکن آنکھوں کے علاج کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے اور عوام میں ان کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ علاج نہیں کروا پاتے۔

نتیجتاً اُن میں نابینا پن ایک مستقل معذوری کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور وہ متاثرہ افراد زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ کر غربت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نابینا پن کے شکار افراد اور گھرانے غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارتے ہیں اور ان کی معذوری ان کے مزید غریب ہونے کے امکان کو بڑھا دیتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت 2.2 ارب سے زیادہ افراد آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ان کی تعداد، ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ متاثرہ افراد میں سے 50 فیصد کا مرض قابل علاج ہے۔

اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو پوری دنیا میں نابینا افراد کی تعداد 2050 تک 11 کروڑ 50 لاکھ کا ہندسہ عبور کرسکتی ہے جو موجودہ تعداد کے مقابلے میں تقریباً تین گنا ہوگی۔ اس کے سالانہ نقصان کا تخمینہ 410.7 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

منزہ گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی سہولتوں کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ نابیناپن کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سائٹ سیورز نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر بینائی کے تحفظ سے متعلق مختلف منصوبوں پر کام کیا ہے۔ ان منصوبوں کے ذریعے ملک میں آنکھوں کے علاج کی سہولتوں میں بہتری آئے گی۔

اس سال پاکستان میں بینائی عالمی کے دن کے موقع پر سائٹ سیورز نے قومی اسمبلی کے ساتھ مل کر پاکستانی آئین کا بریل میں ترجمہ کیا ہے تاکہ بینائی سے محروم افراد بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔

پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی راہ میں درپیش رکاوٹوں میں غربت، سہولتوں کا صرف شہری علاقوں تک محدود ہونا اور معذور افراد کو مکمل رسائی نہ ملنا بطورِ خاص اہم ہیں۔

خواتین میں موتیے کی بیماری کی شرح مردوں کی نسبت 63 فیصد ہے جبکہ موتیے کے علاج کی سہولت حاصل کرنے کےلیے عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے۔

اتفاق خالق خان، پروگرام مینیجر سائٹ سیورز پاکستا ن نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہر شخص کو ہر جگہ پر آنکھوں کی بیماری کے علاج کی سہولت میسر ہو اور حکومت کا کردار اس سلسلے میں اہم ہے۔

نابینا پن 75 فیصد تک قابل علاج ہے بشرطیکہ اس کی بروقت تشخیص اور علاج کرلیا جائے۔ اس کےلیے بنیادی (پرائمری) سطح پر آنکھوں کے علاج کی سہولت کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سائٹ سیورز حکومت پاکستان کے ساتھ اہم شراکتی ادارے کے طور پر کام کررہا ہے تاکہ آنکھوں کی صحت کے پرانے انفراسٹرکچر اور سسٹم، شمولیاتی تعلیم اور اجتماعی کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کو بہتربنایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔