یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 17 اکتوبر 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

میرے زمینی خدائوں خدارا ہمیں بھیانک، وحشت ناک اور ڈراونے پاکستان کا اصل چہرہ دکھانے کے بجائے مصنوعی ، تصوراتی ، میک اپ زدہ ، جھوٹا اور خوابوں کا پاکستان کا چہرہ دکھانا بند کردو ، کیونکہ ہم پاکستان کے اصل چہرے سے واقف ہیں لیکن تم اصل چہرے سے کیسے واقف ہوسکتے ہو کیونکہ جب کسی نے قحط سالی کا سامنا کیا ہو، بھوک سے ہونے والی اموات اس کے سامنے ہو رہی ہوں تب ہی وہ پوری طرح آنکھیں کھول کر بد قسمتی کی حالت کو دیکھ سکتا ہے۔

جب کسی نے اپنی عاجز آنکھوں سے پھیکی پڑی ہوئی دن کی روشنی میں بھوکے بچوں کے چہرے دیکھے ہوں جب تلملاتی ہوئی مائوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بچوں کو مایوسی کے عالم میں دودھ سے خالی اپنی چھاتیوں سے لگاتے دیکھا ہوگا اور مردوں کے بھوت جیسے ڈھانچوں کو فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر پڑے جب وہ صرف مہربان موت کے انتظار میں ہوں دیکھا ہوگا تب ہی وہ سمجھ سکے گا کہ اصل چہرہ کیا ہے او ر تب ہی وہ سوالات کی اصلی نوعیت کو سمجھ سکے گا۔

یقیناً جنھوں نے ہمارے برباد پاکستان میں سمائی ہوئی محرومی کو خود دیکھا ہو اور انھیں عملی طور پر بے انت دکھوں کا کچھ تجربہ ہو تو انھیں احساس ہونا چاہیے کہ اب لوگ محض وعدوں ، دعوئوں ، اعلانات پر بھروسہ نہیں کرسکتے انھیں عملی اقدامات نظر آنے چاہییں۔

آج پاکستان ایسی جگہ میں بدل گیا ہے جہاں بھوک کا دیو خوف ناک فصل کاٹ رہا ہے۔ اس لیے اب صرف باتیں ہی باتیں فضول ، لچر، لغو کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں۔ اب جیتے جاگتے گوشت پوست سے انسان صرف باتوں اور خوابوں پر زندہ نہیں رہ سکتے۔ زمینی حقائق انتہائی ہولناک ہوچکے ہیں بھوکے پیٹ باتوں اور خوابوں سے نہیں بھرتے۔ اب وہ تمہاری سونے کی روٹیوں کا مزید انتظار نہیں کرسکتے، انھیں آج ہی گندم کی روٹی چاہیے۔

بھوکے پیٹ تمہاری طرح انتہائی خود غرض ہوتے ہیں جو زمین رہنے والوں کے پیٹ نہیں بھرتی ہے تو پھر اس میں رہنے والے اس زمین میں زہر بھرنا شروع کردیتے ہیں پھرکچھ عرصے بعد زمین سے گندم نہیں بلکہ زہر کی فصلیں اگتی ہیں، زمین اور انسان دونوں ہی زہریلے ہوجاتے ہیں۔

ذہن میں رہے زہر کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں نہ ہی دل اور نہ ہی ذہن ہوتا ہے وہ، وہ ہی کام کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ، اگر محلوں میں رہنے والے اور قلعوں میں بند یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اور بے وقوف ہیں۔ زہر اور زہریلے ان جگہوں سے ان کے محلوں اور قلعوں میں چپ چاپ داخل ہوجاتے ہیں جہاں سے ان کو کبھی امید ہی نہیں ہوتی ہے پھر وہ ہی کام کرتے ہیں جو وہ کرتے ہیں وہ ہر چیز اور انسانوں کو جلا کر رکھ دیتے ہیں۔

اگر تم ان حالات کو اپنی کامیابی اور فتح سمجھتے ہو تو ذرا تاریخ میں محفوظ بادشاہ اشوک کا گریہ ضرور پڑھ لینا ، جب اشوک اپنے عظیم لشکر کے ساتھ ریاست کالنگا پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا اور پھر طاقت کے نشے میں دھت اپنے گھوڑے پر سوار ہو کرکالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے نکلا تو اس نے دیکھا کہ میدان میں دور دور تک ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ مردار خور گدھ ان پر اتر آئے ہیں بہت سے نیم مردہ ہیں کراہتے اور پانی مانگتے ہوئے۔

پڑوس کی بستیوں کی عورتوں آن پہنچی ہیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو تلاش کر رہی ہیں اور آہ و بکا کر رہی ہیں۔کالنگا کے میدان میں بادشاہ اشوک نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اتر گیا اور اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا ’’ یہ میں نے کیا کردیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں ؟ فتح ہے یا شکست ؟ یہ انصاف ہے یا انصافی ؟ یہ شجاعت ہے یا بزدلی ؟ کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے ؟

کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے؟ کسی نے اپنا شوہرکھو دیا ، کسی نے اپنا باپ اورکسی نے اپنا بچہ اورکوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں ، یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے ‘‘ انسانوں کی بربادی کسی کی فتح نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تمام حریفوں کی شکست ہوتی ہے جس وقت موت ایک قبر سے دوسری قبر تک لنگڑاتی پھرتی ہے تو اس وقت موت کی کراہیں صاف سنائی دیتی ہیں۔

یاد رکھو چیتھڑوں میں لپٹے ، بیمار ، بھوکے ، بدحواس انسان انسانیت کا دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں جب زندگی چرا لی جاتی ہے اور اس کی جگہ موت عطا کر دی جاتی ہے تو پھر اس جگہ وحشت بھی چیختی چلاتی ہے۔ جب ہم تمدن کی بات کرتے ہیں تو قدیم انسان کو اس لیے غیر ترقی یافتہ کہتے ہیں کہ وہ وحشی تھا ظالم تھا اور خود غرض تھا تو کیا آج انسان کم وحشی ہے کم ظالم ہے اورکم خود غرض ہے؟

مستقبل کبھی مایوس ، لاشوں، خون ، بے اعتمادی ، نفرت پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا جو حالات ہمارے آج ہیں اور جو کل تھے اور جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑا ہوا ہے تو ہمارا آنے والا کل بھی آج سے مختلف نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پورے ملک میں لوبان کی خوشبو پھیلی رہی گی ، اسی طرح سے اذیتوں کو دورکرنے کے لیے دعائیں مانگی جارہی ہونگی۔ اسی طرح سے ہر شخص موت کی زد میں ہوگا ، اسی طرح سے گھر گھر گریہ ہورہا ہوگا۔ اس سے ہر شخص روز ماتم کر رہا ہوگا، اسی طرح سے ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہونگے ہر طرف اسی طرح سے کرب ناک چیخ و پکار جاری ہوگی۔

ہماری حالت دیکھ کر عظیم یونانی ایسکائی لیس کا لکھا ڈرامہ ’’ پرومی تھیوس ‘‘ یاد آجاتا ہے۔ ’’ پرومی تھیوس کا باپ آئی پیٹوس تھا ، اس نے انسان کو مٹی سے بنایا اور جب زیوس نے ان پر بہت ظلم ڈھائے اور ان کو آگ سے محروم کر دیا تو اس نے ہیفا سٹوس کی بھٹی سے آگ چرا کر انسانوں کو عطا کی اور انھیں صنعت و کاریگری کے فنون سے متعارف کرایا زیوس کو اس کی یہ حرکات سخت نا پسند تھیں ، گو اپنے باپ کرونس کو شکست دینے کے لیے اسے پرومی تھیوس کی مدد درکار تھی اور کرونس کے خلاف جنگ میں پرومی تھیوس نے زیوس کی مدد کی تھی۔

اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد زیوس اولمپس پہاڑ کے دیوتائوں کا سردار بن گیا لیکن بعد میں اس کی انسان دوستی نے زیوس کو دشمن بنالیا۔ اس جرم کی پاداش میں زیوس نے پرومی تھیوس کوہ قفقاز کی ایک چٹان سے باندھ دیا جہاں ایک گدھ روز اس کا جگر کھاتا اور وہ جگر پھر اپنی اصل حالت میں واپس آجاتا۔

ڈرامے کے ایک منظر میں ہر میز ( پیغامبر دیوتا ) پرومی تھیوس سے کہتا ہے -’’ایک مدت گزر جائے گی اور تمہیں نصیب ہوگا دیکھنا روشنی کو لیکن زیوس کا پرند کتا ایک خون آشام گدھ بن بلائے مہمان کی طرح تمہاری دعوت اڑانے آئے گا سارا دن وہ تمہارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرے گا تمہاری بوٹیاں نوچے گا اور وحشیوں کی طرح سیاہ جگر کھائے گا اس اذیت سے نجات کا کوئی راستہ نہیں‘‘ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب پرومی تھیوس ہیں اور سب کوہ قفقاز کی چٹان پر بندھے ہوئے ہیں۔ روزگدھ آتا ہے ہمارے جگرکھاتا ہے پھر جگر اصل حالت میں واپس آجاتا ہے ، اگلے روز پھرگدھ آتا ہے اور پھر ہمارے جگر کھاتا ہے یہ ہی سب کچھ ہمارے ساتھ سالوں سے اسی طرح سے ہوتا آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔