ملت کی خاطر لُہو دینے والے شہید ملت

محفوظ النبی خان  ہفتہ 16 اکتوبر 2021
ملک کے پہلے وزیراعظم پر لگائے جانے والے بے سروپا الزامات کا مدلل جواب ۔ فوٹو : فائل

ملک کے پہلے وزیراعظم پر لگائے جانے والے بے سروپا الزامات کا مدلل جواب ۔ فوٹو : فائل

70سال قبل 16اکتوبر 1951کو لیاقت علی خان کے بہیمانہ قتل میں ملوث فرد کی شناخت سَید اکبر کے نام سے کی گئی اور یہ اس کا انفرادی فعل قرار دیا گیا۔

اسی اثناء میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس قتل کے پیچھے ایک سازش کارفرما تھی جس میں اندرونِ ملک سیاسی و غیرسیاسی عناصر شامل تھے۔ اس بیانیے کو اس وقت مزید تقویت ملی جب مرحوم شہنشاہ ایران احمد رضا شاہ پہلوی نے نوابزادہ لیاقت علی خان کی شریک حیات کو بتایا کہ ان کے شوہر کے قتل میں اندرون ملک حلقوں کا ہاتھ ہے اور یہ بیانیہ تا دیر قائم رہا تاآنکہ 20جولائی 2006 کو ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی امریکی حکومت کی ایک دستاویز کا انکشاف ہوا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کی حکومت کے ایما پر افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی وساطت سے پاکستان میں ان کے سہولت کاروں کے ذریعے وقوع پذیر ہوا تھا۔

وزیراعظم کے قتل میں ملوث عناصر کی طاقت کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کو ممتاز محقق خواجہ ضیاء الدین جہانگیر سید نے بیان کیا ہے۔ ان کی ملاقات گجرات کے گاؤں میں اس پولیس افسر سے ہوئی تھی جس نے کمپنی باغ (لیاقت باغ) کے جلسہ عام میں وزیراعظم کے مبینہ قاتل کو قابو کرنے کے باوجود اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے ثبوت مٹانے کی کوشش کی تھی۔

خواجہ صاحب کے بقول انہوں نے اپنے ساتھی طالب علموں کے ساتھ جب مذکورہ سب انسپکٹر سے مبینہ قاتل کو مار ڈالنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے سیاسی انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کو ایک عظیم لیڈر کے قتل پر اتنا غصہ تھا کہ بس چلتا تو میں مجمع پر بھی گولیاں برسا دیتا۔ بعد ازآں تقریباََ8،9سال بعد اس پولیس افسر کو بھی نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کرکے ایک اور ثبوت بھی تلف کردیا گیا۔

بدقسمتی سے وزیر اعظم کے قتل کی سازش کی جسٹس منیر کے ذریعے اعلیٰ ترین عدالتی تحقیقات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئیں جب کہ اسپیشل پولیس (موجودہ FIA) کے انسپکٹر جنرل جو قتل کے تحقیقی مواد کو حتمی شکل دینے کے لیے بذریعہ طیارہ راولپنڈی جارہے تھے، راستے میں ان کا جہاز حادثے سے دوچار ہوگیا جس میں خود تحقیق کار قتل کے تحقیقی مواد سمیت سلامت نہ رہ سکے اور یوں بظاہر قائدملت کے قتل کی سازش کا راز نہ کھل سکا۔

البتہ ان کی شہادت کے نتیجے میں جن سیاسی عناصر کو اقتدار میں فوائد حاصل ہوئے ان کے ذریعے پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کردیا گیا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اندرونِ ملک کون سے عناصر تھے جن کو اقتدار میں اہم حصہ ملا اور وہ کون سے سیاسی و غیرسیاسی عناصر تھے جن کے ایجنڈے پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہوگئی۔

لیاقت علی خان پاکستان کو ایک آزاد اور غیرجانب دار خارجہ پالیسی کے ساتھ چلانا چاہتے تھے۔ چناںچہ انہوں نے مغرب کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کیے۔ امریکہ کی خواہش اور مطالبے کے باوجود کوریا کی جنگ میں افواج پاکستان کو شامل نہیں کیا۔ ایران میں تیل کی تنصیبات و پیداوار کو امریکی تحویل میں دینے کے لیے ایران پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے سے بھی انکار کیا۔ نیز مغربی ایشیا (مشرق وسطٰی) میں امریکا کی جانب سے حلیف ممالک کے اتحاد میں بھی عدم دل چسپی کا مظاہرہ کیا اور کشمیر کو بنیادی مسئلہ قرار دیا۔

ستم ظریفی ہے کہ آج بھی بعض افراد اور حلقے لیاقت علی خان کو پاکستان کے امریکی کیمپ میں شمولیت پر موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ خصوصاً ٹیلیویژن کے کچھ اینکر بھی پاک امریکی تعلقات کے تناظر میں اس الزام کو دہراتے نظر آتے ہیں۔ اگر وہ تاریخ پاکستان و بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے سے مستفیض ہوتے تو شاید ایسا نہ کرتے۔

اس مضمون میں ہم شہید ملت کی ذات اور کاموں پر اٹھائے جانے والے ناقابل فہم اعتراضات کی حقیقت پر گفتگو کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے 25اگست1951کو ایک خط امریکی وزیر خارجہ (سیکریٹری آف اسٹیٹ ) کو تحریر کیا تھا جس میں بعض سازوسامان کے لیے امریکی معاونت کی استدعا کی گئی تھی۔

یہ خط پاکستانی سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ کے پاس موجود تھا جو لیاقت علی خان کی شہادت کے دنوں میں نیدرلینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں موجود تھے۔ ان معترضین کا بیان ہے کہ سیکریٹری خارجہ نے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد واشنگٹن پہنچ کر پہلے نائب وزیرخارجہ سے ملاقات کی اور ان کے ذریعے سیکریٹری آف اسٹیٹ تک پہنچ کر خط ان کے حوالے کیا تھا۔ اس تمام بیانیے کے ناقابل فہم ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ مکتوب الیہ کی وفات کے بعد اس کے تحریر کردہ مکتوب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی مکتوب کا مخاطب اسے خاطر میں لاسکتا ہے۔

ایئر مارشل اصغرخان نے بھی ہوا میں تیر چلانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بیان کے مطابق دیسی ریاست جموں کشمیر کے مہاراجا نے وزیراعظم لیاقت علی خان سے ٹیلیفون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ریاست کے الحاق سے متعلق بات کرنا چاہی لیکن وزیراعظم نے فون پر گفتگو سے اجتناب کیا ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برصغیر کی آزادی کے بعد دیسی ریاستوں کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق سے متعلق تمام تر معاملات دونوں ممالک کے گورنر جنرلز کی سطح پر طے پاتے تھے اور اس کا وزیراعظم سے کوئی تعلق نہ تھا۔

ریاست جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کا معاملہ براہ راست گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور جونا گڑھ کے فرمانروانواب مہابت خان جی کے مابین طے پایا تھا اور الحاق کی دستاویز کا اجراء بھی انہی دونوں شخصیات کے دستخطوں سے ہوا تھا۔

یہ دستاویز آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ اسی طرح اصغر خان نے لیاقت علی خان کی پیش کردہ “قرارداد مقاصد” کی مذہبی اساس کو قائد اعظم کے سیکولر خیالات کے برعکس قرار دیا تھا، لیکن شاید انہوں نے قرارداد مقاصد کے مطالعے کی زحمت گوارہ نہیں کی ورنہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرتے کہ مارچ 1949میں آئین ساز اسمبلی کی منظورکردہ قرارداد مقاصد نہ صرف قائداعظم کی بصیرت بلکہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں کی ترجمان ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے انتخابات میں اپنا حقِ خودارادیت استعمال کیا تھا۔ اصغرخان ایک جانب قرارداد مقاصد کی اساس کے معترف ہیں جب کہ دوسری جانب وہ خود 1977میں مذہبی نعروں سے لبریز قومی اتحاد کی تحریک میں عملاََ راہ نمائی کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کے اس بیانیے کے پس پردہ تصورات کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے جس کا اظہار خود انہوں نے اپنے مضمون میں کیا تھا کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل ان کی دہلی ایئرپورٹ پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اعزازی سیکریٹری نواب زادہ لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی تھی جو قائداعظم کی روانگی پر ان سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ ایئرمارشل اصغر خان کے بقول لیاقت علی خان قائد اعظم سے ملاقات کرکے اپنی کار میں واپس چلے گئے ۔ اصغر خان کو توقع تھی کہ لیاقت علی خان اپنی کار میں انہیں واپس لے جائیں گے لیکن ان کی یہ توقع پوری نہ ہوسکی۔ لیاقت علی خان کے تناظر میں اصغر خان کے بیانیے میں اس ناراضگی کی جھلک نظر آتی ہے۔

شہید ملت کے معترضین میں غیرمنقسم پنجاب کے یونینسنٹ وزیراعلیٰ سردار سکندر حیات کے فرزند سردار شوکت حیات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے بھی بھان متی نے کنبہ جوڑاکہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا کے مصداق وزیراعظم لیاقت علی خان سے ریاست جموں وکشمیر کے بجائے ریاست حیدرآباد سے الحاق کو ترجیح دینے کی بات کرکے کشمیر کمیٹی سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی۔

سیاست کا ادنیٰ طالب علم بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے برطانوی منصوبے کے تحت آزاد ہونے والی ڈومینینزپاکستان اور ہندوستان کی حدود میں وہ علاقے شامل ہوسکتے تھے جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں اور یہ علاقے ایک دوسرے سے متصل ہوں۔ ظاہر ہے کہ حیدرآباد دکن کی ریاست نہ تو پاکستان سے متصل تھی اور نہ ہی یہاں مسلمان اکثریت میں تھے جب کہ ریاست جموں و کشمیر نہ صرف پاکستان سے متصل تھی بلکہ وہاں غالب ترین اکثریت میں مسلمان آباد تھے جو ریاست کا پاکستان سے الحاق چاہتے تھے۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ حیدرآباد دکن کے فرمانروا نے نواب آف جونا گڑھ کی طرح پاکستان سے الحاق کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔ یہ تمام امور قائدملت لیاقت علی خان کے علم میں تھے لہٰذا سردار شوکت حیات جیسا کم علم اور سازشی ذہن رکھنے والا ہی ایسی بات کرسکتا تھا۔ درحقیقت سردار شوکت حیات لیاقت علی خان کی جگہ وزیر اعظم بننے کے خواہش مند تھے اور یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ ان کے مذکورہ ریمارکس اسی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ امر بھی اظہر من الشمس ہے کہ لیاقت علی خان کا بحیثیت وزیراعظم انتخاب خود قائداعظم نے کیا تھا اور ان کو اپنا دستِ راست قرار دیا تھا۔

لیاقت علی خان کے لیے اس طرح کے ریمارکس دینا براہ راست قائداعظم کی مردم شناسی پر حرف زنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد ملت لیاقت علی خان کی کام یاب خارجہ پالیسی کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کے نہ صرف حق خودارادیت کو تسلیم کیا تھا بلکہ اس کے اظہار کے لیے قرارداد بھی منظور کی تھی۔ لیاقت علی خان ہی کے دور میں استصواب رائے کے لیے سلامتی کونسل نے بالترتیب دو نمائندے مقرر کیے تھے۔

جنہوں نے ریفرنڈم کا بنیادی کام شروع کردیا تھا جس کے لیے لیاقت علی خان اقوام متحدہ اور بھارتی حکومت سے مکمل طور پر رابطے میں تھے۔ مسئلہ کشمیر کے حل سے لیاقت علی خان کی وابستگی کے لیے اس دور میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر ایواوارن کا وہ مراسلہ ریکارڈ پر ہے جس میں وزیراعظم کی شہادت سے محض4 روز قبل 12اکتوبر1951کو وزیراعظم سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے سفیرموصوف نے امریکی وزارت خارجہ کو تحریر کیا تھا کہ لیاقت علی خان نے مشرق وسطیٰ میں امریکی تجویز میںدل چسپی کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کو بنیادی قرار دیا تھا۔

اس ضمن میں وکی پیڈیا پر بھی لیاقت علی خان کے بارے میں چند صفحات موجود ہیں جن میں اس دور میں بھارتی وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور لیاقت علی خان کے مکالمے کا ذکر کیا گیا ہے جو سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔

جمہوری ریاستوں میں کوئی فردواحد فیصلے کا مجاز نہیں ہوتا تو وزیراعظم لیاقت علی خان سردار ولبھ بھائی پٹیل کی اس تجویز پر کو کیسے قبول کرسکتے تھے کہ”حیدرآباد دکن کو چھوڑ کر کشمیر قبول کرلیں۔” ویسے بھی بھارتی وزیرداخلہ بغیر کابینہ و پارلیمان کی منظوری کے ذاتی طور پر اس طرح کی تجویز پیش کرنے کے مجاز نہ تھے۔ اسی طرح لیاقت علی خان بھی قائداعظم محمد علی جناح، کابینہ اور دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر ایسی کسی تجویز کو منظور کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے تھے۔

وکی پیڈیا کے صفحات کے مندرجات اکثر و بیشتر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں اس طرح کی کوئی بات وکی پیڈیا پر موجود نہ تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانی بھی بعد میں تراشی گئی ہے۔ وکی پیڈیا کے ان صفحات پر عساکر پاکستان اور وزیراعظم کے مابین تعلقات پر بھی سوال اٹھائے گئے جو قطعاً بے بنیاد ہیں۔ ان تعلقات میں گرم جوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فوج نے اپنے آرمرڈ کور کے لیے شہید ملت کے “مکے” کا نشان منتخب کیا ہے۔

ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے بھی قائداعظم، لیاقت علی خان، ان کی کابینہ کے بعض وزراء اور سینئر سرکاری افسران کے حوالے سے اپنے والد خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کے صوبہ سندھ کے حقوق اور دارالحکومت کراچی کے تناظر میں بعض اقدامات کا ذکر کیا ہے، جو بادی النظر میں درست معلوم نہیں ہوتے، کیوںکہ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے قیام کے وقت ایوب کھوڑو نے بحیثیت صوبائی وزیراعلیٰ آمرانہ طور پر اور جبر کے ذریعے صوبے کو ون یونٹ میں ضم کرنے کا قدم اٹھایا تھا جو تاریخ کے اوراق پر موجود ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کی وسعت نظری کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب انہوں نے 1997میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر قائدملت لیاقت علی خان کے نام سے موسوم ایوارڈ قبول کیا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل کچھ شخصیات اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا پہلا منتخب وزیراعظم قرار دیتی ہیں جب کہ تاریخ، سیاسیات اور آئین و قانون کے ہر معیار پر نوابزادہ لیاقت علی خان ہی پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ہیں جن کا انتخاب اسی طرح مروجہ آئینی طریقۂ کار کے مطابق ہوا تھا جس طرح ہندوستان میں جواہرلعل نہرو کا اور قائداعظم کا بھی بحیثیت گورنرجنرل تقرر اسی آئین کے مطابق ہوا تھا۔

شہیدملت کی شخصیت اور اقدامات پر اعتراضات اور معترضین کے جائزے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے اپنے اذہان میں پوشیدہ لیاقت مخالف رجحانات کو بے ڈھنگے انداز سے اپنی آراء میں بیان کیا ہے۔

گذشتہ دنوں 2021 میں ہی شہید ملت کے دوسرے بیٹے اکبر لیاقت علی خان کے علاج معالجے کے سلسلے میں ان کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ملک کے معروف کالم نگاروں نے مختلف اخبارات میں اور بعض ٹی وی اینکرز نے اپنے پروگرامز میں حکومت کی توجہ علاج کی جانب مبذول کراتے ہوئے ان کے والدین کی ملک کے لیے خدمات اور ایثار و قربانی کا تعریفی الفاظ میں حوالہ دیا تو ملک کے بعض حلقے جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شہیدملت کو وطن عزیز میں فراموش کردیا گیا ہے، ایک بار پھر متحرک ہوگئے۔

چناںچہ پی ٹی وی کے سابق سربراہ اور سابق سفیر سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد میں سرکاری ملازمت پر فائز ایک صاحب نے معروف اردو روزنامہ میں کالم دے مارا جس میں طنزیہ انداز میں قائد ملت کے فرزند کے معاشی حالات اور ان کی والدہ بیگم رعنا پر فقرے کسے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قائدملت کا خاندان اہل ثروت ہے اسے امداد کی کیا ضرورت؟ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

کالم نگاروں کی کاوشیں بارآور ہوئیں اور وفاقی حکومت کی پہل کے بعد سندھ نے اکبر لیاقت کے علاج کی تنہا ذمہ داری قبول کرلی لیکن صوبائی حکومت کے بعض عاقبت نااندیش اہل کاروں نے اکبر لیاقت کی شریک حیات سے مالی مشکلات پر مبنی تحریری درخواست طلب کی اور اس نجی مراسلت کو حکومتی ویب سائیٹ پر آویزاں کردیا جو اخلاقی طور پر مناسب نہ تھا۔

یاد رہے کہ دورایوبی کے اوائل میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس وقت کے سیٹلمنٹ کمشنر سید ہاشم رضا سے کلفٹن کراچی میں واقع مہٹہ پیلس کو قائداعظم کی ممبئی میں واقع مالابارہلز پر رہائش گاہ کے تبادلے کے لیے کہا جس پر سیدہاشم رضا نے ان سے کوئی تحریری درخواست طلب نہیں کی بلکہ ازخود اس وقت کے وزیرمالیات جنرل اعظم کے ذریعے کابینہ کو معاملے کی سمری ارسال کرکے مہٹہ پیلس کو محترمہ فاطمہ جناح کو منتقل کرنے کی منظوری لے لی تھی، جسے اخلاقی ضابطوں کی پاس داری کرتے ہوئے مشتہر کیے بغیر محترمہ فاطمہ جناح کو منتقل کردیا گیا تھا اور یوں مہٹہ پیلس کا نام قصرفاطمہ ہوگیا تھا جہاں وہ زندگی کے آخری لمحات تک مقیم رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔