مہنگائی پر اٹھنے والے سوالات

ایڈیٹوریل  اتوار 17 اکتوبر 2021
حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا تازیانہ برسایا ہے، تین سال میں گردشی قرض دوگنا سے زیادہ ہو کر 2.5  کھرب ہوگیا۔ فوٹو : فائل

حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا تازیانہ برسایا ہے، تین سال میں گردشی قرض دوگنا سے زیادہ ہو کر 2.5 کھرب ہوگیا۔ فوٹو : فائل

مہنگائی، غربت اور بیروزگاری نے یکبارگی عوام کے اعصاب پر حملہ کر دیا ہے، میڈیا کے مطابق عالمی پٹرولیم قیمتیں بلند سطح پر پہنچ گئی ہیں جب کہ مہنگائی کے دباؤ کے باعث حکومت قیمتوں میں رد وبدل کرنے سے بھی قاصر رہی، قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، مارکیٹ فورسز، ٹریکل ڈاؤن سمیت ہر قسم کے جمہوری ثمرات کا عوام کی دہلیز تک پہنچنا معدوم ہوچکا ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے، مہنگائی میں اضافہ کی کوئی توجیہہ حکمرانوں کے پاس نہیں لیکن اقتصادی صورتحال پر عوام کے جم غفیر کا گرانی اور مہنگائی پر خاموش رہنا بھی سیاسی صورتحال کی درد انگیزی کو ہوا دے رہا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ وہ ٹریڈ یونین لیڈر کہاں غائب ہیں، وہ تاریخی اہمیت کے حامل خاک نشین کہاں بھیج دیے گئے، نڈر مزدور رہنما، سیاسی لیڈر، عوامی رہنما عوام کے شانہ با شانہ کیوں نظر نہیں آتے، گرانی کے خلاف ملک کے عوام دوست اور خیر خواہ حکمرانوں تک عوام کا احتجاج کیوں نہیں پہنچاتے، ان کی انقلابی امنگ، جدوجہد اور سماجی تبدیلی کا جوش ٹھنڈا کیوں پڑا ہوا ہے۔

ملکی اقتصادی حالات پر جمہوری سیاسی عمل کی عوام دوستی کے زمین بوس ہونے پر ماہرین معاشیات دم بخود ہیں، لب بستگی کا ایک افسوسناک دورانیہ ہے، مشہور تھا کہ میڈیا عوام کے شعور کی آنچ کو تیز کر دیتا ہے، عوام کی آواز ایوان اور حکمرانوں کے شبستانوں تک پہنچ جاتی ہے، لیکن بات میڈیا کے فلسفی مارشل میکلوہن کی بھی ماننا پڑے گی جنھوں نے اپنی کتاب میں کہا تھا کہ میڈیا انسان کو بے حسی، disinterestednessگونگا پن اور ذہنی لاتعلقی کی نذر بھی کرتا ہے، اسے کوئی اجتماعی آواز سنائی نہیں دیتی، ایسے معاشرے کو lonely crowed  تنہا ہجوم بناکر سیاسی حکومتیں تماشا دیکھتی ہیں، کیونکہ حکومتوں کو یقین ہوتا ہے کہ لوگ مہنگائی کو ’’انجوائے‘‘ کرتے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے مہنگائی کے مارے عوام کو پے درپے جھٹکے لگاتے ہوئے بجلی کی قیمت میں1 روپے 68 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا۔ وفاقی کابینہ نے وزارت توانائی کی سمری پر اس کی منظوری دی۔ ذرائع کے مطابق نیپرا نے یہ اضافہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا، جس کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا۔ ادھر وزیر توانائی حماد اظہر نے وزیر مملکت فرخ حبیب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ نیپرا کو یکم نومبر سے ایک روپے 39 پیسے فی یونٹ اضافے کی سمری ارسال کر دی، فیصلے کا اطلاق 200 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے صارفین پر نہیں ہوگا۔

انھوں نے مہنگی بجلی کی ذمے داری (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی سابق حکومتوں پر ڈالتے ہوئے کہا ان ادوار میں مہنگے داموں معاہدے کیے، جس کے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔ گردشی قرضوں کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں، جس کی وجہ بجلی گھروں کی کپیسٹی ادائیگیاں ہیں، 2013ء میں 185ارب کی کپیسٹی ادائیگیاں تھیں جو 700، 800 ارب ہو چکی ہیں، ان میں اضافہ ہوگا اور 2030 میں 2500 سے 3000 ارب تک ہو جائیں گی۔ 6 سے 10ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوتا جائے گا اور مہنگی بجلی لگانے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

حکومت جس قیمت پر بجلی خرید کر صارفین کو دے رہی ہے، اس میں ڈیڑھ سے دو روپے کا فرق آرہا ہے، اسے سالانہ استعمال ہونے والے اربوں یونٹس کے تناظر میں دیکھا جائے تو غیر معمولی رقم بنتی ہے جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ اب کسی وزیر یا سیکریٹری کے آفس میں بیٹھ کر بجلی گھر لگانے کا فیصلہ نہیں ہوگا، سی سی آئی سے طویل مدتی معاہدہ منظور کرلیا۔

حماد اظہر نے کہا برطانیہ سے لے کر بھارت تک بجلی کا بحران ہے، کووڈ 19کے بعد گیس لائنز متاثر ہوئیں، پاکستان میں یورپ یا روس کی طرح گیس کا بحران نہیں، برطانیہ میں گیس کی قیمت 500 فیصد بڑھی، پاکستان میں 2019 سے اضافہ نہیں ہوا، نومبر اور دسمبر کے لیے آر ایل این جی کے 10کارگوز کے ٹینڈر حاصل کرچکے ہیں۔ ملکی سطح پر گیس کی پیداوار میں گزشتہ 15برسوں میں 9 فیصد سے بتدریج کمی آرہی ہے۔

ایک سوال پر وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا نواز شریف حکومت نے 45 فیصد مہنگے بجلی گھر لگا کر قومی جرم کیا، یہ حکومتی نقطہ نظر ہے دوسری جانب اسٹورز پر گھی، آئل، صابن، ہینڈ واش، شربت، نوڈلز سمیت متعدد اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ کوکنگ آئل اور گھی کے ایک کلو پیکٹ کی قیمت میں 15 سے 20 روپے تک اضافہ ہوا۔ برانڈڈ گھی کے ڈھائی کلو والے ڈبے میں42  روپے تک اضافے کے بعد 868 سے بڑھ کر 910  روپے کا ہوگیا۔ برانڈڈ گھی کے 10 کلو والا ڈبے کی قیمت میں 1090 روپے تک اضافے کے باعث 2500  سے بڑھ کر 3590  روپے کا ہوگیا۔

دریں اثنا ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے گزشتہ ہفتے مہنگائی میں مزید 0.20 فیصد کا اضافہ ہوگیا ۔ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی مجموعی شرح 12.66 فیصد تک پہنچ گئی۔ ایک ہفتے میں22 اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ،10 کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔

وفاقی ادارہ شماریات کے ہفتہ وار اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی میں 0.20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مہنگائی کی مجموعی شرح 12.66 فیصد تک پہنچ گئی۔ کم آمدنی والوں کے لیے مہنگائی کی شرح 14.12فیصد تک پہنچ گئی۔ ایک ہفتے میں لہسن، چاول، مٹن، آلو، گڑ سمیت 22 اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کلو ٹماٹر11روپے تک مہنگا ہو گیا۔ ایل پی جی گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 43 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ برانڈڈ گھی کا اڑھائی کلو کا ٹن 6 روپے 90 پیسے مہنگا ہوا۔ برانڈڈ گھی فی کلو2  روپے99 پیسے مہنگا ہوا ہے۔

ایک ہفتے میں چینی6 روپے72 پیسے سستی ہوئی۔ زندہ مرغی فی کلو4  روپے اور انڈے فی درجن6 روپے تک سستے ہوئے۔ آٹے کا 20  کلو تھیلا11 روپے سستا ہوا۔ دال ماش، دال مونگ، دال مسور اور کیلے سستی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔ 19 اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہیں۔

دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے ایک بیان میں کہا کہ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی تباہی پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اوپر سے حکومت نے نیا بم پھینک دیا، حکومت آئی ایم ایف کی قربان گاہ پر معیشت اور قوم کو قربان کر رہی ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پر اندھا دھند عمل کرنیوالی حکومت نے عوام کے مفاد کا خیال نہیں رکھا، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ظلم ہے۔

حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا تازیانہ برسایا ہے، تین سال میں گردشی قرض دوگنا سے زیادہ ہو کر 2.5  کھرب ہوگیا، حکومت نے مہنگائی اور نا اہلی سے تین سالوں میں عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا، چکی کا آٹا 82 روپے کا ہو چکا، سردیوں میں ایک بار پھر گیس بحران کا سامنا کرینگے۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کی منظوری قابل مذمت ہے،1.68 فی یونٹ اضافہ کر کے عوام پر اربوں روپے کا بوجھ منتقل کیا جا رہا ہے۔

مہنگائی کے حقائق انتہائی تلخ ہیں، دنیا میں اپوزیشن سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں، فرانس میں یلو کیپ کی تحریک حکومت سے ٹکراتی ہے، بھارتی کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے مودی سرکار کو ناکوں چنے چبوائے ہیں، تیونس میں ایک مزدور نے سڑک پر احتجاج کیا تو حکومت کا تختہ دھڑن ہوا، پاکستان کا ماضی عوام اور سول سوسائٹی کی فعالیت اور خوئے احتجاج سے عبارت ہے، ایوب خان کے دور آخر کی مہنگائی پر حبیب جالب کے کلام کے باعث عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے جمع ہونے کا پیغام ملتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما کہاں غائب ہیں، بعض نے اپنی انجمنیں بنائی ہیں، ٹی وی پر باتیں کرتے ہیں، ان کی ترقی پسندی خاموش ہے، دل میں بے تاب تمنا کا کوئی شعلہ بھی نہیں، حکمران جماعت مہنگائی کی تاویلیں پیش کر کے جرم غریبی پر لوگوں کے دل جلاتے ہیں، محنت کشوں کی خوئے اجتماعیت کو شاید دیس نکالا دیا جاچکا ہے، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، سول سوسائٹی، مزدور تنظیمیں عوام کی نگہبانی کی جمہوری روایت فراموش کرچکی ہیں، ان کی خاموشی جمہوری عمل کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ مہنگائی پر خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں بھی خاموشی ہے، اس خاموشی سے حکومت کا یہ کہنا درست ثابت ہوجاتا ہے کہ ’’کہاں ہے مہنگائی عوام تو خوش ہیں، موج مستی میں گم ہیں‘‘ ۔

کیا واقعی اس خاموشی اور سناٹے میں کوئی طوفان تو پوشیدہ نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ عوام دوستی پر مبنی سیاسی کلچر کی اساس اجتماعی جمہوری روایات کے دم سے قائم رہتی ہے، پاکستانی نظریاتی سیاست میں عوام کی شمولیت تھی تو حکومت کسی چیز کے نرخ بڑھانے سے پہلے اس سے پیدا ہونے والے ردعمل پر سوچتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے، یہ مہنگائی اپنا تسلسل اس جواز میں ڈھونڈتی ہے کہ صرف عوام سے کہا جاتا ہے کہ وہ مہنگائی پر احتجاج کرے، کوئی حکومت و ریاست سے روزگار کے بنیادی حق کی فراہمی پر بھی تو سوال کرے، اقتدار کا مزہ لوٹنے والی سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیدار دکھاوے کے لیے سہی لیکن مہنگائی کے بارے عوام کا ساتھ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔