یا للعجب

عبدالقادر حسن  پير 3 فروری 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

حیرت ہے اور بے حد تعجب کہ اس قوم کو کیا نام دیا جائے جو اپنے جان نثاروں کو مسترد کر دے اور اپنے لٹیروں کو پذیرائی بخشے۔ کوئی قوم اس سے زیادہ نہیں گر سکتی اور ایسی حالت کسی قوم کی انتہائی بدبختی ہے جس کے بعد اس کی بقا اور سلامتی بے حد مشکوک ہو جاتی ہے اور کوئی بڑے ہی مضبوط قوی ایمان والا ہی اس کی زندگی کی امید کر سکتا ہے۔ میں اگر اس قوم کو پاکستانی قوم کہہ رہا ہوں تو کسی رائے پر سے پردہ نہیں اٹھا رہا بلکہ تاریخ بیان کر رہا ہوں۔ اس قوم کے ابتدائی برسوں میں ہی اس قوم کے ملک کے بانی اور پھر اس بانی کے کسی حد تک پیرو کار وزیراعظم رخصت ہو گئے اور سکندر مرزاؤں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

تاریخی غداروں کی یہ اولاد ایک نظریاتی ملک کو کیسے سنبھال سکتی تھی چنانچہ ایک فوجی نے ان کی جگہ لے لی اور جمہوریت کے ذریعہ قائم ہونے والا ملک فوجی آمریت کے چنگل میں بری طرح پھنس گیا اور پھر کئی بار یہ حادثہ اور سانحہ دہرایا گیا۔ تا آنکہ ملک کے خاتمے کا آغاز کر دیا گیا۔ ایک فوجی اور ایک سابقہ فوجی حکمران کا تربیت یافتہ سیاستدان ان دونوں نے مل کر ملک دو ٹکڑے کر دیا۔ یعنی جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو۔ جرنیل کے مقاصد غیر واضح اور خواب و خیال کی دنیا کے تھے جب کہ سیاستدان کے مقاصد بالکل واضح تھے، اسے وزیراعظم بننا تھا خواہ وہ پورے پاکستان کا ہو یا آدھے کا۔ بات ملک کے دولخت ہونے کے سانحہ سے شروع ہوئی ہے اور چند جملوں میں اس کے پس منظر کو عوام کے کمزور حافظے کی وجہ سے بیان کیا گیا ہے۔

پاکستان کے دو لخت ہونے میں سب سے موثر حصہ بھارت کا تھا جس کے سینے میں پاکستان شروع دن سے ایک کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا۔ پہلے مکتی باہنی کے نام سے بھارتی فوج بھیجی گئی، اس کے بعد مناسب وقت پر باقاعدہ بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی۔ اس موقع پر مشرقی پاکستان کے پاکستانی حامی عوام بے بس تھے کیونکہ ان کا مقابلہ ایک باقاعدہ فوج سے تھا لیکن اس کے باوجود ایک جماعت نے اپنے رضا کاروں کو البدر اور الشمس کا نام دے کر میدان میں جھونک دیا۔ یہ لوگ پاکستان کے اتحاد کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوتے رہے۔ یہ پاکستان کے پہلے خوش نصیب جانثار تھے جو ’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘والے پاکستان کی سلامتی پر جانیں نثار کر رہے تھے۔ یہ جماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ ان کی اس قربانی کا سلسلہ آج تک جاری ہے، جرم صرف پاکستان کے اتحاد کی کوشش کو بتایا جاتا ہے۔

ان کے کسی اور جرم کی اطلاع اب تک نہیں مل سکی۔ 44 برس گزر چکے ہیں سوائے پاکستان کی سلامتی اور اتحاد کے حق میں جدوجہد کے کوئی دوسرا الزام نہیں لگ سکا۔ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے پاکستان کے لیے زندگیاں قربان کی ہیں اور جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس کو ہر الیکشن میں اس پاکستانی قوم نے شکست دی ہے جس کے لیے وہ جان دینے والی واحد جماعت ہے۔ بعض ملکوں میں عوام میں سے چند ایک نے لیڈروں کی ذات کے لیے جان قربان کر دی مگر کسی ملک کی سلامتی کے لیے کبھی کوئی جان ہتھیلی پر رکھ کر باہر نہیں نکلا ، یہ اعزاز پاکستانی قوم کے ایک گروہ کو حاصل ہے جس نے افراد کو نہیں نظریات کو اپنا رہبر مانا ہے اور ان کی سلامتی کے لیے قربانی دی ہے۔

معاملے کی نوعیت اس قدر گمبھیر ہو چکی ہے کہ اب پردہ داری اور راز داری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کچھ لوگوں نے تو اس ملک کی سلامتی اور اتحاد کے لیے جانیں قربان کیں ،کیا ہم گرم کمرے میں میز کرسی پر بیٹھ کر اس میں کچھ معمولی سا حصہ بھی نہیں ڈال سکتے۔ ہمارے پاس صرف قلم ہے اور خیال ہے کہ اگر قلم سے بات نکلے تو وہ بہت سے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور ہم اخبار کے منبر کے ایک مقرر ہیں اور یہی ہمارا کسی جلسے کا اسٹیج ہے۔ کمزور حافظے کے لیے مزید چند سطریں۔ پاکستان کے قیام کے بعد حکمرانی مسلم لیگ کے پاس آ گئی۔ بلاشبہ اس جماعت کی قیادت میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن ہماری حکومتوں نے اور تو بہت کچھ کیا مگر قیام پاکستان کے اساسی نظریات کے نفاذ کی کوئی قابل ذکر کوشش نہ کی۔ جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کی تحریک پر کچھ لوگوں نے حکومت کو قرار داد مقاصد جیسے اعلان پر مجبور کیا پھر 1973ء کے آئین میں واضح طور پر اسلامی شقیں شامل کی گئیں لیکن عملاً یہ سب کاغذی کارروائیاں ثابت ہوئیں، اس دوران ساتھ ساتھ مارشل لا بھی چلتے رہے، ایک ایسے ہی مارشل لا میں ملک کے پہلے مارشل لا کے تربیت یافتہ سیاستدان جناب ذوالفقار علی بھٹو بہت با اثر تھے، ان کی ذہانت کے سامنے کسی ایسے فوجی حکمران کی کیا حیثیت تھی جو ہر شام نشے میں ڈوب جاتا تھا اور  میں سخت شرمندہ ہو کر عرض کرتا ہوں کہ راتوں کو ہمارے بڑے بڑے لیڈر اپنی بیگمات لے کر حاضری دیتے تھے، ملاقاتیوں کے رجسٹر میں قاعدے کے مطابق ان کی آمد و رفت درج ہوتی تھی، معلوم نہیں یہ رجسٹر زندہ ہیں یا ضایع کر دیے گئے ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ تھی ہماری قیادت اور ان بدقسمت آنکھوں کے اس رجسٹر کے بعض صفحات سرسری سے انداز میں دیکھے بھی تھے۔ جناب بھٹو صاحب کو ہر قیمت پر ملک کا ایک حصہ مطلوب تھا جس میں وہ وزیر اعظم بن سکیں اور اس زمانے میں یہ بات انھوں نے چھپائی بھی نہیں تھی۔ جب ملک توڑا جا رہا تھا تو اس وقت ملک کو بچانے اور اتحاد کی تحریک بھی جاری تھی مگر ان لوگوں کے ذریعے جن کو یہ قوم اہمیت نہیں دیتی تھی بلکہ البدر اور شمس نام کو ایک مذاق بنا دیا گیا تھا۔

ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور بھٹو صاحب باقی ماندہ کے وزیر اعظم بن گئے لیکن جو بچ گیا تھا اسے پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ جب بھی الیکشن کا موقع آیا جماعت نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کیے جن کا سراپا مشرقی پاکستان میں اس کے ساتھیوں کے بہنے والے لہو سے لالہ زار تھا لیکن قوم نے انھیں ووٹ نہ دیے اور جن کو ووٹ دیے وہ دن رات اس باقی ماندہ ملک کو لوٹنے اور نوچنے میں مصروف رہے۔ انھوں نے جو دولت لوٹی اس کی تفصیلات سن کر یقین نہیں آتا مگر ان کی ہنر مندی پر یقین آتا ہے جنہوں نے اس ملک کے عوام کو چبا چبا کر نڈھال اور ناتواں کر دیا۔ آج خود کشیوں کا سلسلہ ایک معمول ہے، بد امنی عام ہے، چوری چکاری اور ڈاکے جاری ہیں اور قومی اخلاق اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ معصوم بچیوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ یہ سب بدی کم و بیش ساٹھ سالہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے اور کوئی مجھ سے پوچھے تو وقت دعا ہے۔ میں نے طویل عمر ملک کے حالات کی رپورٹنگ میں گزار دی، میرا تجربہ اور مشاہدہ مجھے امید کی کوئی کرن نہیں دکھاتا۔ میں صرف گلی میں کھیلتے ہوئے پاکستانی بچے ہی دیکھتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔