موئن جو دڑو پر مت رو

وسعت اللہ خان  پير 3 فروری 2014

میں واقعی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ موئن جو دڑو میں سندھ کلچرل فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں لائٹ اینڈ لیزر شو کے لیے الیکٹرک ٹاورز نصب کرنے اور ثقافتی پرفارمنس کے لیے ایک بڑا سا اسٹیج پانچ ہزار برس قدیم آثار کے عین درمیان بنانے اور اس کے روبرو پانچ سو وی آئی پیز کو بٹھانے اور ان کی حفاظت پر مامور دو ہزار پولیس والوں کو یہاں وہاں کھڑا کرنے سے ایسی کیا قیامت برپا ہوگئی کہ یونیسکو سے لے کے خود ساختہ سول سوسائٹی اور قوم پرستوں تک سب چیخ پڑے۔ آپ آج جا کے دیکھئے آثار ویسے کے ویسے ہی پڑے ہیں۔ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہاں یکم فروری کی شام کوئی رنگارنگ تقریب برپا ہوئی تھی۔

موئن جو دڑو کے درمیان ہونے والی اس تقریب سے آثارِ قدیمہ کی پامالی پر تنقید ایسے ہے جیسے کوئی گنجا گھنے بالوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو۔جیسے باسی کڑھی میں خامخواہ ابال آجائے۔جیسے کوئی تمباکو نوش صحت مند زندگی کے راز بیان کرے۔

حفاظت اس شے کی ہوتی ہے جسے اپنا سمجھا جائے۔ اٹھارہ کروڑ میں کتنے ہیں جو اندر سے سمجھتے ہوں کہ موئن جو دڑو، ہڑپہ ، مہر گڑھ ، ٹیکسلا  کے آثار ، مکلی اور چوکنڈی جیسے تاریخی قبرستان اور افغانوں اور مغلوں سے لے کے تالپوروں تک کے قلعے ایسے ہی اہم اور متبرک ہیں جیسے ہمارے پرکھوں کی قبریں ، جیسے اولیا کے مزارات ، جیسے تاریخی مساجد ، جیسے ہمارے نانا ، دادا اور پردادا کی تصاویر اور ان کی تسبیحیں اور ان  کے برتن اور ان کی باتیں۔۔۔۔

کیا ہمیں یہ نہیں بتایا اور پڑھایا گیا کہ قبل از اسلام کی ہرنشانی باطل ہے۔تو پھر باطل نشانیوں کا احترام اور دیکھ بھال اور اس سے اپنائیت کے کیا معنی ؟

مگر آپ میں سے کچھ ضرور کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں۔یہ آثار ، عمارات اور نشانیاں ہمارے خاندانی شجروں جیسے ہیں جو ہمیں نسل در نسل بتاتے ہیں کہ ہم کون تھے ، کیوں تھے ، کہاں سے آئے اور کہاں جارہے ہیں۔ہمارے پرکھوں نے کیا کیا اور ہم کیا کررہے ہیں۔

اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ فرمائیں کہ کتنے سول سوسائٹی بازوں نے ملتان کے دو ہزار سال پرانے سورج مندر کو بائیس برس پہلے منہدم کرنے والوں کا ہاتھ روکا۔بلکہ جن صاحب (پیپلز پارٹی کے مرحوم سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر)کی قیادت میں یہ کارِ ثواب ہوا انھیں بلدیاتی و قومی انتخابات میں اس ثقافتی جہاد کا صلہ ووٹوں کی بارش کی شکل میں ملا۔

آپ میں سے کتنے جانتے ہیں کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کے نمایندہ ہڑپہ، جام پور کے دلو رائے ٹھیڑ اور چولستان کے پتن منارے کے آثار پر فصلیں دستک دینے لگی ہیں۔ٹیکسلا میں گندھارا تہذیب کے نمایندہ سدکپ شہر کے آثار کو جھاڑیوں سے بچانے کے لیے ہر سال ان جھاڑیوں کو آثارِ قدیمہ کے محافظ اہل کار آگ لگا دیتے ہیں۔چکوال کے نزدیک مہا بھارت کے زمانے کے کٹاس راج مندر ناقدرے موسموں کے رحم و کرم پر ہیں اور وہ جھیل سکڑ کے ایک چوتھائی رہ گئی ہے جو شیو دیوتا کے آنسوؤں سے وجود میں آئی جو انھوں نے اپنی بیوی ستی کی موت پر بہائے تھے۔۔مگر ان مندروں اور جھیل سے کچھ فاصلے پر کچھ عرصہ قائم ہونے والے سیمنٹ کے کارخانے نے زیرِ زمین پانی چوس لیا ہے۔اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑی سلسلے میں ہوٹلنگ اور کمرشلائزیشن کے راکھشس نے ہزاروں برس پرانے دو غاروں کا محاصرہ کرلیا ہے جن کی دیواروں پر ہمارے آبا و اجداد نے مصوری کی۔

مانا کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ورثے سے بعد کی نسلوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔مگر خود مسلم ورثے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟ پشاور کا بالا حصار قلعہ فرنٹیر کور کا صدر دفتر ہے۔اکبرِ اعظم کا اٹک قلعہ کمانڈو نگرانی میں ہے۔اور جب دور بدلتا ہے تو اس ملک کے آصف زرداریوں اور نواز شریفوں کو بھی یہاں بلا ٹکٹ مہمان رکھا جاتا ہے۔جہلم کے قریب شیرشاہ سوری کے قلعہ رہتاس کے دروازوں اور اندرونی تعمیر کو بارش اور نمی کھائے جارہی ہے۔

لاہور کے ماتھے کا جھومر مغل فورٹ اور مغل فورٹ کا دل شیش محل۔جہاں چند برس پہلے تک غیرملکی مہمانوں کو ضیافتیں دی جاتی رہیں۔اسی فورٹ کا تاریخی دیوانِ خاص کچھ عرصے پہلے تک نجی تقریبات کے لیے دان ہوتا رہا۔پیسے اور تعلق کی طاقت سے مسلح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات یہاں شوٹ ہوتے رہے۔مگر ایسے مواقع پر محکمہ آثارِ قدیمہ اکثر نوادرات و آثار کے تحفظ کے ایکٹ مجریہ انیس سو پچھہتر کو بغل میں دبا کر ضروری کام سے کہیں چلا جاتا ہے۔اور اسی قلعے کے ایک حصے کو بوقتِ ضرورت سیاسی قیدیوں کے عقوبت خانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ وہ دور ہوتا ہے جب قیدی اور قلعہ اپنی حالتِ زار پر گلے مل کے چیختے ہیں۔

اور سب سے خوبصورت ریاست بہاولپور کے وہ قلعے اور محلات کس حالت میں ہیں۔قلعہ دراوڑ باہر سے تندرست اور اندر سے ملبے کا ڈھیر۔اطالوی طرزِ تعمیر کا مظہر صادق گڑھ پیلس جہاں پچھلی صدی کی ہندوستانی و یورپی اشرافیہ کا کون سا نمایندہ مدعو نہیں ہوا آج مکمل طور پر بھوتوں کے قبضے میں ہے۔ شاہی ورثا نے اپنی دولت اپنے ہی ہاتھوں ایسے لوٹی کہ دروازے اور جالیاں تک اکھاڑ لیں۔اور جن عباسی محلات کو فوج نے گود لے لیا وہ میس کی شکل میں رات کو جھلمل کرتے ہیں۔

سندھ میں تالپور دور کا شائد ہی کوئی قلعہ ہو جو نوحہ گر نہ ہو۔حیدرآباد کا پکا قلعہ موٹی دیواروں کے پیچھے ایک مفلوک الحال کچی بستی سے زیادہ کیا ہے ؟حیدرآباد کا کچا قلعہ سیم زدگی کی مسلسل حرمزدگی سے نبرد آزما ہے۔نوکوٹ کے قلعے میں سورج چڑھے آس پاس کے بچے کھیلتے ہیں۔ہاں ایک نیلے رنگ کا بورڈ ضرور دیوار میں جڑا ہوا ہے جس پر محکمہ آثارِ قدیمہ سندھ نامی کسی ادارے کی جانب سے قلعے میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو تادیبی کارروائی سے ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر مشکل یہ ہے کہ شام کے بعد اس قلعے میں بسیرا کرنے والے کتے بلیاں تحریر نہیں پڑھ سکتے۔عمر کوٹ کا قلعہ اور  بھنبور کے آثار کہ جن کے تحفظ کا بجٹ انسانوں کی جیبوں میں اور حفاظت  خدا کے ذمے ہے۔جمڑاؤ کینال کے آس پاس ریاست خیرپور کے زمانے کے جو پولیس قلعے بنائے گئے، ان کی چوکھٹیں تک چور لے گئے اور جو لکڑی اکھڑ نہیں پائی اسے جلا ڈالا۔

اور یہ جو ہر مہینے دو مہینے بعد بندرگاہ یا کسی ایرپورٹ پر قدیم مجسمے اور نوادارت پکڑے جانے کی خبر چھپتی ہے یہ کیا ہے ؟ اور جب پولیس کو ان نوادارت کی عارضی کسٹڈی دی جاتی ہے تو جتنے مجسمے حوالے کیے جاتے ہیں کیا وہ اتنے ہی اور اسی حالت میں واپس ملتے ہیں ؟ اور یہ جو وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور گندھارا پیریڈ کے مجسمے اور نوادارات یہاں سے وہاں تک کے عجائب گھروں کے کمروں اور گوداموں میں پڑے ہیں۔ ان کی آمد ، موجودگی اور غائب ہونے کا ریکارڈ کتنے عرصے بعد اور کون اپ ٹو ڈیٹ کرتا ہے۔ان میں سے کتنے اصلی بچے ہیں اور کتنے اصلی نہیں ہیں۔کتنے نجی عجائب گھروں میں کون سے نوادرات کہاں کہاں سے آئے ہیں ؟

اچھی بات ہے کہ حکومتِ سندھ نے وفاقی حکومت سے موئن جو دڑو کی علامت ڈانسنگ گرل کو انڈیا سے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ڈانسنگ گرل آ بھی گئی تو اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت کی جدید تشریح کے کس خانے میں رکھا جائے گا ؟؟؟

جب جرمن نازیوں نے پیرس کا محاصرہ کرلیا تو انھوں نے شہریوں کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کے ورثے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔لہذا جب ہم پیرس میں داخل ہوں تو مزاحمت نہ کرنا۔نازیوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور پیرس کو جوں کا توں رہنے دیا۔نازیوں نے جن جن ممالک پر قبضہ کیا ان کی آبادیوں پر وہ تمام مظالم کیے جو قابض قوتیں کرتی ہیں۔مگر پینٹنگز کے ذخیرے تباہ نہیں کیے بلکہ انھیں احتیاط کے ساتھ برلن منتقل کردیا۔جب اتحادیوں نے برلن پر قبضہ کیا تو شہر کھنڈر بن چکا تھا مگر مقبوضہ پینٹنگز کا بیشتر ذخیرہ تہہ خانوں میں محفوظ تھا۔۔۔

اقبال کا دل تو اپنے آبا کی کتابیں لندن میں دیکھ کر بہت  تلملایا۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ انگریز برِصغیر کا جتنا ثقافتی و تاریخی خزانہ لوٹ کے لے جا سکتا تھا لے گیا۔ورنہ یہ سب کب کا غتربود ہوچکا ہوتا۔اگر یہ بات کسی کو بری لگتی ہے تو لگے۔مگر پھر اپنے بچوں کو یہ کہہ کر سمندرپار نہ بھیجے کہ ہم تو جیسے کیسے جی رہے ہیں تم تو اپنا مستقبل خراب نہ کرو۔

ارے ہاں۔۔۔جو لوگ سندھ فیسٹیول کے نام پر موئن جودڑو کے آثار کی پامالی و بے حرمتی پر آٹھ آٹھ آنسو رو رہے ہیں ،کیا وہ اگلی عید الفطر پر ان آثار میں ون ویلنگ کرنے والے سیکڑوں مقامی من چلوں کو روک پائیں گے۔سنا ہے کئی نوجوان شرط لگا کر موٹرسائیکل بدہسٹ اسٹوپا کی بلندی تک بھی لے جاتے ہیں۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔