کیا پاکستان فلم انڈسٹری پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 17 اکتوبر 2021
ترکی، ایران اور چین کی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت کا فیصلہ۔ فوٹو: فائل

ترکی، ایران اور چین کی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت کا فیصلہ۔ فوٹو: فائل

اداکارہ ریما کا شمار پاکستان کی صف اول کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے، چند سال قبل ان کی ایک تجویز آئی تھی کہ پاکستانی فلموں کی کامیابی کیلئے جب تک عالمی مارکیٹ تک رسائی نہیں ہوگی اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

ان کے مطابق پاکستان کو ایران،چین اور ترکی کے ساتھ مشترکہ فلم سازی کاآغاز کرناچاہئے۔ اس سے پاکستان کو چین، ایران، ترکی ،دبئی اور دیگر ممالک میں اپنی فلموں کی نمائش کیلئے ایک اچھی مارکیٹ میسر آسکتی ہے جس سے پاکستانی فلم انڈسٹری بھرپور فروغ پائے گی اور پاکستانی فلم انڈسٹری لالی وڈ بحرانی دور سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

اگر دیکھا جائے تو ادکارہ ریما کی اس تجویز میں بڑا وزن ہے،یہی وجہ ہے کہ شاید اب حکومت نے بھی سنجیدگی کے ساتھ ایران، ترکی اور چین کے ساتھ مشترکہ فلم سازی پر غور وفکر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات چودھری فواد کا کہنا ہے کہ کابینہ نے پاکستان میں کینیڈین پنجابی، ایرانی اور ترکی فلموں کی نمائش کی اجازت دیدی ہے۔

وزیراطلاعات کے مطابق سینما کے شعبے کی ترقی کیلئے علاقائی ملکوں سے فلموں کی نمائش کی اجازت دے رہے ہیں، سینماز میں کینیڈین پنجابی، ایرانی اور ترکش فلمیں دکھانے کی اجازت دے رہے ہیں تاکہ سینما انڈسٹری کی بحالی ممکن ہو۔ اس کے علاوہ سینماز کو مراعات جیسے بجلی اور ٹیکسز پر ریلیف دے رہے ہیں۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو 30 سال پہلے پاکستان میں 1700 سینما سکرینز تھیں اور اب صرف 150 سے کچھ زیادہ ہیں جو کہ کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے روز بروز ختم ہوتی جارہی ہیں۔پاکستان میں ایک سال میں 15 سے 20 فلمیں بنتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے، ستمبر 2016 میں مقبوضہ کشمیر میں واقع اْڑی کیمپ پر ہونے والے حملے کے دو ہفتے بعد انڈین موشن پکچرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں کے انڈیا میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی تھی جس کے جواب میں پاکستان میں سینما مالکان نے اپنے طور پر انڈین فلموں کی نمائش روک دی تھی۔

اس سے قبل پاکستان میں 1965 سے انڈین فلموں کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی تاہم 2007 میں حکومت نے ایک پالیسی بنائی تھی جس کے تحت بھارتی فلموں کی محدود تعداد کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی این او سی جاری کیا جاتا تھا جس کے بعد وہ فلم پاکستان میں درآمد کی جاتی تھی اور پھر اسے سینسر بورڈ منظور کرتا تھا۔ لیکن اوڑی حملے کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش بالکل نہیں ہوسکی۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے بعد انڈیا نے پاکستانی فنکاروں کو بالی وڈ میں کام کرنے سے منع کیا تو پاکستان نے سینما ہاؤسز میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔پاکستان کے سینما گھروں میں انڈین فلموں کی نمائش کے بعد سے سینما گھر اگر ویران نہیں ہوئے تو کم از کم وہاں رش میں کافی کمی ضرور دیکھی گئی۔

گزشتہ فروری میں پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود فضائی جھڑپ میں جہاں بھارت نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں کارروائی کی اور پاکستانی فضائیہ نے دو بھارتی جنگی طیارے گرائے وہیں دونوں ملکوں کے درمیان اس کشیدگی کا ہدف فن و فنکار بھی بنے۔

ٹھیک ایک سال قبل پاکستان نے سرکاری طور پر اپنے سینیما گھروں میں بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی، جس کے نتیجے میں سینیما گھر یک دم ویران ہو گئے اور پھلتا پھولتا کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا، رہی سہی کسر دو سال سے جاری کوویڈ19 نے پوری کر دی ہے۔

چند روز قبل لاہور میں پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے انتخابات ہوئے جس میں شیخ امجد رشید کا متفقہ طور پر بطور چیئرمین انتخاب ہوا، دیگر عہدیداران میں سینئر وائس چیئرمین صفدر ملک مومنہ درید وائس چیئرپرسن،اسپیشل سیٹ ریزرو، سنگیتا جبکہ ایگزیکٹو ممبران میں محمد یونس، ندیم مانڈوی والا، سنگیتا،ایم اکرم،طارق میندرو، ادریس اے صدیقی،محمد خالد اقبال،عبد الرشید شامل ہیں۔

جنرل کونسل کے اجلاس میں اداکار شان، پروڈیوسر و ہدایتکار سید نور، فیصل بخاری، فلم ڈسٹری بیوٹرز اعجاز کامران، پرویز کلیم، ،شیخ اکرم، سہیل ملک، راحیل ملک،شہزاد رفیق سمیت دیگر نے شرکت کی۔

نومنتخب چیئرمین شیخ امجد رشید نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو اس کی اصل شناخت دلوائیں گے، فلم پالیسی کافی عرصہ سے بن چکی ہے، وزیراعظم کی مصروفیت کے باعث فلم پالیسی کا اعلان نہیں ہوسکا، سینما بند ہونے سے بہت سے لوگوں کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں، حکومت بیٹھے اور فیصلہ کرے کہ رقم کیسے واپس ملے گی سینما نہ چلنے سے پہیہ رک چکا ہے، سینما چلیں گے تو فلم انڈسٹری چلے گی۔

اداکار شان شاہد نے کہا کہ فلم پالیسی پڑھی ہے مجھے نہیں لگتا کہ ایسے فلم انڈسٹری چل پائے گی، پرانی فلمیں چینلز پر چلنی چاہئیں،سینما کی جو حالت ہے پروڈیوسرز کو لیز پر لے لینے چائیے۔ حکومت پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے کتنی اور کس حد تک سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ تو بعد میں ہوگا لیکن حکمران غیر ملکوں کے ساتھ مشترکہ فلم سازی کے لئے تگ و دو ضرور کر رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل زیر اعظم عمران خان نے تاشقند میں ازبکستان کے صدر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ملک مشترکہ طور پر ظہیر الدین بابر کی زندگی پر فلم بنائیں گے جس نے برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی اور ان کی نسل نے اگلے تین سو برس سے زائد عرصہ تک اس خطے پر حکمرانی کی۔وزیر اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مذکورہ فلم کے ذریعے ازبکستان اور پاکستان کی نوجوان نسل کو یہ باور کروایا جا سکے گا کہ کس طرح دونوں قومیں ’صدیوں کے رشتے‘ میں بندھی ہوئی ہیں۔

عمران خان نے اس ایونٹ کو موقع غنیمت جانتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ مرزا غالب، اقبال اور امام بخاری کی زندگیوں پر بھی فلمیں بنائی جائیں گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ لوگ مقامی فلمیں نہیں دیکھتے اور ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ان فلموں میں اْن کمرشل ٹرینڈز کو شامل نہیں کیا جاتا جنھیں لوگ پسند کرتے ہیں۔انھوں نے نوجوان فلم میکرز کو مشورہ دیاکہ وہ اپنی سوچ سے فلم بنائیں اور فلاپ ہونے کا خوف دل سے نکال دیں کیونکہ ’میں نے اس ٹیم کو کبھی جیتتے نہیں دیکھا جو شکست کے خوف سے کھیلتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان شوبز انڈسنٹری کے لئے کچھ بہتر سوچتے ہوں لیکن فلمی صنعت سے وابستہ شخصیات ان سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتیں، پاکستان پروڈیوسرز ایسویسی ایشن کے چیئرمین امجد رشید شیخ کا کہنا ہے کہ ’وزیر اعظم عمران خان کی منطق ہم فلم والوں کو کیا سمجھ آئے گا کیونکہ وہ گذشتہ دو سال سے ہمیں ملاقات کا وقت ہی نہیں دے رہے، وزیر اعظم کے فلمی ڈاکٹرائن کی ترویج کے لیے کئی کہنہ مشق مشیر و وزیر ہیں لیکن عملی طور پر تین برسوں میں تاحال حکومتی کلچرل پالیسی کا اعلان ہی نہیں ہو سکا ہے، وزیر اعظم کے ذہن میں ترکی ارطغرل ماڈل پر مبنی فلمیں ہیں۔ ’یہ ہیوی بجٹ فلمیں ہوتی ہیں جنھیں جدید تکنیکی سہولیات اور پیشہ ور ہنرمندوں کی مشترکہ کاوشوں سے بنانا ممکن ہوتا ہے۔‘

امجد رشید کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے پہلے ترکی کے اشتراک سے فلمیں اور ٹی وی سیریلز بنانے کی بات تھی اب ازبکستان کے ساتھ فلم بنانے کا ارادہ دہرایا ہے۔ ایگزیبیٹرز ایسویسی ایشن کے چیئرمین زوریز لاشاری اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان جیسے میگا سٹارز نہیں ہیں جن کی فلمیںدیکھنے مرد، عورتیں اور بچے بوڑھے گھروں سے سنیما گھر تک آئیں، اگر حکومت کی طرف سے ایئر کنڈیشنڈ چلانے کے لیے بجلی پر حکومتی سبسڈی مل جائے تو یہ کام احسن انداز سے ممکن ہے۔

بلاشبہ پاکستان فلم انڈسٹری مشکل دور سے گزر رہی ہے،موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مشترکہ فلم سازی ممکن ہے اور نہ ہی بھارتی فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش کی اجازت ملتی نظر آ رہی ہے، ایسے میں ایران، ترکی، چین کے ساتھ مشترکہ فلم سازی کا تجربہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، پاکستان میں کینڈین پنجابی فلمیں تو پہلے ہی خاصی مقبول ہیں، اگر غیر ملکوں کی مشترکہ فلم سازی کا تجربہ کامیاب رہتا ہے تو اس سے نہ صرف ویران سینما گھر آباد ہوں گے بلکہ پاکستان فلم انڈسٹری کو بھی سہارا دینے میں مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔